پاکستان کی سلامتی سے متعلق معجزات پر میرا ہمیشہ پختہ
یقین رہا ہے لیکن صبح اخبار میں کشن گنگا ڈیم کے افتتاح کی خبر دیکھی تو
میرا یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا۔"وقت کرتا ہے پرورش برسوں" کے مصداق یہ حادثہ بھی
ایکدم رونما نہیں ہوا بلکہ اس کی تاریخ میں ہمارے سیاستدانوں اور حکمران
طبقہ کی غفلت اور کوتاہیوں کے کئی ابواب ہیں۔19ستمبر 1960کو پاکستان اور
بھارت کے درمیان تاریخی سندھ طاس معاہدہ ہوا جس کے مطابق تین مشرقی دریا
راوی، ستلج اور بیاس پر بھارت جبکہ تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب
کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا۔ ان دریاؤں کا مشترک پہلو یہ ہے کہ
پنجاب کے میدانوں کو سیراب کرنے والے تمام دریا مقبوضہ کشمیر سے نکل کر آتے
ہیں جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے کبھی پاکستان کا پانی روک کر بنجر
کرنے کی دھمکیاں دیں تو کبھی سیلابی ریلا چھوڑ کر پاکستان میں بربادی کا
نظارہ کیا۔اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں دریائے ستلج قصہ پارینہ بن چکا
ہے، دریائے بیاس اپنا وجود کھو چکا ہے اور دریائے راوی ندی کا منظر پیش
کرتا ہے۔دریا ئے ستلج، بیاس اور راوی کے بند ہونے سے ان علاقوں میں آباد
5کروڑ انسان پینے کے صاف پانی سے محروم ہو چکے ہیں۔ اس کمی کو 5 لاکھ ٹیوب
ویلوں کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے زمینی پانی کی سطح
خطرناک حد تک نیچے چلی گئی ہے اور کئی قسم کی بیماریاں پھیل چکی ہیں۔اس پر
بس نہیں بلکہ بھارت اب پاکستان کے مغربی دریاؤں پرپر ڈیمز تعمیر کر کے اور
ان کا رخ موڑکر پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لیے محتاج کرنا چاہتا ہے۔
6000کروڑ روپے کے خطیر سرمایہ سے دریائے نیلم پر تعمیر ہونے والا کشن گنگا
ڈیم اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس سے بھارت 330میگاواٹ بجلی حاصل کرے گا۔ اس
پیداوار سے ریاست کی حکومت کو صرف 12فیصد حصہ ملے گا اور
باقی88فیصداستعماری طرز کی مرکزی کمپنی NHPCدہلی، پنجاب اور ہریانہ کو بیچ
کر منافع کمائے گی۔پروجیکٹ میں 37میٹر لمبا ڈیم شامل ہے جس کے ساتھ ساتھ
29کلومیٹر کی ایک طویل ٹنل کے ذریعے ڈیم سے پانی کو موڑ کر ولر جھیل میں
ڈال دیا جائے گا۔دریا کے قدرتی بہاؤ کو تبدیل کرنے کی وجہ سے اب یہ دریا
وادی نیلم میں نہیں بہے گا جس کی وجہ سے اس وادی کا 41 ہزار ایکڑ رقبہ بنجر
ہوجائے گا۔دریائے نیلم سے یہاں کے ساڑھے چار لاکھ لوگوں کی زندگی وابستہ ہے
جو دریا کے کنارے چاول اور دیگر فصلیں کاشت کر کے اپنا گزر بسر کرتے
ہیں۔اڑھائی سو گاؤں پر مشتمل اس پسماندہ علاقے کادوسرا بڑا ذریعہ معاش ماہی
گیری ہے جس کے ذریعے سالانہ بارہ سو ٹن ٹراؤٹ مچھلی مقامی مارکیٹ میں
پہنچتی ہے۔کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کو سالانہ 140ملین ڈالر کا
نقصان متوقع ہے۔اس ڈیم کی تعمیر سے نہ صرف مقامی آبادی کی زندگیاں داؤ پر
لگی ہیں بلکہ درختوں کے کٹاؤ کی وجہ سے وادی کا ماحول اور حسن بھی خطرے میں
پڑ گیا ہے۔یہی نہیں اس ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے ہمارا 27 فیصد پانی کم
ہوجائے گا اور نیلم جہلم ہائڈرو پاور پراجیکٹ کی پیداواری صلاحیت میں
20فیصد تک کمی آجائے گی۔یاد رہے کہ نیلم جہلم وہی پراجیکٹ ہے جس کے لیے ملک
بھر کے بجلی صارفین گزشتہ دس سال سے این جے سرچارج کی صورت میں 10 پیسے فی
یونٹ کی ادائیگی کر رہے ہیں۔1989ء میں صرف 15 ارب روپے کی لاگت سے شروع
ہونے والے اس منصوبے کا تخمینہ اس ماہ 500.3بلین روپے تک پہنچ چکا ہے۔دنیا
بھر میں ہائیڈل پاور کا یہ مہنگا ترین پراجیکٹ ہے جو تاحال مکمل نہیں
ہوپایا۔اس منصوبہ پر اس قدر لاگت کیونکر آ ئی اور اس کی تاخیر کی کیا
وجوہات ہیں اس کے لیے ایک علحیدہ کالم درکار ہے۔
اس تمام صورتحال میں ہمارے سیاستدانوں، میڈیا اور عوام کی غفلت ناقابلِ
معافی ہے۔ 2007 میں جب اس منصوبے پر کام شروع ہوا تواسے روکنے کے لیے
پاکستان کو بین الاقوامی کورٹ آف آربیٹر یشن میں جانا پڑا۔ اکتوبر 2011 میں
اس عدالت نے بھارت سے کام روکنے کو کہا لیکن اس نے حکم کی پروا نہ کرتے
ہوئے کام کو جاری رکھا۔ 2013 میں عالمی ثالثی عدالت نے نہ صر ف پاکستان کے
اعتراضات مسترد کر دیے بلکہ بھارت کو پانی کا رخ موڑنے کی اجازت دے دی۔اپنے
فیصلہ میں عالمی عدالت نے لکھا کہ "حکومت پاکستان نے پانی کے موجودہ اور
متوقع زرعی استعمال کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار پیش نہیں کیے"۔تمام
سائنسی اور زمینی حقائق کے مطابق یہ کیس مکمل طور پر پاکستان کے حق میں تھا
لیکن سابق نڈس واٹر کمشنر جماعت علی شاہ اور ان کی ٹیم کی غفلت کے باعث
پاکستان اپنا موقف واضح طور پر پیش کرنے میں ناکام رہا۔اس مقدمے میں
پاکستان نے مجموعی طورپر57 کروڑ60لاکھ روپے خرچ کیے جس میں سے عالمی عدالت
جانے والے وفد نے 32 کروڑ روپے ہوائی سفر، رہائش،فیسوں اور کھانوں پر خرچ
کر دئیے جبکہ غیر ملکی وکیل کو 450 پاونڈ فی گھنٹہ ادا کیے گئے۔ پروفیسر
وان لو کو وکالت کے لیے 750 ڈالر فی گھنٹہ کی ادائیگی کی گئی جبکہ سینئر
مقامی وکلا کو475 اور جونیئر وکلا کو300ڈالر فی گھنٹہ دیئے گئے۔عالمی سطح
پر یہ پاکستان کی ایک بڑی ناکامی تھی جس نے آئندہ وقتوں کے لیے پاکستان میں
آبی بحران کی بنیاد رکھ دی۔لیکن بدقسمتی سے نہ اس موضوع کو میڈیا میں جگہ
مل سکی اور نہ ہی کسی حکمران یا اپوزیشن لیڈر نے اس کے لیے آواز
اٹھائی۔گزشتہ روز کشن گنگا ڈیم کے افتتاح پر پاکستان کی طرف سے شدید احتجاج
کیا گیا ہے کہ اور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی سربراہی میں ایک وفد امریکہ
بھیجا گیا ہے لیکن "اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت"ْْ۔
پرانے وقتوں میں حملہ آور قلعہ کی سپلائی لائن کاٹ دیتے تھے تاکہ محصورین
تک پانی اور رسد نہ پہنچ سکے اور وہ بھوک پیاس سے تنگ آکر ہتھیار ڈال دیں۔
بھارت جنگی میدان میں پاکستان کو شکست دینے میں ناکام ہونے پر ہمارے تین
دریاؤں پر ڈیم تعمیر کر کے اورٹنلوں کے ذریعے پانی ڈائیورٹ کر کے ہمیں بوند
بوند پانی کو ترسانے پر تلا ہوا ہے تاکہ پاکستان صومالیہ، ایتھوپیا
اورراونڈا کی طرح زندہ انسانوں کا گورستان بن جائے۔پاکستان کی وزارت پانی و
بجلی کے مطابق بھارت مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریاؤں کے پانی سے 1800
میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے اور اس مقصد کیلئے دریائے جہلم، چناب اور سندھ
پر چھوٹے بڑے 30ڈیم تعمیر کئے جا رہے ہیں۔ دریائے چناب پر دہل ہستی ہائیڈرو
پاور پروجیکٹ سے 390میگاواٹ، دریائے چناب پر بگلیہار ہائیڈرو پاور پروجیکٹ
سے 450 میگاواٹ، سلال ون اینڈ ٹو پروجیکٹ سے 690 میگاواٹ، دریائے پونچھ پر
ہرنائی ہائیڈرو پروجیکٹ سے 37.5 میگاواٹ، دریائے جہلم پر سمبال ہائیڈرو
پروجیکٹ سے 22میگاواٹ، لوئے جہلم سے 480 میگاواٹ اور دریائے سندھ پر سندھ
ہائیڈرو پروجیکٹ سے105میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے زیر کار
ہیں۔بگلیہار ڈیم کی تعمیر کے بعد پاکستان کا 2ملین کیوسک پانی بھارت کی سمت
ڈائیورٹ ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ بھارت دریائے چناب کا رخ موڑ کر دریائے بیاس
میں ڈالنے کے لیے بھی سرگرم عمل ہے۔
گزشتہ ماہ سلام آباد میں ہونے والے ارسا کی تکنیکی کمیٹی کے اجلاس میں
بتایا گیا کہ اس دفعہ سردیوں میں برف باری اور بارشیں کم ہونے کی وجہ سے
خریف میں پانی کے ذخائر 40 فیصد تک کم ہو سکتے ہیں۔ارسا کا کہنا ہے کہ
دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں کمی کے سبب خدشہ ہے کہ منگلا ڈیم بھی پوری طرح
بھر نہیں پائے گا۔آج کل حالات یہ ہیں کہ پاکستان کے ڈ یموں میں ذخیرہ ہونے
والی پانی ہماری 60 دن کی ضرورت پوری کر سکتا ہے جبکہ بھارت اپنے ڈیموں میں
220 دن کیلئے پانی جمع کر سکتا ہے اور وہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں
مزید اضافہ کرتا چلا جارہا ہے۔چند ماہ قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے
اپنی سالگرہ کے موقع پر احمد باد میں دنیا کے دوسرے سب سے بڑے اور بھارت کے
سب سے زیادہ متنازعہ ڈیم کا افتتاح کردیا۔1961ء سے رکے ہوئے اس ڈیم کی
تکمیل سے 1450میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل ہو جائے گی جبکہ اس کا
پانی12اضلاع کے تقریباً اٹھارہ ہزار کلومیٹر رقبہ کو سیراب کرے گا۔پاکستان
میں بھی کالا باغ ڈیم کو چار دہائیوں سے متنازعہ حیثیت حاصل ہے جس کی وجہ
سے سالانہ 21 ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں شامل ہو جاتا ہے۔1960ء کے
بعد سے پاکستان میں نئے آبی ذخائر کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی
گئی۔افسوسناک امر یہ ہے کہ اس قدرسنجیدہ مسئلہ کسی سیاسی جماعت کی ترجیحات
میں شامل نہیں اور نہ ہمارے دانشور اور میڈیا ہاؤسز اس موضوع پر بات کرنا
گوارا کرتے ہیں۔عالمی ادارے کئی سالوں سے پاکستان کو خبردار کر رہے ہیں کہ
اگر یہ روش نہ بدلی گئی تو 2025 میں پاکستان کو بڑے آبی بحران کا سامنا
کرنا پڑ سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کی آبی جارحیت کو روکنے کے
لیے ہر سطح پر احتجاج کیا جائے اور عالمی برادری کے ذریعے بھارت کو سندھ
طاس معاہدے پر عملداری کو یقینی بنایا جائے۔اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے
اختلافات دور کر کے کالا باغ ڈیم اور دیگر آبی ذخائر بنانے ہوں گے تاکہ ہر
سال 35ملین ایکڑ فٹ پانی سمند ر کی نذرہونے کے بجائے ہماری زراعت اور دیگر
ضروریا ت کے لیے کام لایا جاسکے۔
|