بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا ۔مسلمان ممالک کی باہمی
کشیدگی ،عناداور داخلی انتشار کا نتیجہ اس صورت میں نکلنے لگا ہے کہ اب
اسلام دشمن قوتیں بلا خوف و خطر اور بے دھڑک مسلمانوں کو روندتے ہوئے اپنے
اہداف و مقاصد کی تکمیل کی طرف بڑھنے لگی ہیں۔یروشلم میں امریکی سفارتخانہ
کا افتتاح ان حالات میں کیا گیا کہ اس غاصبانہ اقدام کے خلاف احتجاج کرنے
اور اپنی آزادی اور حق خود ارادیت کی دہائی دینے والے نہتے فلسطینیوں پر
اندھا دھند فائرنگ کرکے 60فلسطینیوں کو شہید اور 2700کے لگ بھگ کو زخمی کر
دیاگیا ۔اسرائیلی فوجی سنائپرز سے تاک تاک کر مظاہرین کو نشانہ بناتے رہے ۔
احتجاج کو دبانے اور اپنی طاقت کی دھاک بٹھانے کے لیے اسرائیلی فضائیہ اور
ڈرونز کا بھی بے دریغ استعمال کیا گیا اور اس ضمن میں تمام اخلاقی و انسانی
تقاضوں اور بین الاقوامی قوانین و ضوابطہ کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دی گئیں ۔
یہاں تک کہ زخمیوں کو ڈھونے والی ایمبولینسز اور میڈیا کی گاڑیوں تک کو نہ
بخشا گیا ۔
بین الاقوامی ضوابط ہر قوم کی آزادی و خود مختاری اور عزت و احترام کی
تائید کرتے ہیں۔ خود اقوام متحدہ کے چارٹر کی دوسری شق حق خود ارادیت و خود
مختاری کی تاکید کرتی ہے ۔اس ضمن میں جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 535اور
637سمیت کئی قراردادوں میں فلسطینیوں کے حق آزادی کی حمایت کی گئی ہے ۔اس
کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ضابطہ ہے کہ کسی بھی ملک کے کسی
علاقے پر جنگ کے ذریعے کیا گیا قبضہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ خود یورپی
یونین کا اعلامیہ اس بات پر گواہ ہے اور دنیا جانتی ہے کہ فلسطین پر صیہونی
قبضہ غاصبانہ ہے ، خاص طور پر یروشلم پر تو اس ضابطے کے مطابق اسرائیل کا
قبضہ تسلیم کیا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ یروشلم پر 1967ء کی جنگ میں قبضہ
کیا گیا ہے۔اس لحاظ سے یروشلم میں اسرائیلی دارالخلافہ کا قیام اور امریکی
سفارتخانہ کی منتقلی دونوں بین الاقوامی قوانین و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی
ہیں ۔لہٰذا ایسا تو کسی صورت ہوناہی نہیں چاہیے کجا یہ کہ فلسطینیوں سے
احتجاج کا حق بھی چھین لیا جائے اور تمام تر انسانی و اخلاقی تقاضوں کو
بالائے طاق رکھتے ہوئے ایمبولینسز اور میڈیا کی گاڑیوں پر بھی حملے کیے
جائیں ۔
آخر دشمن قوتوں کے لیے مسلمانوں کے خون ، عزت ، وقار ، آزادی ، خود مختاری
اور حقوق سے کھیلنا اتنا آسان کیوں ہو گیا ہے کہ اس کے لیے کسی انسانی یا
اخلاقی تقاضے کو مد نظر رکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی؟کیا تمام بین
الاقومی قوانین و ضوابطہ صرف غیر مسلموں کے حقوق و مفادات کو تحفظ دینے کے
لیے ہیں ؟ مسلمانوں کے جذبات ، احساسات ، حقوق اور آزادی کی کوئی قیمت کیوں
نہیں رہ گئی ؟ کیوں چند لاکھ اسرائیلیوں کے نزدیک پونے دو ارب مسلمانوں کی
حیثیت بھیڑ بکریوں کی سی رہ گئی ہے؟
فوری طور پرذہن میں پیدا ہونے والے ان تلخ سوالوں کا جواب صرف اتنا ہے کہ
جس طرح مسلمان تعداد میں کم نہیں ہیں ، اسی طرح طاقت اور وسائل میں بھی
اسرائیل سے کہیں پیچھے نہیں ہیں۔ حقیقت میں بات صرف اتنی ہے کہ مسلمانوں کی
آزادی ، حقوق ، عزت اور وقار کو ان کے حکمرانوں نے محض اپنے ذاتی مفادات
اور اقتدار کے لیے دشمن قوتوں کے ہاتھوں بیچ ڈالا ہے ۔6دسمبر کو جب امریکی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یوروشلم منتقل کرنے کا
اعلان کیا تھا تو اس وقت حالانکہ یورپی یونین نے ٹرمپ کے اس فیصلے کی
مخالفت کی تھی اور یونین کے وزرائے خارجہ نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں کہا
تھا کہ وہ 1967ء میں قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں کو اسرائیل کا حصہ
نہیں سمجھتے جن میں مغربی کنارہ ، مشرقی یروشلم اور گولان کی پہاڑیاں شامل
ہیں ۔ اس حوالے سے UNOکی ریزولوشن نمبر 478بھی موجود تھی اور سوائے چند
ممالک کے پوری دنیا فلسطینیوں کے موقف کی حمایت کر رہی تھی لیکن مسلمان
حکمرانوں کا حال یہ تھا کہ سعودی عرب ، مصر اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی
مسلم ممالک کے سربراہان OICکے اس سربراہی اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئے جو
امریکی صدر کے امریکی سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کے اعلان کے بعد ہنگامی
طور پر بلایا گیا ۔اور تو اور خلیجی ممالک کی تعاون کی کونسل ( مجلس
التعاون لدول الخلیج) کے مقاصد میں مسئلہ فلسطین کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے ۔اس
وقت بھی عرب ممالک کی اس سردمہری کو عالمی سطح پر واضح طور پر محسوس کیا
گیا تھا ۔ حتیٰ کہ BBCنے بھی اس پر تبصرہ کیا تھاکہ : ’’ 57رکنی اسلامی
تعاون کی تنظیم میں عرب ممالک کی شرکت اتنی حوصلہ افزا نظر نہیں آتی جس سے
یہ کہا جا سکے کہ امریکی صدر کی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے
کا فیصلہ واپس ہو سکے گا ‘‘۔
حقیقت صاف طور پر واضح ہے کہ امریکہ اور اسرائیل چاہے کتنے ہی بڑے دشمن
کیوں نہ ہوں وہ مسلمانوں کو اس طرح نقصان نہیں پہنچا سکتے جتنا وہ مسلم
حکمرانوں کے دوغلے اور مفادپرستانہ طرزعمل کی وجہ سے پہنچا رہے ہیں ۔دنیا
میں پونے دوارب مسلمان ہیں اور 57اسلامی ممالک۔ اگر ان میں سے صرف 25اسلامی
ممالک ہی امریکہ اور اسرائیل سے سفارتی اور تجارتی بائیکاٹ کا اعلان کر دیں
تووہ کچھ ہی عرصہ میں مسلمانوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیں گے اور مذاکرات کی میز
پر آکر تمام مسائل مسلمانوں کی شرائط کے مطابق حل کرنے پر مجبور ہوں گے ۔کیونکہ
موجودہ دور میں کسی بھی ملک کی اصل طاقت کا راز اس کی معیشت میں پوشیدہ
ہوتا ہے ۔خاص طور پر امریکہ کی معیشت کا دارومدار تو ہے ہی زیادہ تر عرب
ممالک کے تیل اور ان کو اسلحہ کی فروخت پر۔لہٰذا صرف عرب ممالک ہی امریکہ
اور اسرائیل کو لگام ڈالنے کے لیے کافی ہو سکتے ہیں مگر یہ اس صورت میں ہو
سکتا تھا جب عرب حکمرانوں کو اسلام اور مسلمانوں کا اجتماعی مفاد عزیز
ہوتا۔لیکن بجائے اس کے دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ اسلام سے جتنا خطرہ امریکہ
اور اسرائیل کو محسوس ہو رہا ہے ، اس سے زائد شاید عرب حکمرانوں کو محسوس
ہو رہا ہے ۔کیونکہ اسلام ایک پورا نظام حیات ہے۔ اسی نظام کو عرب حکمران
بھی اپنے اقتدار کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور اس خطرے سے نمٹنے کے
لیے امریکہ اور اسرائیل کے تلوے چاٹ رہے ہیں۔عالم اسلام کو جس متحدہ عرب
آرمی کے حوالے سے اتنی خوش فہمیاں تھیں وہ بھی بنیادی طور اسلام کے خطرے سے
نمٹنے کی ہی ایک کوشش ہے جس کی پشت پناہی بھی امریکہ اور اسرائیل کر رہے
ہیں ۔سعودی عرب میں ماڈرنائزیشن کا عمل بھی انہیں کوششوں کا ایک حصہ
ہے۔گویا اسلام اور مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کے خلاف امریکہ ، اسرائیل
اور عرب حکمران ایک دوسرے کے اتحادی ہیں اور یہی اتحاد امریکہ اور اسرائیل
کی سُپر میسی اور جارحیت کا اصل باعث ہے اور اس کی تین وجوہات ہیں ۔
1۔ ظاہر ہے اگر اسلام کے خطرے سے ٹمٹنے کے لیے مصر میں سیسی مسلمانوں کو
ٹینکوں تلے کچلے گا ، شام میں بشارالاسد مسلمانوں کی پوری پوری بستیوں کا
کیمیائی ہتھیاروں سے صفایا کرے گا، کچھ ایسی ہی سفاکیت سعودی عرب میں بھی
دکھائی دے گی تو اسرائیل کو فلسطینیوں کے قتل عام کا جواز کیوں نہیں ملے گا
؟
2۔ عرب ممالک کے امریکہ کے ساتھ دفاعی اور تجارتی معاہدے امریکی معیشت کے
استحکام کا باعث ہیں۔کچھ عرصہ قبل ہی سعودی عرب نے 350ارب ڈالر کے معاہدے
کرکے امریکہ کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دیا ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکہ
کو اس کی معاشی فکر اجازت ہی نہ دیتی کہ وہ یروشلم میں امریکی سفارتخانہ
کھولنے کا اعلان کرکے اہم عرب اتحادیوں کو ناراض کرنے کا رسک لے سکے ۔لیکن
سعودی حکمرانوں کے حکمت اور دوراندیشی سے محروم فیصلوں نے امریکہ کی بدمستی
کی عمر میں مزید اضافہ کر دیا۔ اسی طرح عربوں کا وہ سارا پیسہ جو یورپی اور
امریکی بینکوں میں ہے براہ راست امریکہ اور اسرائیل کو بدمست ہاتھی بنائے
ہوئے ہے ۔
3۔ سب سے زیادہ جو چیز مسلم حکمرانوں کو اسلام دشمن قوتوں کا آلۂ کار بننے
پر مجبور کرتی ہے وہ ان کا داغدار کردار ہے جو انہوں نے اقتدار کے حصول کی
خاطر اُمت اور اسلام کے خلاف ادا کیا ۔ گویا ان کا اقتدار شروع سے ہی اسلام
دشمن قوتوں کی مدد کا محتاج ہے لہٰذا اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے اسلام
دشمن قوتوں کو خوش رکھنا ان کی مجبوری ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہ اسلام اور
اُمت کے غدار ہیں لہٰذا انہیں پناہ بھی غیروں کے ساتھ اتحاد میں ہی نظر آتی
ہے۔مثال کے طور پر فلسطین شام کا حصہ تھا اور شروع میں ہی اسرائیل سے نمٹنے
کے لیے ایک شام ہی کافی تھا مگراسرائیل کے قیام اور استحکام میں شام کے
حکمران خاندان کا جو کردار رہا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔1967ء کی عرب
اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی فتح کو یقینی بنانے اور بعد ازاں لبنان میں
شامی فوج اُتار کر فلسطینی گوریلوں کو تہہ تیغ کرنے میں حافظ الاسد نے جو
کردار ادا کیا اس کی تفصیل خود گولان انٹیلی جنس کے سربراہ خلیل مصطفیٰ نے
اپنی کتاب ملفات طواغیت ومجرمی سوریا(سیریا کے مجرموں کی فائل) میں تمام
ثبوتوں کے ساتھ درج کی ہے اور وہی انکشافات بعث پارٹی کے لیڈرسامی انحلیلی
نے ٹائم میگزین کوانٹرویودیتے ہوئے بھی کیے ہیں ۔ لیکن حافظ الاسد کو اسی
داغدار کردار کی بناء پر شام کا صدر بنا دیا گیا اوراس کا بیٹا بشارالاسد
انتہائی متنازعہ ہونے کے باوجود آج بھی شام پر کیوں مسلط ہے اس کا جواب خود
امریکی وزارت خارجہ کے ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹJeffery Feltman نے جنوری 2010ء
میں واشنگٹن کے ہڈسن انسٹیٹیوٹ میں ان الفاظ میں دیا : ’’اسرائیل کی خواہش
ہے کہ بشارالاسد کی حکومت اس قدرکمزورہوجائے کہ وہ اس کے مخالف کسی گروہ کی
مدد کرنے کے قابل نہ رہے، مگروہ کسی طورپربھی بشارالاسد حکومت کا خاتمہ
نہیں چاہتا اس لیے کہ اسرائیل ہی تووہ ملک ہے جس نے بشارالاسد کوعالمی
تنہائی سے نکالنے کے لئے عالمی دروازے کھلوائے ‘‘۔ ظاہر ہے اگر بشارالاسد
کا اقتدار صرف صیہونیوں کے دم سے قائم ہے تو وہ اسرائیل کے لیے خدمات
سرانجام کیوں نہیں دے گا ؟ اسی لیے فیلٹ مین نے کہا کہ بشارالاسد اسرائیل
کواس لیے عزیز ہے کیونکہ اسد خاندان نے 1974ء سے لے کر2011ء تک اسرائیل
کوہمیشہ سکون کا سانس لینے دیا اوراس دوران اسرائیل نے نہ صرف گولان کی
پہاڑیوں پراپنا قبضہ مضبوط کیا، بلکہ اسے اسرائیل میں شامل بھی کرلیا۔ اسی
طرح غزہ میں محصور فلسطینیوں کا بیرونی دنیا سے رابطہ ، اشیائے خوردو نوش
اور ادویات پہنچانے کا واحد ذریعہ وہ سرنگیں تھیں جو مصر کی سرحد پر واقع
تھیں ۔ مگر جنرل السیسی نے مصر کے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی سب سے پہلے ان
سرنگوں کو بند کر دیا ۔ اس لیے کہ السیسی کا اقتدار بھی یہود ونصاریٰ کے
مرہون منت ہے ۔اس کے بعدآل سعود کا اقتدار ، مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ان
کاکردار، یہودو نصاریٰ سے دوستیاں اور تجارتی و دفاعی معاہدے کسی وضاحت کے
محتاج نہیں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی عالمی طاقت کا سرچشمہ اسلام کا اجتماعی سیاسی
نظام تھا مگر حکمرانوں نے محض اقتدارکے حصول کی خاطر اس کو ختم کرنے میں
اسلام دشمن قوتوں کا ساتھ دیا ۔لہٰذا مسئلہ فلسطین سمیت جتنے بھی مسائل آج
اُمت مسلمہ کو درپیش ہیں ان کی بنیادی وجہ اجتماعی سیاسی نظام کا نہ ہونا
ہے۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ پونے دو ارب مسلمان اور ان کے حکمران
دوبارہ ایک اجتماعی سیاسی نظام کی ضرورت کو محسوس کریں کیونکہ وہی ایک فطری
حل ہے جو مسلمانوں کو متحد اور منظم کر سکتا ہے ۔ اسی صورت میں مسئلہ
فلسطین سمیت تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں ، مسلمان دوبارہ دنیا میں ایک قوت
بن کر اُبھر سکتے ہیں اور اُمت کا وقار بھی بحال ہو سکتا ہے ۔ |