پاکستان ایک ایسا غریب ملک ہے جس کے عوام مقتدر و
بااختیار مافیا کی ٹیکس چوری ‘ کرپشن ‘ عیاشی ‘ ناانصافی ‘ ظلم ‘ جبر‘
لاپراہی ‘ غیر ذمہ داری‘ منافقت ‘ مفاد پرستی اور غداری کی وجہ سے مفلسی ‘
مفلوک الحالی ‘ بیروزگاری ‘ جہالت ‘ لاعلاجی ‘ پینے کے پانی کی عدم دستیابی
‘ بجلی کی بندش ‘ گیس کی نایابی اور بنیادی سہولیات کیساتھ امن وتحفظ سے
محرومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور سرکار نے محنت و مشقت کرنے والے
ان مجبور مگر محب وطن افراد کیلئے کم ازکم ماہانہ اجرت 13ہزار روپے ماہوار
طے کی ہے تاکہ ان میں سے کوئی کبھی پیٹ بھر نہ کھاسکے اور پیٹ بھر کھالے تو
تن نہ چھپاسکے اور اگر تن چھپانے کسی طرح کامیاب ہوجائے تو گھر کے چھت کے
نیچے سر نہ چھپاسکے اور اللہ اسے سر چھپانے میں بھی کامیاب کردے تو بچوں کو
تعلیم نہ دلاسکے تاکہ سیاسی خاندانوں حصول اقتدار کیلئے اپنی سیاست کی
بھینٹ چڑھانے کیلئے قربانی کے بکرے با آسانی دستیاب رہیں مگرلاکھوں روپے کی
تنخواہ پانے والے اقتدار ‘ اختیار‘ انتظام اور وسائل پر قابض شیطان عوام کی
اس دگرگوں حالت سے بھی مطمئن نہیں اور ان کی کوشش و سازش ہے کہ عوام
پاکستان کو غربت کی لکیر سے بھی نیچے اس سطح تک لیجایا جائے جہاں ان کیلئے
روٹی کے حصول سے بڑھ کر کوئی اور ترجیح نہ رہے ‘ نہ وہ انصاف مانگیں ‘ نہ
مساوات کا سوال کریں ‘ نہ استحصال کیخلاف آواز اٹھائیں ‘ نہ احتساب کی بات
کریں ‘ نہ جمہوریت کا نام لیں اور نہ شخصی آمریت پر لب کشائی کریں ‘ عوام
کو روزی اور روٹی کیلئے اس قدر ترسادیا جائے کہ روٹی دینے کے وعدے پر بھی
اپنی مرضی کے انتخابی نشان پر ٹھپہ لگواکر ووٹ لے لیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ
سالہا سال سے ملک وقوم کو لوٹنے ‘ قومی وسائل کی بندر بانٹ کرنے ‘ کمیشن و
کوٹے پانے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے ذریعے ملک و قوم کو نقصان
پہنچاکر زمینیں ‘جائیدادیں ‘ فیکٹریاں ‘کارخانے ‘ پٹرول پمپ ‘ ہوٹل ‘
دکانیں ‘ اسکول ‘ کالجز ‘ یونیورسٹیاں بناکر اپنی امارت و شان میں اضافہ
کرنے والے تمام تر وسائل‘سہولیات ‘ دولت اور اختیارات کے باوجود بھی اپنی
تنخواہوں میں اضافے کیلئے بے چین و بیقرار رہتے ہیں اور جہاں موقع ملتا ہے
استحصالی طبقہ اپنی تنخواہ میں اضافے کے ذریعے قومی خزانے پر ناقابل برداشت
بوجھ ڈال کر عوام کو مزید غربت ‘ بھوک ‘ فاقہ کشی پرمجبور کردیتا ہے مگر اس
بار سیاسی وفاداری کے صلے میں مسند صدارت پر براجمان ہونے اور کسی بھی قسم
کی قومی خدمت انجام دینے کی بجائے محسن جماعت و قیادت کے ہر فرمان و پروانے
پر بلا حیل و حجت دستخط کرکے وفاداری نبھانے والے کی تنخواہ اکیاسی ہزار
روپے ماہوار سے اچانک آٹھ لاکھ چھیالیس ہزار پانچ سو پچاس روپے کرنا قومی
خزانے پر شبخون مارنا یا عوام کو مہنگائی کے شکنجہ میں کسنا نہیں بلکہ صدر
کی تنخواہ چیف جسٹس سے ایک روپیہ زائد کرکے چیف جسٹس کو پیغام دیا گیا ہے
کہ ” بلا شک تم انصاف و احتساب کے منصب پر فائز ہو مگر ہو ہم سے کمتر اور
ہمارے نیچے اس لئے ہمارے خلاف جانے یا ہمارے سامنے پر پھیلانے کی کوشش نہ
کرنا “۔جبکہ اس سے آگے کی بات ایوان فیلڈ مقدمہ کی سماعت کے دوران مقتدر
مافیا کے چوہدری و سردار نے میڈیا کے گوش گزار کردی ہے کہ ”مقدمات میں
گھسیٹنے والوں کو یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا “۔جبکہ بیان کے آغاز میں لفظ
”بیٹیوں “ کا استعمال حفظ ماتقدم و تحفظ کے طور پر کیا گیا ہے ساتھ ہی میاں
صاحب نے اپنے نکالے جانے کی وجہ بتاتے ہوئے یہ بھی باورکرادیا ہے کہ ”اپنے
ماتحت کو برطرف کرسکتا تھا “ یعنی ان کی جماعت کی حکومت اس اختیارکی حامل
ہے کہ ان کی خواہش پر جب چاہے جس افسر کو برطرف کرسکتی ہے چاہے وہ افسر
انتظامی شعبہ سے ہو ‘ دفاعی محکمے سے تعلق رکھتا ہو یا انتظام و انصاف کے
حوالے سے خدمات انجام دے رہا ہو جبکہ اٹک میں ن لیگ کے کنونشن سے خطاب کرتے
ہوئے انہوں نے مستقبل کی پیشنگوئی کرتے ہوئے بتادیا کہ ”غلط فیصلے الٹ
جائیں گے اور ترقی کا دور پھر شروع ہوگا “۔ مگر اپنے اس بیان میں انہوں نے
ترقی کی وضاحت سے اجتناب کیا کہ وہ کس ترقی کی بات کررہے ہیں قومی ترقی کی
‘ عوامی ترقی کی ‘ اپنے اختیار واقتدار کی ترقی کی ‘ اپنے حاشیہ برداروں کی
ترقی کی یا پھر شریف خاندان اور اپنی ترقی کی لیکن پانامہ کیس میں شریف
خاندان اور میاں نواز شریف کے اہل خانہ کے اثاثوں اور اعمال کے حوالے سے
سامنے آنے والے حقائق‘ نوازفیملی کیخلاف عدالتی جدوجہد اور اس جدوجہد
کیخلاف نواز شریف ‘ ان کے اہلخانہ اور ان کی جماعت کے کردار نے عوام پر یہ
واضح کردیا ہے کہ میاں صاحب کس ترقی اور کس کی ترقی کی بات کررہے ہیں !اب
دیکھنا یہ ہے کہ خاندانی کرپشن کے باعث عدلیہ سے نااہل قرار پانے کے باجود
قومی اداروں کیخلاف عوام کو اکسانے اور اپنی طاقت واختیار کے اظہار کیلئے
خادم مزاج انسان کی تنخواہ میں 958فیصد اضافہ کرکے سعودی عرب کے شہنشاہوں
کی مطلق العنانی کو بھی پیچھے چھوڑنے والوں کیساتھ عوام اس بار کیا سلوک
کرتے ہیں ان کے ”ووٹ کو عزت دو“ کے نعرے پرایمان لاکر پھر سے انہیں سرپر
بٹھاتے ہیں یا اس بار اپنے ووٹ کو ن لیگ ‘ پیپلز پارٹی اور اقتدار میں شامل
رہ کر ووٹرز کو ذلیل و خوارکرنے والی تمام روایتی سیاسی جماعتوں ‘ قیادتوں
اور سیاستدانوں کو مسترد کرکے انہیں یہ بتاتے ہیں کہ ”ووٹ کوعزت تو ہمیشہ
سے ملتی رہی ہے مگر ووٹرز کو عزت اور حق کبھی نہیں ملا ہے “ اسلئے اب عوام
صرف انہیں ہی ووٹ دیں گے جو ووٹرز کو عزت اور حق دونوں دینگے “۔!
|