افتخار محمد چوہدری صاحب پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کے سب
سے بہتر سب سے نیک نام اور سب سے طاقتور چیف جسٹس قرار دیے جاسکتے ہیں۔کل
کا پتہ نہیں کوئی ان سے بڑھ کر بھی آسکتاہے۔مگر فی الوقت وہ سب سے بہتر
ہیں۔بے ایمان اور کرپٹ طبقہ انہیں ایک سیاسی رویہ رکھنے والا جج قرار
دیتاہے۔مگر معتدل او ر محب وطن لوگ چوہدری صاحب کو عدلیہ کے ماتھے کا جھومر
قراردیتے ہیں۔اس کی طاقت تھی کہ پہلے فوجی آمر نے تھوکا چاٹا۔پھر عیاری اور
فریب کاری بھی منہ کے بل جاگری۔ کامیابی کا واحد سبب عوام کی سوچ سے ہم
آہنگی تھی۔عوام نے مارشل لائی دوراور اس کے چمچے کڑچھوں سے بیزار دی
دکھائی۔خلق خدا کو جمہوریت کے نام پر این آر او بے ایمانی سے بھی مایوسی
تھی۔چیف جسٹس نے ان دونوں حکومتوں سے ہتھ جوڑی کر کے عوامی حمایت سمیٹی۔
آج نظام عدل اور نظام احتساب کی ترجیحات بد ل چکیں۔یہ ادارے اب عوامی رائے
سے متصادم کردار اداکررہے ہیں۔لوگ تو اب بھی مشرف اور زرداری دور کے احتساب
کے مطمنی ہیں۔مگر ادارے ان سے متعلق چشم پوشی کرتے ہوئے قدرے بہتر نوازشریف
دور کا پوسٹ مارٹم کرنے میں لگے ہیں۔احتساب سب کا ہونا چاہیے۔مگر صرف اور
صرف ایک طرف توجہ کیے رکھنے سے شبہات بڑھتے ہیں۔سابقہ دونوں ادوار کے
معاملات تو برسوں سے سرد خانوں میں پڑے ہیں۔مگر نوازشریف دور میں سامنے آنے
والی ہر شکایت پر فوری کان دھرا جارہا ہے۔شریف فیملی کے خلاف ریفرنسز سے
متعلق بھی کچھ ایسا ہی تاثر بن رہا ہے۔ان ریفرنسز کو نبٹانے کی مدت میں ایک
ماہ کی توسیع کردی ہے۔یہ بھی کہا ہے کہ اگر ٹرائل مکمل نہ ہواتو پھر
آجائیں۔انصاف کا قتل نہیں ہونے دیں گے۔ل9جون تک ٹرائل مکمل کرنے کا حکم
جاری کیا گیا۔جسٹس شیخ عظمت سعیداور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل دو رکنی
خصوصی بنچ نے احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکی طرف سے ڈیڈ لائن کی توسیع کے
لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے نیب پراسیکیوٹر اکبر
تارڑ سے استفسارکیا کہ ٹرائل اب تک مکمل کیوں نہیں ہوسکا۔یاد رہے اس سے قبل
احتساب عدالت کو اس ٹرائل کی سماعت کرنے کے لیے دوماہ کی اضافی مدت دی
جاچکی ہے۔اس نے مارچ کی آٹھ تاریخ تک سماعت مکمل کرنا تھا۔چھ ماہ کی مدت
میں بھی یہ ٹرائل مکمل نہ ہونے کے بعد اضافی دو ماہ دیے گئے تھے جو بھی
7مئی کو ختم ہوگئے۔اب ایک ماہ مذید دیے دیا گیا ہے۔
پاکستان کے سب سے اہم معاملے پر پیش رفت کا یہ حال ہے تو عام معاملات کا
کیا ہوگا۔تین بار وزیراعظم بننے والے نوازشریف کے معاملے پر ابھی آٹھ
مہینوں میں کوئی نتیجہ نہی نکل پایا تو عام الناس کے معاملات کا نظام عدل
اورنظام احتساب میں کیا مقام ہوگا۔اس قدرنالائقی کے باوجود نیب چیئرمیں اور
چیف جسٹس سمیت کئی لوگ آئے دن نظام عدل اور نظام احتساب کی نئی کروٹوں کا
ذکرکرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔
حیران کن طورپر جو جو حلقے افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے خلاف تھے۔آج کی
عدلیہ کے حق میں متحرک ہیں۔جو جو لوگ افتخار محمد چوہدری کی بحالی میں پیش
پیش تھے۔موجودہ عدلیہ ا ن کے خلاف سب سے زیادہ زیادہ متحرک ہے۔اگر نوازشریف
کو عدلیہ بحالی تحریک سے نکال دیا جائے تو شاید باقی کچھ نہ بچے۔ کوئی شک
نہیں کہ اس تحریک میں وکلاء کا بڑا جاندار رول تھا۔اس میں دوسری سیاسی
جماعتوں کا بڑ اہاتھ تھا۔مگر اس پر بھی دورائے نہیں کہ اس تحریک کو جو تڑپ
میاں نوازشریف نے بخشی وہ سب سے افضل رہے گی۔انہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر
زرداری حکومت کے خلاف سڑکوں پر آکرعوام کے جزبات میں آگ لگادی تھی۔ایسا نہ
ہوتاتو دوسرے تمام کردارجانے کتنے برسوں تک عدلیہ بحالی کے خواب ہی دیکھ
رہے ہوتے۔موجود ہ عدلیہ او رنظام احتساب نوازشریف او ران کے ہم نواؤں کے
معاملات کو اچھل اچھل کر لے رہاہے۔برسوں سے پڑے اوروں کے کیسز تو باری کے
انتظار میں ہیں۔مگر جس معاملے سے نوازشریف گروپ کو کسی بھی اینگل سے اذیت
پہنچ سکتی ہے۔اس کی سماعت کے لیے فورا انتظام کرلیا جاتاہے۔چیف جسٹس اور
چیئرمین اپنے اپنے اداروں کی افادیت اور قوت کا ڈھنڈورہ پیٹ رہے ہیں۔مگر
عوام کے لیے یقین کرنا آسان نہیں۔ اسے دکھ ہے کہ نوازشریف گروپ کو تو چاروں
شانے چت کرنے کے لیے ہر کوئی مصروف ہے مگر مشرف اور زرداری اداور جوکہ
شرطیہ کڑوے ادوارتھے۔ان سے متعلق چپ سادھی جارہی ہے۔دو نوں ادوار کے
کرتادھرتا موجودہ عدلیہ پر وارے وارے جارہے ہیں۔اس کے تحفظ کے حلف اٹھارہے
ہیں۔عوام اس صورت حال سے مضطرب ہے۔بے چینی بڑھ رہی ہے۔جتنا نظام عدل اور
نظام احتساب کے ذمہ داراں اپنی نیک نامی کا ڈھنڈورہ پیٹے ہیں۔صورت حال اتنی
ہی متنازعہ ہورہی ہے۔ عدلیہ اور نیب کی ساکھ زوال پذیر ہے مگر لفاظیاں ہیں
کہ بدتدریج بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ |