تحریر: ارم فاطمہ۔۔۔ لاہور
شام کے 7بج رہے تھے۔ طاہر اپنی کتابیں کھولے ہوم ورک کرنے میں مصروف تھا
جبکہ اسد کمرے میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہا تھا۔ صاف پتا چل رہا تھا کہ وہ
کسی پریشانی میں مبتلا ہے۔ طاہر نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اپنے کام میں
مصروف ہوگیا۔ اسد کو بے انتہا غصہ آیا وہ تیزی سے طاہر کی سمت آیا اور اس
کے ہاتھ سے کتابیں لے کر الگ رکھ دیں اور کہنے لگا میں پریشان ہوں اور تم
مجھ سے پوچھ بھی نہیں رہے کہ کیا پریشانی ہے ؟
طاہر نے مسکراکر کہا میں جانتا ہوں تمہیں کیا پریشانی ہے؟ کوئی ضرورت آن
پڑی ہوگی اور تم بے انتہا فضول خرچ ہو۔ مہینے کا جیب خرچ 20دن میں ختم کر
کے باقی پورا مہینہ پریشان رہتے ہو۔ کتنی بار تمہیں سمجھایا ہے کہ بچت کی
عادت ڈال لو تو تمہیں کبھی پریشانی نہ ہو۔
اسد کہنے لگا نہیں یہ بات نہیں ہے۔ کل تم اسکول نہیں گئے تھے نا۔ وہ کامران
ہے نا اس سے میری کلاس میں لڑائی ہوگئی تھی، اسد نے سر جھکا لیا۔ کس بات پر؟
طاہر نے پوچھا۔
چند دن پہلے میں نے اس سے کچھ روپے لیے تھے۔ وہ واپس مانگ رہا تھا۔ میں نے
کہا ایک دو دن انتظار کرلو مگر وہ لڑنے لگا۔ اتنے میں انگلش کے سر معین
کلاس روم میں آگئے۔ ساری بات سننے کے بعد انہوں نے کہا کل کامران کے روپے
بھی لے کر آنا اور اپنے والد صاحب کو بھی ساتھ لے کر آنا، کچھ ضروری بات
کرنی ہے۔اسد نے قدر فکر مند ہوتے ہوئے تفصیل بتائی۔
بہت افسوس کی بات ہے۔ پہلے تم مجھ سے مانگتے رہتے تھے اب دوسروں سے بھی
لینا شروع کردیا ہے۔ دوسروں سے لڑتے بھی ہو۔ اب یہی دیکھ لو کہ تمہاری وجہ
سیاب ابو کو پرنسپل سر کی بات سننا پڑے گی، انہیں کتنی شرمندگی کا سامنا
کرنا پڑے گا کچھ احساس ہے تمہیں کہ نہیں۔طاہر نے اسد کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔
مسئلہ یہ ہے کہ ابھی ابو سے کیسے بات کروں۔ تم کچھ مدد کرو طاہر۔ اسد نے
منت کی۔ طاہر کہنے لگا بات تو تمہیں خود کرنی ہوگی میں یہی کر سکتا ہوں کہ
تمہاری حمایت کروں بس۔ اسد اسے بے چارگی سے دیکھنے لگا۔
رات کے کھانے کی ٹیبل پر گھر کے سبھی افراد موجود تھے۔ مسثر نبیل ان کی
بیگم سعدیہ اور دادی جان۔ اتنے میں ان کے بچے طاہر اور اسد آگئے اور سب کو
سلام کرکے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئے۔ بسمہ اﷲ الرحمن الرحیم پڑھ کر سب نے
کھانا شروع کیا۔ اسد نے ایک نظر سب کی طرف دیکھا اور پھر اپنے ابو کی طرف
دیکھا جیسے کہ وہ کوئی بات کرنا چاہتا ہو۔ ابھی اس نے کچھ کہنے کا ارادہ
کیا ہی تھا کہ دادی جان نے کہا ۔
اسد آپ کو بتایا ہے نا کہ کھانے کے دوران کوئی بات نہیں کرتے۔ آپ کو جو بھی
بات کرنی ہے ۔کھانے کے بعد کرنا۔ ہم سب آپ کی بات سنیں گے۔
اسد خاموش ہوگیا۔ سب نے خاموشی سے کھانا کھایا اور اﷲ کا شکر ادا کیا۔
کھانے کے بعد مسٹر نبیل نے اسد کو اپنے پاس بلایا اور کہنے لگے آپ کو مجھ
سے کیا بات کرنی ہے ؟
اسد کہنے لگا بابا ! بات یہ ہے کہ کل پرنسپل صاحب نے آپ کو اسکول آنے کو
کہا ہے۔
ضرور تمہاری کوئی شکایت آئی ہوگی۔ مسٹر نبیل نے کہا۔اسد خاموش تھا۔
اگلے دن پرنسپل صاحب سے ساری بات سن کر انہیں بہت افسوس ہوا۔ انہوں نے کہا
اسد کی اور بھی کئی طالب علموں نے شکایت کی ہے۔ آپ اسے سمجھائیں اس عمر میں
اس قدر فضول خرچ ہونا اور دوسرے بچوں سے پیسے مانگنااچھی عادت نہیں ہے۔
مجھے آپ کو کچھ اور بھی بتانا ہے۔ آپ میرے ساتھ کلاس روم میں چلیے ، کلاس
روم میں پرنسپل صاحب کہنے لگے!
آپ لوگوں نے وہ مشہور محاورہ تو سنا ہوا ہے نیکی کر دریا میں ڈال آج میں آپ
کو اس کا صحیح مطلب بتاتا ہوں اور ایک عملی تصویر بھی دکھاتا ہوں۔
سب بچے اور مسٹر نبیل بہت غور سے ان کی بات سن رہے تھے۔
وہ کہنے لگے آپ لوگوں کے نزدیک آپ کی سبھی ضرورتیں اور خواہشات بہت اہم
ہیں۔ ہم سبھی اپنے بارے میں پہلے سوچتے ہیں جب کہ آپ میں سے ایک بچہ ایسا
ہے جو دوسروں کی ضرورتوں کے بارے میں سوچتا ہے۔ انہیں پورا کرنے کی کوشش
کرتا ہے۔ اپنا سارا جیب خرچ ان بچوں کے لیے مجھے دیتا ہے جنہیں کبھی کتاب
کاپی یا اسکول بیگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ بات کسی کو
پتا چلے۔
وہ چند لمحے رکے۔ سب ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے طاہر کی طرف دیکھا
اور اپنے پاس بلایا۔
طاہر کو گلے سے لگا کر کہنے لگے !
میں طاہر کی چھپی ہوئی نیکی کا کبھی ذکر نہ کرتا اگر اسد کی شکایات نہ
آتیں۔ اسے سمجھانے کے لیے ضروری تھا کہ اسے یہ بات بتائی جائے۔ اسے احساس
ہو کہ دوسروں کے کام آنا کتنی بڑی نیکی ہے۔
اسد کا سر جھکا ہوا تھا۔ مسٹر نبیل اور پوری کلاس طاہر کی جانب دیکھ رہی
تھی۔ انہیں بجا طور پر طاہر پرفخر تھا جس نے سب کے سامنے نیکی کی نہایت
عمدہ مثال قائم کی تھی۔ |