تحریر: ارم فاطمہ۔۔۔۔۔ لاہور
دنیاء عالم کی بہت سی مملکتیں اور اقوام ایسی ہیں کہ ان کی زندگی اور تاریخ
پر نظر ڈالیں تو ایک بات مشترک نظر آتی ہے کہ کوئی بھی قوم بننے اور ترقی
کے بلند مقام تک پہنچنے میں ایک طویل جدوجہد سے گزرتی ہے۔ وہی قومیں اور
تہذیب زندہ رہتیں ہیں جو اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے غیر قوم یا تہذیب
کا سہارا نہیں لیتے۔ خودداری اور عزت نفس دو ایسی چیزیں ہیں جو قوموں کو
شان اور وقار عطا کرتیں ہیں۔ جب 14 اگست 1947ء کوایک نوزائیدہ مملکت
’’اسلامی مملکت پاکستان‘‘ دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی اور اسے جن مسائل
اور دقت کا سامنا تھا۔ اس سے سب کا گمان یہی تھا کہ یہ مملکت زیادہ دیر
اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گی۔ سب سے بڑی مشکل جس کا اسے اس وقت سامنا
تھا وہ تھا ہندوستان کی حکومت اور اس قوم کی متعصبانہ ہندو ذہنیت جس کا
ثبوت 1965ء اور 1971ء کی جنگ کی صورت میں سامنے آیا۔ پاکستانی فوج اور قوم
نے جس ہمت جرات اور دلیری کے ساتھ اور اﷲ کی مدد اور شہادت کے جنون نے ہندو
ذہنیت کو منہ توڑ جواب دے کر بتادیا کہ جب بھی انہوں نے اس مملکت خدا داد
پاکستان کی جانب بری نگاہ سے دیکھا توانہیں یہی جواب ملے گا۔
پھر 1971ء کی جنگ کے بعد سقوط ڈھاکہ کا واقعہ پیش آیا جس نے پاکستانی عوام
کے دلوں میں ایک مایوسی کی لہر پیدا کی۔ یہ ایسا دکھ ہے جس کا مداوا آج بھی
ممکن نہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت اور عوام پر واضح ہوتا گیا کہ اپنے
دفاع اور وقار اپنی سالمیت اور بقاء کے لیے ضروری ہے کہ کچھ ایسا کیا جائے
کہ جس سے دشمنوں کی نظریں جھکیں اور ان کے قدم اس ملک کی سرحدوں کی جانب
بڑھانے میں وہ ہزار بار سوچیں۔
ذوالفقار علی بھٹو وہ لیڈر ہیں جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں
پہلا قدم اٹھایا۔ فرانس کی حکومت سے ایٹمی ری پروسیسنگ منصوبے کی تجدید
کروائی انہیں آمادہ کیا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ملک واپس بلوا کر ذمہ
داری سونپی۔ اس ملک کو اپنی بقا اور وقار کے لیے ایٹمی قوت بنانے میں اپنی
ذمہ داریاں پوری کریں۔ اس قوم کے لیے اپنی خدمات پیش کریں۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان اور ان کی ٹیم کی ان تھک محنت اور کوشش سے 28 مئی
1998ء کو عملی تصویر کی صورت میں سامنے آئی جب پاکستان نے ضلع چاغی کے
پہاڑی سلسلے راس میں پہلی بار پانچ ایٹمی دھماکے کیے۔ الحمد اﷲ پاکستان
ایٹمی قوت کی صلاحیت حاصل کرنے والا دنیا کا ساتواں اسلامی ملکوں میں پہلا
ملک بن گیا تھا۔
پوری قوم یک زبان ہوکر اﷲ اکبر کے نعرے بلند کررہی تھی۔ تبھی اس تاریخ ساز
دن کو " یوم تکبیر " کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ ہماری تاریخ کا ایسا دن
ہے جس نیساری دنیا میں پاکستان کے وقار کا پرچم بلند کردیا۔ دنیا کو بتادیا
کہ اﷲ اور اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک کو صفحہ ہستی سے مٹانا
ناممکن ہے۔ ان میں جہاد اور شہادت کے وہ بلند اوصاف ہیں جو اسے کسی قوم کی
پست ذہنیت کے آگے گھٹنے ٹیکنے نہیں دیں گے۔ پاکستان اﷲ کے فضل سے قائم ہے۔
شاد و آباد ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کی فضا تکبیر کے نعروں سے گونجتی رہے
گی۔
|