آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پر اڑنا
منزل ہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
حضرت قائد اعظمؒ کی قیادت میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے اب
تک ایک قوم کے آئینہ دار تین متفقہ فیصلوں میں 1973 ء کا متفقہ آئین
آٹھارویں ترامیم کا متفقہ فیصلہ اور اب فاٹا کو صوبہ کے پی کے میں ضم کرتے
ہوئے پاکستان کا حصہ بنانے کا دستوری فیصلہ ہے دستور ایک قوم کا آئینہ ہوتا
ہے جسکا ایمانی اظہار امتوں کے لئے صحیفے اور آسمانی کتابیں ہیں، تو انبیاء
کی زندگی ان کتابوں کی تعلیمات کا عملی اظہارو کردار ہیں یعنی امت ،سلطنت،
مذہب ملک، قوم کا رہبر و رہنماء دستور وکردار ہیں جسکے بغیر ہرانتظام خطہ
ادارہ ترقی ، محلات ،آسائشیں مٹی کا ڈھیرہیں ، اٹھارویں ترامیم کے بعد
آزاکشمیر گلگت بلتستان سے بھی آواز یں بلند ہوئیں چاروں صوبوں کیطرح وسائل
پرحقوق و اختیار دونوں خطوں کو بھی دیئے جائیں جس میں ایک توانا آواز راجہ
فاروق حیدر خان کی بھی تھی اور پیپلزپارٹی کے چوہدری عبدالمجید حکومت میں
منتخب اسمبلی کے اندر پہلے لطیف اکبر پھر انکی علالت کے دوران مطلوب
انقلابی کی سربرائی میں پارلیمانی کمیٹی نے اسمبلی کے اندر باہر جماعتوں ،
مکاتب فکر کی مشاورت رائے سے سفارشات تیار کیں اور اسمبلی نے متفقہ
طورپرانکی منظوری دی 2016 ء کے عام انتخابات میں ن لیگ اقتدار میں آئی اور
بطور وزیراعظم فاروق حیدر خان نے سفارشات کے مقاصد کو منزل سے ہمکنار کرنے
کی مہم جوئی شروع کی ترقیاتی بجٹ کا دوگنا واٹر چارجز صوبہ کے پی کے کی طرز
پر پندرہ پیسہ سے بڑھا کر ایک روپیہ دس پیسے فی یونٹ قومی وسائل میں دو
اشاریہ پانچ سے بڑھا کر تین اشاریہ چھ حصہ کے اقدامات اور پھر سول عسکری
قیادت کے فورم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں مظفرآباد گلگت حکومتوں کو
انتظامی مالیاتی خود مختاری دینے کے متفقہ فیصلے نے یہاں کے عوام کو اپنی
امنگوں کی منزل کا یقین دلایا، لیکن فاٹا کے عوام پارلیمنٹ کے فیصلے کے تحت
دستور پاکستان کا حصہ بن گے ہیں مگر آزاد خطہ کے عوام کو ممبران کشمیر
کونسل کیطرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرتے ہوئے سارے عمل
کے آگے حکم امتناعی کی شکل میں کنٹینر کھڑا کردینے کے مترادف اقدام نے شدید
صدمے سے دوچار کر دیا ،جسکی وجوہات کی حمایت میں جذباتی ، خیالاتی ، مخالفت
برائے مخالفت جیسا سلسلہ چل نکلا ہے تو رٹ کیخلاف جذبات میں غم و غصہ کا
غلبہ حاوی دکھائی دے رہا ہے اور حقیقت پسندی کا فقدان ہے ورنہ شاہد ایسا
نہیں ہوتا حقیقت کا ٹھنڈے دل و دماغ سے اعتراف کرتے ہوئے بات کی جائے تو
امریکہ جیسی سپر پاور اور بڑی قوتوں بشمول سعودی عرب تمام ممالک کی اکیلے
کوئی حیثیت نہیں ہے جسکے جہاں مفادات ملتے ہیں وہاں ملکر چلنا پڑتا ہے یہی
حال تمام بڑے چھوٹے انتظامات ملک ، شہر ، آبادیوں کا ہے مگرمذہب مسلک،
برادری، علاقہ، زبان نعرے کی آڑ میں خطہ کے عوام کو کنواں کا مینڈک بنا
کررکھا گیا جسکا ذمہ دار وہ مائنڈ سیٹ ہے جو اسمبلی سے لیکر سرکاری ملازمت
تک خزانہ سرکار کو اپنے لئے بغیر کسی کام کاج کے’’ کھل جاسم سم ‘‘بنائے چلا
آرہا ہے جب انکے مفادات کو خطرہ ہوتا ہے یہ جاگیر داروں ، سرمایہ داروں
کیطرح جذباتی طبقات سادہ عوام کو ورغلاء کر اپنے مفادات کا تحفظ کر لیتے
ہیں محکمہ برقیات کے 16 گریڈ سے نیچے 16 سو ملازمین غیر جریدہ اور 16 گریڈ
سے اوپر آٹھ سو آفیسرز جریدہ ہیں غیر جریدہ فیلڈ ملازمین کی تعداد دوگنی
،جبکہ آفیسرز چالیس ہی بہت ہیں جس طرح 25 ارب عوام کی فلاح تعمیر وترقی پر
خرچ کرنے کیلئے 85 ارب انتظام انصرام تنخواہ مراعات پرلگیں گے۔ اسی طرح
لائن لاسز کے نام پر سالانہ پانچ ارب ریاست کے عوا م کوٹیکے لگانے کو کیا
کہا جائے؟ واپڈہ گریڈ اسٹیشن چلا رہا ہے اور بغیر گرڈکے گرڈ چیف انجینئر
برقیات لگا ہے جسکا کوئی کام نہیں اگر آئسکو پاسکوکی طرح نجی کمپنی بنا کر
پانچ نہیں سات ارب بچ جانے سے عوام کا بھلا ہوگا ،مگر کیوں ہو ہر سال
جنگلات کا پانچ ہزار کنال رقبہ قبضوں سے کم ہورہا ہے مگر رشتہ علاقہ برداری
زبان تعلق زبانیں بند کر دیتا ہے ، صحت تعلیم ، زراعت سب ہی محکموں بلکہ
نظام کا یہ حال ہے 2 سال پہلے واپڈہ نے کہا برقیات کے ملازمین کو تربیت
کیلے بھیجیں تاکہ گرڈ اسٹیشن سنبھال سکیں مگر تربیت کے لئے جانا ہے نہ کسی
کو آنے دینا ہے کیونکہ کام کرنا پڑ جائے گا ،انٹی ناکور ٹیکس نہیں آنی
چاہیے کیونکہ یہاں پہاڑ کی چوٹی پر بین الصوبائی منشیات مافیا کے سرغنہ اور
کنٹرول لائن سے جڑی آبادی میں بدمعاش نہ پکڑیں جائیں ، جن کو اپنی پولیس
پکڑ سکتی ہے نہ صلاحیت ہے ، آٹا دال ،سبزی دو دھ سب کچھ مانسہرہ پنڈی سے
منگوانا ہے دریا، نالے میں نوجوان ڈوب جائیں آرمی اوردعوہ والوں کو بلانا
ہے پیمرا سے لندن بیٹھے کشمیری یا میرپور کے صاحب ثروت میرپور، سرینگر ،
جموں ، نیلم اورکشمیر کے ناموں سے نیوز چینلز کا لائنسنس لیتے ہیں تو اس کا
فائدہ نقصان کس کو ہے ، اسلئے ایف بی آر وغیرہ کو ایشو بنا کرپسماندگی ،
محرومیوں کی ذمہ دار اشرافیہ کو تحفظ دینے کے بجائے حقیقت پسند انہ دلیل سے
بات ہونی چاہیے 83 ارب عوام کی فلاح پرخرچ ہو اور اسکے بدلے 25 ار ب تنخواہ
مراعات کے لئے دیئے جائیں تاکہ سیدھی گنگا ہو جائے اوراسکے لئے یو این او
کی قراردادوں کے مطابق دستور سنوارنا ضروری ہے آپ نے حکومت پاکستان سے لینا
ہی لینا ہے دینا کچھ نہیں ہے کشمیر کونسل کے برقرار رہنے کے اصولی فیصلے کے
باوجود اپنی سپریم کورٹ ہائی کورٹ کی موجودگی میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے
حکم امتناعی کیوں لے آئے ہیں ۔بقول سہیل وڑائچ یہ کھلا تضاد نہیں ہے ،وقت
بہت کم ہے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رٹ واپس لیں اوراپنی ہائی کورٹ سے اپنی
حکومت اپنی اسمبلی کو فریق بناتے ہوئے تاوقت اطمینان حکم امتناعی لے لیں
اگر شاہرات سکیموں پر حکومت اپوزیشن کے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں تو
دستور کیلےء کیوں نہیں سر جوڑ ے جا سکتے ہیں جسے باوقار بنانے کے لئے
یقیناًزیادہ ذمہ داری حکومت کی ہے وہ اخبار نویس کے مناسب سوال کے جواب
دینے کے بجائے دھمکی دے تو دفاع کرنا سب کا حق ہے فاٹاکے جنگجو مزاج سر پھر
ئے پٹھان آ پ ذہین مہذب شہرت کشمیریوں پر بازی لے گئے یہ نادر موقع
اورماحول ہے تاریخ کے مجرم بننے کے بجائے قابل فخر نام بن جائیں پھر شاہد
پچھتاؤے کے کچھ باقی نہ رہے ۔؟
ہیں جذب باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں |