نواز شریف نے کہا کہ مشرف کے خلاف غداری کیس پر مجھے
ہٹا کر مقدمات بنائے گئے ۔انہوں نے مزید کہا کہ 2014ء میں جب عمران خان اور
ڈاکٹر طاہر القادری پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے کر باغیانہ تقریریں کررہے
تھے اور ائمپائر کی انگلی اٹھنے کابار بار ذکر ہورہا تھا ۔اس وقت کے انٹیلی
جنس بیورو سربراہ کا پیغام مجھے موصول ہوا کہ استعفی دیں یا طویل رخصت پر
روانہ ہوجائیں ۔میں نے انکار کردیا ۔نواز شریف کے بقول دھرنوں کے پیچھے بھی
مشرف کے خلاف مقدمے کا غصہ تھا ڈکٹیٹر کو عدالتی کٹہرے میں لانا آسان نہیں
تھا ۔مشرف کا تو کچھ نہیں بگڑا۔ مجھے اقتداسے اتار کر تاحیات نااہل
کردیاگیا ہے۔ اب میں پے درپے مقدمات کا سامنا کررہا ہوں۔ جہاں تک نواز شریف
کی ان باتوں کا تعلق ہے اس میں حقیقت کا رنگ نظر آتا ہے کیونکہ پاکستان میں
حاضر سروس تو دور کی بات ہے ‘ سابقہ جرنیلوں کے خلاف بھی کاروائی کاتصور
نہیں کیاجاسکتا۔مارشل لاء کا دور ہو یا سویلین ۔ وہ جہاں بھی ہوتے ہیں ان
کی زبان سے نکلا ہوا ہر ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتاہے مشرف کی بات تو
چھوڑیں اشرف جاوید قاضی کے خلاف آج تک کوئی کاروائی کی جرات نہیں کرسکا ۔
یہ ہماری روایات ہیں ۔جو بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آنا چاہتی ہے اسے ان
پہلوؤں پر غور کرکے ہی قدم آگے بڑھانا چاہیئے ۔ اب نئے الیکشن کا بگل بجنے
والا ہے ۔ اگر پرانی تنخواہ پر نوکری کرنی ہے تو پھر مسلم لیگ ن کو الیکشن
میں حصہ نہیں لینا چاہیئے کیونکہ نواز شریف کو کلی آزادی کبھی بھی نہیں مل
سکتی۔ بقول شخصے ایسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ اب عمران خان کی پشت پر ہے جس کی وجہ
سے دوسری جماعتوں کے پرندے پرواز کرکے بنی گالا میں پناہ حاصل کررہے ہیں ۔
عمران خان پارلیمنٹ پرلعنت بھی بھیجتے ہیں لیکن اسی پارلیمنٹ میں اکثریت
بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عمران خان دو سال کے بعد اس وقت قومی اسمبلی میں
تشریف لائے جب فاٹا کو خیبر پی کے میں ضم کرنے کے حوالے سے آئین میں 31 ویں
ترمیم منظور ہونے جارہی تھی ۔ کہایہ جاتا ہے کہ پانچ سال کے عرصے میں عمران
خان صرف بیس مرتبہ قومی اسمبلی میں تشریف لائے اور جب بھی آئے اپنی
فلسفیانہ گفتگو سنا کر چلتے بنے ۔ وہ جس ادارے سے تنخواہ لیتے ہیں اسی پر
لعنت بھیج کر تمسخر اڑاتے ہیں ۔ چلیں یہ باتیں تو ماضی کا حصہ ہیں سوال یہ
ہے کہ کیا عمران خان خلائی مخلوق کی سرپرستی چھپے لفظوں میں قبول کرچکے ہیں
یا نواز شریف کی طرح ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگاتے پھریں گے ۔ کسی دل جلے نے
کیا خوب کہا کہ اب تحریک انصاف کاانتخابی نشان "بلے " کی بجائے "لوٹا" ہونا
چاہیئے ۔کیونکہ سب سے زیادہ لوٹے اب تحریک انصاف میں پناہ لے چکے ہیں۔سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص پانچ سال میں خیبر پی کے میں کوئی انقلابی
پروگرام متعارف نہیں کروا سکا وہ پاکستان میں اپنے ٹارگٹ کیسے حاصل کرے گا
۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو خلائی مخلوق پشت پناہی کرتی ہے وہ کامیابی
کے بعد اقتدار میں حصہ بھی مانگتی ہے بلکہ خارجہ ‘ داخلہ اور دفاعی امور
اپنی مٹھی میں رکھتی ہے ۔ گویا آسان الفاظ میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ کندھا
وزیراعظم کا ہوتا ہے لیکن فائر کہیں اور سے کیاجاتاہے ۔ عمران خان جن کو
جنون کی حد تک وزیر اعظم بننے کا شوق ہے وہ اب سب شرائط قبول کررہے ہیں
لیکن کل جب وہ وزیر اعظم بنیں گے تو ان کو بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا
ہوسکتا ہے جس صورت حال سے نواز شریف کو واسطہ رہاہے ۔ بہرکیف الیکشن کے
نتائج آنے کے بعد ہی مزید کچھ کہاجاسکتا ہے لیکن یہ بات یقینی طور پر کہی
جاسکتی ہے کہ عمران خان نے جس احتجاجی سیاست کی بنیاد رکھی ہے اس کا سامنا
کرنے کے لیے بھی انہیں خود بھی تیار رہنا ہوگا ۔ میرا تیسرا سوال ان عسکری
حلقوں کے بارے میں ہے جو سیاست دانوں کو کھل کر کھیلنے نہیں دیتے بلکہ
خارجہ ‘داخلہ اور دفاعی معاملات اپنے ہاتھ میں اس لیے رکھتے ہیں کہ سیاست
دان بہت جلد قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوجاتے ہیں ۔ یہ شنید ہے
کہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئیں تو انہوں نے کہوٹہ ایٹمی
پروجیکٹ کے کے نقشے مانگے جو انہیں فراہم کردیئے گئے۔ چند ہفتوں بعد وہی
نقشے امریکہ جاپہنچے ۔امریکیوں نے نقشے دیکھے تو غصے کا اظہار کرتے ہوئے
کہا یہ تو اصلی نہیں ہیں ۔بے نظیر نے شکایت کی ۔تو انہیں جواب ملا میڈم اگر
آپ کو اصل نقشے دے دیئے جاتے تو پھر وہ بھی امریکہ پہنچ چکے ہوتے ۔پاکستان
کے ایٹمی اثاثے اسی لیے محفوظ ہیں کہ انہیں ابھی تک کسی سیاست دان کی بری
نظرنہیں لگی ۔باغی سکھوں کی فہرستیں بھی بے نظیر دور میں ہی بھارتی وزیر
اعظم اندرا گاندھی تک پہنچیں جس کے بعد خالصتان کا قصہ تمام اور بھارت
پرسکون ہوگیا ۔ گویا بے نظیر بھٹو ہو یا نواز شریف ‘ آٍصف علی زرداری ہو یا
عمران خان کسی بھی سیاست دان کی وفاداری شک و شبہ سے بالاتر نہیں ۔ نواز
شریف خود کو وطن پرست قرار دیتے ہیں لیکن ان کی بھارتی وزیر اعظم سے دوستی
اور بھارتی تاجروں سے تعلقات کے چرچے عام ہیں۔وہ بھارت سے ذاتی تجارت کی
خاطر پاکستان کے مفادات قربان کرسکتے ہیں ان کو کشمیرمیں بہنے والا خون اور
پاکستانی دریاؤں میں اڑنے والی ریت دکھائی نہیں دیتی۔ یہ بات پایہ ثبوت
کوپہنچتی ہے کہ فوج نے سلامتی کے تمام امور اپنے ہاتھ میں رکھ کے اچھا ہی
کیا ہے ۔ اگر ایسانہ ہوتا تو ایٹمی دھماکوں سے پہلے ہی ہماراایٹمی پروگرام
دشمن کے ہاتھ میں پہنچ چکا ہوتا اور ہم بھارت کے غلام بن چکے ہوتے ۔ میں
سمجھتا ہوں الیکشن میں صرف وہی جماعت حصہ لے جو پیش آمدہ حالات کا سامنا
کرنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ ہو ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ نہ سیاست دانوں کو
کھلی چھٹی دی جاسکتی ہے اورنہ ہی خلائی مخلوق کو جمہوری حکومتوں کے خلاف اس
قدر انتہائی اقدام کرنے چاہیئیں کہ قومی سطح پر شکوک و شہبات جنم لیں۔
داخلہ اور خارجہ پالیسی کو اپنے ہاتھ میں رکھتے ہوئے ایٹمی پروگرام کا تحفظ
بلاشبہ فوج کے پاس ہی رہنا چاہیئے کیونکہ پاکستانی ووٹر اپنا ووٹ کاسٹ کرنے
سے پہلے سیاست دان کی وطن سے وفاداری کو ملحوظ نہیں رکھتا بلکہ روٹی کپڑا
مکان جیسے نعروں سے مغلوب ہوکر ووٹ دے بیٹھتے ہیں ۔ |