پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہونے میں صرف دو روز
باقی،لیکن جاتےجاتے من پسند اور قریبی افسروں پر کروڑوں روپے کی بارش کر دی
گئی، کسی کو 4لاکھ تو کسی کو 2 لاکھ کسی کی مراعات میں اضافہ تو کسی کو
آئندہ حکومت میں آنے پر بہتر عہدہ دینے کی یقین دہانی کرائی
گئی،سیکرٹریز، کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، آر پی اوز، ڈی پی اوز، سی سی پی اوز
سمیت 81اہم افسران کو نوازا گیا۔ایسے افسران کو بھی بیسٹ کارکردگی سرٹیفکیٹ
اوران پر لاکھوں روپےکی بارش کی گئیں جن کے خلاف بھتہ خوری کے الزامات ہیں
، جن کے اضلاع میں کرائم کنٹرول نہ ہوا، جن کے اضلاع میں مسائل مزید جنم
لئے ،جن کے اضلاع میں بچیوں کیساتھ زیادتی کے کیسز بھی سامنے آئے، جہاں
عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا، جہاں ن لیگی ٹھیکیداروں کو
نوازا گیا،بعض انتظامی افسران ضلعوں میں معاملات کو بہتر کرنے میں بری طرح
ناکام رہے، لیکن انہیں بھی سرٹیفکیٹ اور کروڑوں روپے انعام دیکر نوازا گیا
ہے، گزشتہ روز وزیراعلی پنجاب شہبازشریف نے سول سیکرٹریٹ میں سیکرٹریز،
کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز ، اسسٹنٹ کمشنرز اور دیگر افسران کومیرٹ کے برعکس
سرٹیفکیٹ اور کروڑوں روپے کے انعامات دئیے گئے ہیں ۔ جن افسران کو انعامات
سے نوازا گیا ہے ان میں 90فیصد سے زائد وہ افسران ہیں جن کی کارکردگی پر
کئی سوالات اٹھ رہے ہیں، اور بعض تو نیب میں انکوائریاں بھگت رہے ہیں، بعض
نے کمپنیوں میں معاملات خراب کرنے اور اربوں روپے کے فنڈز میں خوردبرد ہوتے
دیکھ کر بھی کوئی ایکشن نہ لیا، یہی وہ افسران جو شہبازشریف کے حکم پر وہ
بھی اقدامات کرتے رہے ہیں جس سے کارکردگی مزید خراب ہی ہوئی ہے، اسی طرح
پولیس افسران اپنے اضلاع اور ڈویژن میں کرائم کی شرح کو کنٹرول نہ کر سکے
لیکن ان کو انعامات سے نوازا گیا۔ جن افسران کو نوازا گیا ہے ان میں فیصل
شاہکار جو کہ ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ رہے جو اپوزیشن کی اندرونی کہانی
معلوم کر کے اور ن لیگ جماعت کو مضبوط بنانے سے متعلق رپورٹس اور سروے کر
کے شہبازشریف کو دیتے رہے، عبدالجبار شاہین سابق سیکرٹری تعلیم جنہوں نے
اپنے اسکولy کو پروموٹ کیا جبکہ سرکاری اسکولز کی کارکردگی انتہائی مایوس
کن رہی، رفعت مختار آر پی او گوجرانوالہ جہاں کرائم کی شرح میں مزید ہی
اضافہ ہوا، افضال احمد قصور سی پی او راولپنڈی جو شہبازشریف کا پروٹوکول
لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، شکیل احمد ڈی جی پی ایچ اے جو کروڑوں روپے
لاہور کو خوبصورت بنانے کے نام پر لگاچکے، لیکن کچھ فرق نہ پڑا، ڈی جی
پنجاب فوڈ اتھارٹی نوارلمین مینگل یہ بھی شہبازشریف کے چہیتے سمجھے جاتے
ہیں ان کو پہلے ڈی سی لاہور پھر فیصل آباد بھی تعینا ت رکھا، راحیل احمد
صدیقی چیئرپرسن پنجاب ریونیو اتھارٹی جو ٹیکس کولیکشن میں انتہائی مایوس
کارکردگی رکھتے ہیں، لیکن جو بھی اکھٹا کرتے ہیں اسکو بڑھا چڑھاکر بتاکر
لاکھوں روپے پہلے بھی انعامات لیتے رہے، عثمان احمد چوہدری سپیشل سیکرٹری
خزانہ جن کی کارکردگی یہ ہے کہ آج محکمہ خزانہ کنگال ہو چکا ہے، یہ ڈاکٹر
عائشہ غوث پاشا کے چہیتے رہے ہیں۔ اسی طرح وہ افسران جو صرف شہبازشریف کے
اجلاسوں میں شریک ہو کر سب اچھا کی رپورٹ دیتے رہے اور لیکن حقیقت میں کچھ
اور ہی صورتحال ان کو بھی انعامات سے نوازاگیا ہے، ان میں سیکرٹری تعلیم
ڈاکٹر اللہ بخش ملک، سیکرٹری پرائمری ہیلتھ علی جان، سیکرٹری ہاؤسنگ محمد
خرم آغا جن کی سرپرستی میں آشیانہ اور صاف پانی جیسے اسکینڈل بے نقاب ہوئے
اور نیب میں انکوائریاں بھگت رہے ہیں، سابق سیکرٹری انفارمیشن راجہ جہانگیر
، سیکرٹری انرجی اسد رحمان گیلانی، سیکرٹری لائیو اسٹاک نسیم صادق، سیکرٹری
پبلک پراسیکیوشن، سیکرٹری سروسز فرحان عزیز خواجہ، سیکرٹری آئی اینڈ سی
سارہ اسلم جو غلط بریفنگ اور غلط اعدادوشمار اکھٹے کر کے نیب اور عدالتوں
میں فراہم کرتی رہی ہیں، سیکرٹری ریگولیشن صالح ظفر جن کی تعیناتی چیلنج ہو
چکی ہے،اسی طرح نیب میں پیشی بھگتنے والے کمشنر لاہور عبداللہ سنبل جن کی
کارکردگی پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں، کمشنر سرگودھا ندیم محبوب جن کے حوالے
سے سپیشل برانچ کی ہی رپورٹس ہیں کہ سائلین کے مسائل سننے تو دور کی بات ان
کے دفتر کے باہر سے کوئی گزرنہیں سکتا، یہاں کے معاملات بھی بہتر نہیں،
کمشنر بہاولپور ثاقب ظفران کی کارکردگی بہترنہ ہونے پر ان کو پہلے متعدد
عہدوں سے ہٹایا جاچکا ہے اوراب بھی یہ صرف وہی کرتے ہیں جو شہبازشریف کا
حکم ہو اور کچھ بھی کام نہیں کرتے ہیں، اسی طرح شہبازشریف کے سابق پی ایس
او اور موجودہ ڈپٹی کمشنر لاہور سمیر احمد سید جن کو ابھی تک انتظامی
معاملات سے متعلق علم ہی نہیں،اور ان کے دور میں کئی انکوائریاں بھی سامنے
آئیں ہیں، سمیر احمد سید صرف وہ اقدامات کرتے رہے جو صرف ن لیگی وزراء اپنے
حلقوں سے متعلق آگاہ کرتے رہے،متعددبار ان کو اعلی افسران نے تبادلے سے
بچایا، ڈپٹی کمشنر فیصل آباد سلمان غنی ، ڈپٹی کمشنر قصور جن کے حکم پر
قصور میں گولیاں چلیں اور کئی افراد جاں بحق ہوئے، ان کی انتظامی صورتحال
یہ رہی کہ انتظامی معاملت میں انتہائی ناقص کارکردگی رہی،لیکن ان کو بھی
سرٹیفکیٹ دیا گیا،ڈپٹی کمشنر چوہدری محمد علی رندھاوا، ڈپٹی کمشنر منڈی
بہاؤالدین شوکت علی، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی طلعت مسعود، ڈپٹی کمشنر بھکر
مدثرریاض ملک، ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان سقرات امان رانا، ڈپٹی کمشنر
بہاولنگر محمد اظہر حیات، ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ محمد سیف انور جپہ ، ڈپٹی
کمشنر لیہ واجد علی شاہ ، اسی طرح پولیس افسران جو کہ شریف خاندان کو مکمل
پروٹوکول دیتے رہے یہاں تک کے اپوزیشن کیخلاف اقدامات میں سب سے آگے رہے ان
کو بھی تعریفی انعامات اور سرٹیفکیٹ دئیے گئے ، جن میں محمد طاہر ایڈیشنل
آئی جی فنانس ، ایڈیشنل آئی جی آپریشن سی پی او لاہور محمد عامر ذوالفقار
خان، ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر سی پی او شہزادہ سلطان، ڈی آئی جی انوسٹی گیشن
لاہور سلطان احمد چوہدری،سی سی پی او ز میں بھتہ خور ی کے الزام میں ملوث
سی سی پی او لاہور امین وینس ، فیصل آباد ڈویژن جہاں پر جرائم کی شرح میں
مزید اضافہ ہوا کرائم و جرائم کنٹرول نہ ہو سکا اس ضلع کے آر پی او بلال
صدیق کمیانہ، آڑ پی او ڈی جی خان سہیل حبیب تاجک، آر پی او گوجرانوالہ رفعت
مختار شامل ہیں، جبکہ وہ پولیس افسران جو ہر ضلع میں ن لیگ کو سپورٹ کرتے
رہے ہیں، ان میں سی پی او ز اور ڈی پی اوز جن کو انعامات دئیے گئے ان میں
اشفاق احمد خان سی پی او گوجرانوالہ، سرفراز احمد فلکی سی پی او ملتان،
افضال احمد کوثر سی پی او راولپنڈی، جبکہ ڈی پی او حافظہ آباد ڈاکٹر سردار
غیاث گل خان، ڈی پی او جھنگ لیاقت علی ملک ، ڈی پی او میانوالی صادق علی،ڈی
پی او بھکر خالد مسعود،ڈی پی او بہاولپور مستنصر فیروز، ڈی پی او سرگودھا
محمد سہیل چوہدری،ڈی پی او سیالکوٹ اسد سرفراز خان شامل ہیں، جبکہ کئی
محکموں کے افسران جن میں ڈاکٹر شیخ عبدالرحمن، آصف اقبال چوہدری، خالد
سلطان، محمد صدیق چوہدری،محمد شعیب اکبر، میاں سالک جلال، ملک مبشر احمد
خان، محمد اکرم اشرف، محمد اویس ، ڈاکٹر محمد منیر احمد، مشتاق احمد سیال،
اسد اسلام،محسن سرور، ملک منیر احمد شامل ہیں، جبکہ ان افسران سے متعلق یہ
بات واضح ہے کہ یہ وہ افسران ہیں جن کو شہبازشریف نے ٹاسک دئیے ، اور پھر
متعلقہ اضلاع میں ٹاسک پورا کرنے کے لئے حکومتی ممبران اسمبلی کو ساتھ
ملایا، پھر ٹاسک پورے ہوتے رہے ہیں، جبکہ ان میں سے متعدد افسران کے نام
پنجاب56 کمپنی اسکینڈل میں بھی شامل ہیں، جن کی نیب تحقیقات کر رہا ہے
اوربعض کو طلب کیا گیا تو بعض کو طلب کیا جائیگا۔اس حوالے سے تقریب سے خطاب
کرتے ہوئے وزیراعلی پنجاب شہبازشریف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ وہ افسران ہیں
جنہوں نے میرے حکم پر بہتر اقدامات کئے، اور جو میرا ویژن تھا اس پر
عملدآمد کرانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی، اور یہ افسران یہاں بھی ہمارے ساتھ
تھے اوراسی طرح یہ افسران آگے بھی امید ہے بہتر اسی طرح کام کرتے رہیں
گے۔اس حوالے سے سینئر قانونی ماہر اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہاکہ افسران کو
کس قانون کے تحت انعامات دئیے گئے ہیں، یہ قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے،
پہلے لاکھوں روپے تنخواہیں، لاکھوں کی مراعات اور پھر پروٹوکول دیا گیا ہے۔
پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت کا الیکشن سے قبل اعلی بیوروکریٹس اور دیگر
افسران کو سرٹیفکیٹ اور کروڑوں روپے کے کیش انعامات دینا یہ الیکشن پول
ریکنگ ہے اب اس طرح کے وفادار افسران انتخابات میں بھی ان کو استعمال کیا
جاتا ہے۔ سابق سینئر بیوروکرٹس کا کہنا ہے کہ اس وقت ان افسران کو نوازنے
کا مطلب ہے کہ ان کو انتخابات میں استعمال کیا جائے، ان سے ہمدردی لی جائے،
اور یہ شہبازشریف کا وطیرہ رہا ہے کہ ان افسران کو نوازا جاتا ہے، اور ان
افسران کو ان کی اوقات سے بڑھ کر دیدیا جاتا ہے پھر یہی افسران آنکھیں بند
کر کے ان کے لئے دن رات ایک کر دیتے ہیں، اس سارے معاملے پر الیکشن کمیشن
کو بھی نوٹس لینا چاہیے،اور خاص طورپر سپریم کورٹ آف پاکستان کو بھی اس کا
نوٹس لینا چاہیے۔ سابق بیوروکریٹس کا کہنا ہے کہ سابق دور جب ختم ہونے کے
قریب تھا تو اس وقت بھی سابق چیف سیکرٹری پنجاب نے خصوصی طورپر ایک تقریب
کا اہتمام کیا تھا اس میں بھی اسی طرح افسران کو نوازا گیا تھا، اور لاکھوں
روپے انعامات دئیے گئے تھے، اور ان افسران نے مکمل طورپر انتخابات 2013میں
مسلم لیگ ن کا ساتھ دیا تھا، اور وہ جہاں بھی تعینات ہوئے تھے وہ ن لیگ کی
پالیسی پر عملدآمد کراتے رہے تھے، پھر ن لیگ کی حکومت آنےکے بعد پھر وہ
افسران پنجاب میں آگئے۔ جبکہ بتایا گیا ہے کہ جو کروڑوں روپے تقسیم کئے
گئے ہیں یہ شہبازشریف نے اپنے صوابدیدی فنڈز سے دئیے گئے ہیں، جس کی منظوری
بھی شہبازشریف نے ہی دی ہے۔ سابق سینئر بیوروکریٹس تیمور عظمت ، اوریامقبول
جان عباسی نے کہا ہے کہ ماضی میں ایسی مثال کوئی نہیں ملتی البتہ ن لیگ نے
یہ شروع کیا تھا، گزشتہ دورِ حکومت کے اختتام میں بھی چند افسران کو نوازا
گیا تھا لیکن وہ کم تھے، اس بار اتنے افسران کو انعامات دینا ، اس سے صاف
ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پارٹینشن نظر آتی ہے، افسران کا کہنا تھا کہ ان کے دور
میں میڈلز ملتے تھے اور اب بھی وہی ملنے چاہیے تھے اس کا بھی ایک طریقہ کار
ہے، جو معیار پر پورا ترتا ہے اسے دئیے جائیں، اس طرح لاکھوں روپے کیش
انعامات دیدینا کہیں بھی کسی پالیسی یا قانون میں نظر نہیں آتا ہے۔
|