نوازشریف نے طبل بجا دیا ہے اور میدان میں کود پڑے ہیں۔اب
آصف علی زرداری کی باری ہے کہ وہ پاکستان کا ساتھ دیتے ہیں کہ بالادست طبقے
کی حمایت حاصل کرتے ہیں یا میثاق جمہوریت کی اس شق پر عمل کرنے کیلئے قدم
آگے بڑھاتے ہیں۔ جس پرمحترمہ بے نظیر اور میاں نواز شریف نے دستخط کیے تھے
کہ ٹروتھ کمیشن قائم کیا جائے گا اور ٹروتھ کمیشن کے سامنے ما ضی میں
ہونیوالی غلطیوں کا اعتراف کریں گے اور قوم کو سب کچھ سچ بتائیں گے۔ٹروتھ
کمیشن کے سامنے نواز شریف ، محترمہ بے نظربھٹو سمیت آئین کوپامال کرنے والے
جنرلز اپنی غلطیوں کو تسلیم کرینگے۔جس پر عمل کرنے سے نواز شریف کنی کتراتے
رہے ہیں۔آج جب کہ نواز شریف نے محازپر ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس صورتحال
میں نواز شریف کے ساتھ ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز ساتھ کھڑی ہے۔عملی
طور پر مسلم لیگ ن ہاتھ سے نکل چکی ہے۔بظاہر اس نئے محاز پر نواز شریف
اکیلے نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی اکا دکا ساتھی ہے تووہ فرنٹ پر آنے کو تیار
نہیں ہے۔ویسے بھی مسلم لیگ ن کی لیڈرشپ اور کارکنان کا سیاسی سبھا اینٹی
اسٹبلشمنٹ والا نہیں ہے۔سادہ سادہ سے سیاسی لوگ ہیں ۔جو سیاست پر لگانا اور
کمانے کے ہنر سے واقف ہیں ۔نئے بکھیڑوں میں پڑنے اولے بالکل نہیں ہیں ۔بنیادی
وجہ سب کاروباری ہیں ۔نفع و نقصان کے اصولوں پر سیاست کے عادی ہیں۔اس نئی
بنتی سیاسی صورتحال میں نواز شریف کیلئے واحد سہارا پیپلز پارٹی ہے۔جس کے
خمیر میں مزاحمتی سیاست موجود ہے۔جس کی پوری سیاسی تاریخ جمہوریت کیلئے
قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔مسلم لیگی کارکنوں کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے
کارکن مزاحمتی سیاست کے خوگر ہیں۔نواز شریف کیلئے آکسیجن لیگی نہیں
پیپلزپارٹی کے جیالے فراہم کر سکتے ہیں۔دوسری کوئی صورت نظر نہیں آتی
ہے۔اگر نواز شریف تن تنہا ڈٹے رہتے ہیں توانہیں وہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے
جس کیلئے وہ اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بارکھڑے ہورہے ہیں۔بہت ضروری ہے کہ
نواز شریف ہم خیال اورپرانے مزاحمتی گروپوں اور سیاستدانوں کو ساتھ لیکر
چلیں۔ڈٹے رہنے کا یقین بھی دلائیں کہ کچھ بھی ہوجائے وہ اب ڈیل نہیں کریں
گے۔فیصلہ کن لڑائی لڑیں گے۔آصف علی زرداری نے گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس
میں اپنے تحفظات کی طرف اشارہ بھی کیا تھا کہ نواز شریف ڈبل گیم کر جاتے
ہیں۔۔جوڑ توڑ اور محلاتی سیاست وقت گزر چکا ہے۔نواز شریف کے لب و لہجے سے
لگتا ہے کہ وہ کشتیاں جلا چکے ہیں۔
۔اب فیصلہ آصف علی زرداری نے کرنا ہے کہ وہ نئی بنتی ہوئی سیاسی صورتحال
میں کہاں کھڑے ہوتے ہیں۔یہ فیصلہ کن موڑ ہے۔اب نہیں تو پھر کبھی نہیں والی
پوزیشن ہے۔آصف علی زرداری کیلئے یہ سیاسی امتحان کی گھڑی ہے۔اگر آصف علی
زرداری ماضی کے نواز شریف والی غلطیاں دہراتے ہیں یا نواز شریف سے بدلہ
لینے والی پوزیشن پر چلے جاتے ہیں تو محترمہ بے نظر بھٹوکے وہ الفاظ یاد
رکھیں ۔ جو انہوں نے کبھی نواز شریف اور دیگر ایسے سیاستدانوں کیلئے کہے
تھے جوجمہوری لوگوں اور جمہوریت کو چھوڑ کر خاص قوت کی گود میں بیٹھ جاتے
تھے۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ آج جو کچھ ہمارے ساتھ کیا جا رہا ہے
۔کل وہ تمہارے ساتھ بھی کریں گے۔آصف علی زرداری کے سامنے نواز شریف زندہ
مثال بن کر موجود ہیں۔اگر آصف علی زرداری ماضی کو بول کر پاکستان کے ساتھ
کھڑے ہوتے ہیں توایک طرف جمہوریت کودوام حاصل ہوگا اور دوسری جانب
پیپلزپارٹی کے مردہ گھوڑے میں جان آئے جائے گی۔پیپلزپارٹی کے مزاحمتی رجحان
کے کارکنان اور جیالے جو دم سادھے ہوئے ہیں ۔نئی اٹھان پکڑیں گے۔حقیقی
جمہوریت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔اس سارے کھیل میں اگر نوازشریف ناکام
ہوتے ہیں تو اس کے ذمہ دار آصف علی زرداری بھی ہوں گے۔
|