پی پی ا ور مسلم لیگ (ن) کے درمیان فاصلے بڑھ رہے
ہیں۔اس قدر اختلا ف رائے پیدا ہوچکا کہ شاید واپسی کی ر اہ نہیں بچی۔جو راہ
نوازشریف نے چنی ہے وہ غیر روایتی ہے۔یہ وہ راہ ہے جس کے بارے میں سوچتے
بھی سیاسی قیادت ڈرتی ہے۔جمہوریت اور خلق خدا کا ورد رکرنے والے جب اس قدر
غلامانہ ذہن بنالیں کہ ا ن کی سیاست ہی کہیں فوج نہ آجائے۔کہیں جمہوریت نہ
پٹری ؎؎؎؎؎؎ سے اترجائے۔ تو پھر جمہوریت کا کیا مقام اور کیا
مستقبل؟نوازشریف نے یہ روایتی سیاست ترک کرکے اصل جمہوریت کی بنیا درکھ دی
ہے۔وہ جمہوریت جو سچ میں جمہوریت کہی جاسکتی ہے۔جہاں واقعی جمہوریت کا راج
ہوگا۔جہاں عوامی نمائندگی بالادست ہوگی نہ کہ کچھ اور لوگ۔نوازشریف کے اس
عجب انداز نے دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ پی پی پر بھی سکتہ طاری
کررکھا ہے۔کوئی بھی دیگر جماعت یہ انداز اپنانے پر آمادہ نہیں ہورہی۔یہ
جماعتیں نوازشریف کی باتوں کو سچ تو مانتے ہیں۔ان کے بیانیے کو حقیقت پر
مبنی سمجھتے ہیں۔مگر سیاست جوکھم میں نہیں ڈالنا چاہتے۔وہ اب بھی بھولی
بھالی عوام کو اندھیر ے میں رکھنا چاہتے ہیں۔سچ چھپانا چاہتے ہیں۔او
رنوازشریف کو جھوٹا ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔انہیں دیوانہ او رغیر ذمہ
دارقرار دیا جارہاہے۔ان کی باتوں کو ان کے بیانیے پر آوازے کسی جارہی
ہیں۔پی پی کی کارکردگی صفر ہونے کے سبب اس جماعت کے لیے مقتدر حلقوں کو
ناراض کرنا مشکل ہے۔اسے اقتدار ملا تو انہیں کی نوازش ہوگی۔اس لیے وہ نواز
شریف کی جماعت سے دوریاں قائم رکھنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔
نوازشریف اندر کی باتیں بتانا شروع کردی ہیں۔بتادیا کہ کس طرح ایک اعلی
عہدے دارنے انہیں مستعفی ہونے یا لمبی رخصت پر جانے کا کہا۔نوازشریف نے یہ
بھی بتادیا کہ کس طرح پی پی قیادت نے مشرف کے بارے میں پیغام بھجوایا۔کہا
کہ اس جانے دو ورنہ نتیجے کی ذمہ داری آ پ پر ہوگی۔نوازشریف نے رازوں کو
قسط وار سامنے لانا شروع کردیا ہے۔بالکل ایسے ہی جیسے جاوید ہاشمی کررہے
ہیں۔ہاشمی صاحب بھی دھرنا اول میں ایمپائر کے خدمگاروں اور اس کی انگلی سے
متعلق عوام کو مفید معلومات دیتے رہتے ہیں۔اب نوازشریف نے بھی اپنے سینے
میں چھپے راز بتانا شروع کردیے۔
پی پی قیادت کے پیغام کی بات بڑی حیران کن ہے۔جس طرح زرداری صاحب بلے کو
پکڑلو۔بلے کو نہ چھوڑنا وغیر ہ کا واویلہ مچاتے رہے ہیں۔اس کو دیکھ کربظاہر
یہی لگتاہے کہ وہ مشرف کو انجام تک پہنچانے کی تمنا رکھتے ہیں۔اب جب میاں
صاحب کہہ رہے ہیں کہ درون خانہ وہ مشرف کی خلاصی کے خواہشمند تھے تو
حیرانگی ہورہی ہے۔اس حیرانگی کو کم علمی سے تعبیر ہی کیا جاسکتاہے۔صرف انہی
لوگوں کو حیرانگی ہورہی ہے۔جو یا تو زرداری صاحب کو نہیں جانتے یا زرداری
دور کی پالیسی سے بے بہر ہ ہیں۔انہیں اچھی طرح سمجھنے والے حیران
نہیں۔مطمئن ہیں۔جس طرح زرداری صاحب نے اپنی اہلیہ کے قتل کے بعد بھی بارگین
سے اقتدار حاصل کیا۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ان کے ذہن میں مشرف کے
خلاف کسی قسم کی کاروائی کا شائبہ تک نہ تھا۔اپنے پانچ سالہ اقتدار میں
انہوں نے مشرف کو چھوا تک نہیں۔تب یہ فوجی آمر دنیابھر میں سیر سپاٹے
کرتارہا۔اور زرداری حکومت اس کی سہولت کار بنی رہی۔صرف اس لیے کہ مشرف پر
کوئی آنچ نہ آجائے۔اپنی اہلیہ کے قتل کی حقیقی چھان پین سے احتراز
کیاگیا۔جان بوجھ کر اس کیس سے چشم پوشی کی گئی۔ان کی حکومت کے پانچ سال تو
گزرگئے۔مگر نہ تو بے نظیر کے قاتل سامنے آسکے۔نہ کسی کو پھانسی پر لٹکایا
جاسکا۔بلے کو پکڑ لو۔بلے کو نہ چھوڑنا فرمودات تب آنے لگے جب حکومت کا
دورانیہ پورا ہوچکا۔جب پی پی کی حریف جماعت نے حکومت بنائی تو تب یہ بلا
وجود میں آگیا۔بلا بلاکی رٹ کا مقصد بھی یقینا نوازشریف حکومت سے بد نیتی
کے سو ا کچھ نہ تھا۔
نوازشریف نے غیر روایتی سیاست کا انتخاب کرلیا ہے۔صحیح معنوں میں اقدارکی
سیاست۔ملک کو ستر سالوں سے چمٹے مسائل کے خاتمے کی سیاست۔سابق وزیر اعظم
اگر یہ کہتے ہیں کہ سترسالوں سے۔کچھ برے سیاست دان۔کچھ برے ججز۔اور کچھ برے
جرنیلوں نے ملک کو تماشہ گاہ بنایا ہوا ہے تو اس میں غلط ہی کیا ہے۔جب برے
جرنیل ہمہ وقت حکومت پر شب خون مارنے کی سوچتے رہیں گے۔عدالتوں میں بیٹھے
کچھ برے ججز ا ن کے شب خون کو جائز قراردیتے رہیں گے۔جب برے سیاست دان ا ن
شب خون مارنے والوں کے مددگار بن جائیں گے۔تو یہ گھن چکر چلتارہے
گا۔نوازشریف اس گھن چکر کے خلاف بول رہے ہیں تو سچ ہی تو کہہ رہے ہیں۔ |