علم ظالم اور منافق کے پاس بھی ہو سکتا ہے لیکن ضمیر
صرف صالح اور انسانیت پسندوں کے پاس ہوتا ہے اس لیے اہل دانش کاخیال ہے کہ
عقلمند بھی وہی ہے جو ضابطوں کے بجائے ضمیر کے مطابق عمل کرے۔ یہاں حقیقی
انسانیت پرستوں اوردنیا پرستوں کے درمیان اختلاف رائے شروع ہو جاتا ہے۔
مثال کے طور پر شیخ سعدی شیرازی۔ امام غزالی اور جلال الدین رومی کے نزدیک
عقلمند اور دانشمند انسان وہ ہے جو صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرے۔ ان کے
نزدیک صحیح فیصلہ وہی ہے جو قانون فطرت کے مطابق ہو جبکہ عملیت پسندوں کا
خیال ہے کہ بعض اوقات ضابطے او ر ضمیر کا ٹکراؤ ہو جاتا ہے کیونکہ انسانوں
کے بنائے ہوئے قوانین میں واضع خامیاں نظر آنے کے باوجود اگر تحت ضابطہ عمل
نہ کیا جائے تو معاشرے میں انارکی پھیلنے کا احتما ل ہوتا ہے۔ اس موقف کے
حق میں دلیل دیتے ہوئے ایک باپ کے خلاف اپنے سات سالہ بیٹے کی نگہداشت کے
حوالے سے غفلت برتنے پر پولیس کے ایک ایسے چارج کا حوالہ دیا جسکی بنا پر
مقامی عدالت بچہ سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیتی ہے۔ ہوا یوں کہ
ایک باپ اپنے پانچ سالہ بچے کو ساتھ لے کرکھیل دیکھنے گیا جہاں والد اپنے
خیالوں میں گھم تھا کہ بچہ ایک ایسی ڈرنک لے کر پینے لگا جس میں پانچ فی صد
شراب تھی اور قانون بچوں کو ایسی ڈرنک پینے کی اجازت نہیں دیتا۔ پولیس کی
بچے پر یہ ڈرنک پیتے ہوئے نظر پڑ گئی اور اس نے باپ کے خلاف غفلت برتنے کا
کیس درج کر دیا۔ لیبارٹری کی رپورٹ کے مطابق بچے پر شراب کا کوئی اثر نہ
ہوا پو لیس چاہتی تھی کہ کیس ختم کر دے مگر اسے خطرہ تھا کہ اگر کسی طرح
راز فاش ہو گیا تو کیس الٹا اس کے خلاف دائر ہو جائے گا لہذا پولیس نے
عدالت میں چالان پیش کر دیا۔ جج نے بھی پہلے سوچا کہ نقصان کچھ نہیں ہوا اس
لیے کیس ختم کر دیا جائیے لیکن اس نے بھی قانون پر عمل کرتے ہوئے بچہ کچھ
عرصہ سوشل ویلفئیراور پھر والدہ کے حوالے کرنے کا حکم دیا جہاں دو ہفتے تک
باپ کو سزا کے طور پر گھر سے نکال دیا گیا۔ تمام متعلقین اس بات پر متفق
تھے کہ باپ کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے کیونکہ اس نے جان بوجھ کر کوئی جرم
نہیں کیا اور بچے نے جو چسکی ماری اسکا ابچے کی صحت پر منفی اثر بھی نہیں
ہوا لیکن سب ضابطے کی خلاف ورزی سے خائف تھے۔ مائرین نے اسے پریکٹکل وزڈم
کا نام دیا لیکن ارسطو اور افلاطون کا کہنا ہے کہ انارکی پھیلنے کی اصل وجہ
نا انصافی ہے جہاں انصاف نہیں ہو گا وہاں لوگ ضابطے توڑنا شروع ہو جاتے ہیں
لہذا انسان کے اندر سب سے پہلے منصفانہ سوچ و فکر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندوستان کی را اور پاکستان کی آئی ایس آئی کے سربراؤں کی مشترکہ کتاب دی
سپائی کرونیکلز میں وحدت کشمیر کی بحالی کی تحریک کے خلاف جنرل اسد درانی
کے انکشافات پڑھنے کے بعد لگتا ہے کہ جب اختیارات ان کے پاس تھے تو وہ
ضابطوں کی پابندی کر رہے تھے لیکن اب شاید انکا ضمیر انہیں ملامت کر رہا ہے
اگر معاشرہ انکے اندر ایک انصاف پسند انسان پیدا ہونے کا موقع دیتا تو
یقینا آج وہ ضمیر کی عدالت میں بری ہوتے۔ تصنیف میں جہاں کشمیریوں کے ساتھ
زیادتی اور لبریشن فرنٹ کی قیادت کے ساتھ بدسلوکی تسلیم کی گئی ا وہاں
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے خواب کا بھی زکر
موجود ہے لیکن ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ زمین اور آسمان کبھی ملا نہیں کرتے۔
یہ بات بلاشبہ درست ہے لیکن زمین اور آسمان کو پیدا کرنے والا کل بھی موجود
تھا۔آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا اور اس کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے
دونوں ملکوں کے حاکمین اگر اپنے عوام کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر کے مستقبل
اور امن کو صرف ایک خواب میں بدلنے کی کوشش کریں گے تو اس زمین اور آسمان
کے خالق و مالک کو اس دھرتی پر بد امنی پھیلانے والوں کو صفہ ہستی سے مٹانے
میں کوئی مشکل نہ ہو گی۔ دونوں ملکوں کی حکومتوں کو چائیے کہ وہ انکشافات
پر برہم ہونے کے بجائے تاریخ سے سبق حاصل کریں اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ
آیا انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کا مقصد آپس میں تاحیات جنگ کرنا تھاـ؟
جہاں امن نہیں ہوتا وہاں ترقی نہیں ہوتی اور جہاں انصاف نہیں ہوتا وہاں امن
نہیں ہوتا۔
جنرل درانی کے مطابق پاکستان کے پنجابیوں کو جموں کشمیر کے ڈیموں اور خود
مختار کشمیر میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے جسکی وجہ سے جموں کشمیر کی وحدت
کی بحالی میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں مگر یہ ڈیمز اسکا بھارتی پارٹنر اس کے
لیے خشک کرتاجا رہا ہے اگر جموں کشمیر کی وحدت بحال ہو جاتی تو پاکستان کو
یہ دن دیکھنے نصیب نہ ہوتے لیکن بمطابق قرآن پاک نصحیت تو صرف اہل دانش ہی
حاصل کیا کرتے ہیں۔ موجودہ تحریک کے اولین حریت پسندوں نے جب بھی تحریک
آزادی جموں کشمیر میں بالعموم اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے تنظیمی
معاملات میں پاکستانی اداروں کی بے جا مداخلت کی شکایت کی تو یہ ادارے تو
درکنار بعض کشمیریوں نے بھی کہا کہ شاید ان پر ایجنٹی کا الزام لگایا جا
رہا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جو ایجنٹ ہے نہیں وہ سوچتا کیوں ہے کہ موضوع سخن
وہ ہے دوسرا اب جنرل درانی نے خود بتا دیا کہ جموں کشمیر کو خود مختار ہونے
سے روکا گیاجو شاید ایک غلطی تھی۔ جنرل درانی کی بات تو ماضی کی ہے لیکن اب
بھی یہ ہماری تحریک و تنظیم کو مختلف طریقوں سے محدود کمزور اور کنٹرول
کرنے کی کوششیں کی جاری ہیں جس میں نمائشی اور زر پرست لوگوں کا افسوسناک
کردار ہے۔یہ سوچنا اور سد باب کرنا محب وطن تحریکیوں کا ہی کام ہے کہ جو
لوگ ایک وقت میں اپنی زندگیاں ایک نظریے کی خاطر داؤ پر لگا دیتے ہیں وہ
بعد میں کیوں پس منظر میں دھکیل دئیے جاتے ہیں ۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف
نے ایک شکایت کے رد عمل میں تحقیقات کا حکم دیا مگر اسے بھی دبا دیا گیا ۔
ہماری تنظیم و تحریک میں ایسی مخلوق کہاں سے آئی جو شہیدوں سے محبت اور
غازیوں سے عداوت کرتی ہے ؟ پہلے تحریک کو سیاسی نقصان پہنچایا گیا اب
تعلیمی اداروں میں بچوں کو برین واش کیا جا رہا ہے ۔ آزاد کشمیر دنیا کا
شاید واحد خطہ ہے جہاں فوج وقتا فوقتاتعلیمی اداروں کو اکھٹا کر کے ایسی
سیاسی تقریبات کا انعقاد کرتی ہے جس میں جموں کشمیر کی تاریخی اکائیوں کے
درمیان مزید دوریاں پیدا ہوتی ہیں لہذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مقصد جموں
کشمیر کو متحد کرنا ہے یا مذہب کی بنیاد پر تقسیم ؟ ہم چند ساتھیوں نے حال
ہی میں جس ریفارمز کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا اسکا مقصدتنظیمی عہدے
چھیننا نہیں ہے بلکہ تحریک و تنظیم کو بیرونی اثر و رسوخ سے آزاد کروا کر
اپنے اصل ٹریک پر واپس لانا ہے جس کے لیے آزمودہ کار ساتھیوں کو اپنے اصل
پلیٹ فارم پر واپس لانا ہے جس میں تمام باشعور اور صاحب الرائے ساتھیوں کو
اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ |