21اپریل 2018بروز ہفتہ ریاض شہرکے محلہ خزامی میںفائرنگ
کی آواز سنائی دی۔ یہ فائرنگ شاہی محل کے قریب ایک مشکوک ڈرون پر کی گئی،
جو شاہی خاندان کے بارے معلومات اکٹھی کر رہا تھا۔ سعودی میڈیا اس سے آگے
کچھ نہیںبتاتا لیکن روسی اور ایرانی میڈیا کے مطابق یہ فائرنگ اتنی شدید
تھی کہ قریب کے در و بام ہل اٹھے۔ صاف معلوم ہوتا تھا یہ فائرنگ محض ڈرون
گرانے کے لیے نہیں کی گئی۔ کچھ دیر بعد ہیلی کاپٹرکی صدائے آمد و رفت
سنائی دی، اور پھر خاموشی چھا گئی۔اس سے آگے کیا ہوا؟ عالمی میڈیا بھی کچھ
نہیں جانتا۔لہذا چہ مگوئیوں اور قیاس آرائیوں کا طومار بار بار باندھا جا
رہا ہے۔
سب سے بڑی قیاس آرائی یہ ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اس دن
سے لاپتا ہیں۔ وہ کہاں ہیں؟ کس حال میں ہیں؟ کوئی نہیں جانتا۔ سعودی شاہی
خاندان کے بارے میں مصدقہ خبریں دینے والا ٹویٹر اکاؤنٹ ’’مجتہد‘‘ بتاتا
ہے : ’’محلہ خزامی والے واقعہ میں انہیں دو گولیاں لگیں، جس میں وہ جاں بحق
ہو گئے یا پھر اتنے شدید زخمی ہیں کہ کسی کے سامنے نہیں آ سکتے۔‘‘ 29مئی
کو اس نے لکھا کہ ’’شہزادہ بن سلمان بحیرہ احمر میں ہیں اور اسرائیلی حکام
سے مذاکرات کر رہے ہیں۔‘‘ روسی و ایرانی میڈیا بھی انہیں جاں بحق تسلیم کر
رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ شہزادہ کا منظر عام سے غائب ہونا ہے۔ ہر دم میڈیا سے
منسلک رہنے والے ولی عہد پورے چالیس دن سے نظر نہیں آ رہے۔ ادھر سعودی
حکام کا رویہ بھی اس بات کی تصدیق کر رہا ہے۔ کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے کی
بجائے مبہم سی تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں، جنہیں دیکھ کر وثوق سے کچھ بھی
کہنا مشکل ہے۔ مزید 29اپریل کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپو کی سعودیہ
آمد پر بھی شہزادہ کی کوئی خبر نہ نشر ہو سکی۔
یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ کوئی سعودی شہزادہ منظر عام سے غائب ہوا ہو۔ اس سے
پہلے سعودی پولیس کے سینئر افسر شہزادہ ترکی بن بندر، نائب وزیر ثقافت
شہزادہ سلطان بن ترکی اور شہزادہ سعود بن سیف النصر بھی غائب ہو چکے ہیں۔
لیکن ایک ولی عہد کا یوں لاپتا ہونا معنی خیز ہے، جو اپنے والد کا سارا
کاروبار سلطنت اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے تھے۔ ان کی یہ گمشدگی بہت سے سوالات
کو جنم دیتی ہے۔ مثلا کیا واقعی انہیں قتل کر دیا گیا ہے؟ یا وہ اتنے شدید
زخمی ہیں کہ انہیں منظر عام پر لانا مشکلات پیدا کر سکتا ہے؟کیا وہ جان
بوجھ کر پس منظر میں چلے گئے ہیں تاکہ اپنی قوت مجتمع کر سکیں اور اپنے
مخالفین کو سبق سکھا سکیں؟ کیاانہیں مغربی طاقتوں نے خوب استعمال کر لیا ہے
اور اب وہ خود انہیں راستہ سے ہٹانا چاہتی ہیں؟ نیز وہ کوئی نیا مہرہ سامنے
لانا چاہتی ہیں؟ بین الاقوامی معاہدے خاص طور پر امریکہ سے کیے معاہدات میں
دراڑ پڑ سکتی ہے؟ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے چکر میں بحیرہ عرب میں موجود
ہیں تاکہ خفیہ طور پر معاملات طے پا سکیں؟وغیرہ وغیرہ
اگر یہ بات سچ ہے کہ اکیس اپریل کو خاص انہی کی ذات پر حملہ کیا گیا تو اس
کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ ان کی ذات سے کن حضرات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟
ماہرین کے مطابق بہت ساری قوتیں اُن سے نالاں تھیں۔ سب سے پہلے اُن کے اپنے
خاندان کے بعض لوگ اُن سے سخت ناراض تھے۔ جنہیں ولی عہد نے اپنے راستے سے
ہٹانے کی پوری کوشش کی، زندان میں ڈالا اور ان سے ان کی دولت چھینی ۔ کچھ
عرصہ قبل بیسیوں شہزادوں کو کرپشن کے خاتمے کے نام پر پابند سلاسل کیا گیا
، جن میں شہزادہ ولید بن طلال جیسی قد آور شخصیت بھی شامل تھی اور پھر
110ارب ڈالر ، نیز حکومتی معاملات میں دخل اندازی سے رکنے کے بدلے انہیں
رہائی ملی۔
مذہبی طبقہ بھی ان کی پالیسیوں سے شدید نالاں تھا۔ سعودی خاندان کے مددگار
آل شیخ خاندان سے کافی سارے اختیارات لے لیے گئے۔ پانچ سو کے قریب معزز
علماء کرام کو اغواء کر کے زندان میں ڈالا گیا جن میں سے بعض کی ابھی تک
کوئی خیر خبر نہیں ہے۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس
میں ایک سفید ریش بزرگ جمعہ کے خطبہ میں ولی عہد کی اسلام مخالف پالیسیوں
پر تنقید کرنے لگے تو انہیں دوران خطبہ گرفتار کر لیا گیا۔ مذہبی سوچ رکھنے
والی عوام بھی ان کی لبرل پالیسیوں کی سخت مخالف تھی۔ وژن 2030ء کے نام پر
بے حیائی، فحاشی اور عریانی کے سیلاب کا رخ ایک اسلامی مملکت کی جانب کر
دیا گیا تھا۔ عورتوں کی آزادی کے نام پر میراتھن ریس ، مخلوط میوزیکل
کنسرٹس کا انعقاد کیا گیا اور سینما گھروں کے افتتاح کی اجازت دے دی گئی۔
خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت ملنے پر بھی کچھ لوگ سیخ پا تھے۔ اسی طرح
’’نیوم‘‘ نامی فری پورٹ سٹی کا منصوبہ (جس میں ہر سیاح اور شہری کو ہر طرح
کی۔۔۔ کھلی آزادی حاصل ہوگی) کے بھی کچھ لوگ مخالف تھے۔
داخلی عوامل کے علاوہ کئی ایک خارجی عوامل بھی ولی عہد کے لیے سد راہ بنتے
جا رہے تھے۔ بین الاقوامی دنیا اُن کی خارجی پالیسیوں سے اختلاف کر رہی تھی
جن سے امن عالَم تہہ وبالا ہو رہا تھا۔ مثلا یمن میں جنگ چھیڑنا، ایران سے
مخاصمت میں تیزی، شام میں شدت پسند گروہوں کی سرپرستی، امریکا کی بے دام
غلامی، فلسطین کے مسئلے پر اسلامی مؤقف سے روگردانی وغیرہ۔ اب ان پر یہ
قاتلانہ حملہ مذہبی لوگوں نے کیا ہے یا شہزادوں کے کسی گروہ نے، مغربی
طاقتیں انہیں راستہ سے ہٹانا چاہتی ہیں یا وہ خود منظر عام سے غائب ہیں۔۔۔
ہر صورت میں ایک بات طے ہے کہ جو شخص’’ ہم چوں ما دیگرے نیست‘‘ کی پالیسی
پر چلتا ہے ، مشور ے کی بجائے آمریت کو پسند کرتا ہے، اپنے فیصلے دوسروں
پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے، اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ آفتوں کا دیو
اُسے اپنی خونی پنجوں میں ضرور جکڑتا ہے۔حکمران خواہ پاکستانی ہوں یا
سعودی، قدرت اُن سے انتقام ضرور لیتی ہے، کوئی نہ سمجھے تو الگ بات ہے۔دنیا
کی معلوم تاریخ کا فیصلہ یہی ہے۔
٭٭٭
|