ضلع اٹک میں 1988 سے 1997 تک دو حلقے این اے 41 اور 42
تھے جو بعد میں نئی حلقہ بندیوں کے بعد تین کر دیے گے اور این اے 57 58 59
بنے اگر 1988 کی بات کی جائے تو یہاں سے سابق صوبائی وزیر داخلہ شہید شجاع
خانزادہ کے والد تاج محمد خآنزادہ الیکشن لڑتے رہے ہیں یہاں انکا مقابلہ
پاکستان تحریک انصاف کے موجودہ امیدوار اور سابق وقاقی وزیر ملک امین اسلم
کے والد ملک اسلم سے ہوتا رہا ہے جو کے پیپلز پارٹئ کے امیدوار تھے ملک
اسلم نے یہاں تاج خانزادہ کو ہرا دیا تھا جو کے اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ
پہ امیدوار تھے ملک اسلم نے 47676 جبکہ تاج خانزادہ نے 36058 ووٹ لیئے تھے
1990 میں یہاں ملک اسلم کا مقابلہ اسلامی جمہوری اتحاز کے شیخ آفتاب سے ہوا
جس میں انہیں بھاری ووٹوں سے شکست کا سامنا کرںا پڑا تھا شیخ آفتاب نے
71134 جبکہ ملک اسلم نے 47920 ووٹ لیئے 1993 میں ایک بار پھر ملک اسلم اور
شیخ آفتاب کا مقابلہ ہوا اور ایک بار پھر شکست ملک اسلم کا مقدر بنی شیخ
آفتاب نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پہ 70671 ووٹ جبکہ ملک اسلم نے 54052 ووٹ لیئے
1997 میں شیخ آفتاب نے جیتنے کی ہیٹرک مکمل کی جب کے ملک اسلم نے ہارنے کی
اس الیکشن میں ایک بار پھر شیخ آفتاب نے ملک اسلم کے چاروں شانے چت کرتے
ہوئے لگاتار تیسری مرتبہ شکست دی انہوں نے 67775 جبکہ ملک اسلم نے 35204
ووٹ لیئے 2002 میں نئی حلقہ بندیوں کے بعد یہ حلقہ این اے -57 ہو گیا تو
یہاں سے ملک اسلم کے صاحبزادے ملک امین اسلم نے پاکستان مسلم لیگ ق کے ٹکٹ
پہ الیکشن لڑا اس الیکشن میں شیخ آفتاب نے حصہ نہیں لیا تھا تو مسلم لیگ ن
نے یہاں سے محمد سلمان سرور کو نامزد کیا تھا لیکن اس الیکشن میں اپنا پہلہ
الیکشن لڑنے والے ملک امین اسلم نے کامیابئ حآصل کی انہوں نے 39921 ووٹ
لیئے جبکہ مسلم لیگ نے کے سلمان سرور نے 23988 ووٹ لیکر دوسری جبکہ متحدہ
مجلس عمل کے حآفظ سعید احمد نے 23933 ووٹ لیکر تیسری پوزیشن حآصل کی
2008 میں یہاں ایک بار پھر شیخ آفتاب نے انٹری دی اور مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے
پہ الیکشن لڑا یہاں انکا مقابلہ اپنے درینہ سیاسی حریف ملک اسلم کے
صاحبزادے ملک امین اسلم سے ہوا اور انہوں انے اپنی جیت کی روایت برقرار
رکھتے ہوئے ملک خاندان کو ایک بار پھر شکست دے دوچار کیا لیکن انکی جیت کا
مارجن صرف تین سو ووٹ کے قریب تھا انہوں نے 38556 جبکہ ملک امین اسلم نے
38200 ووٹ لیئے تھے جبکہ میجر طاہر صادق کی صاحبزادی ایمان طاہر نے 33000
ووٹ لیکر تیسری پوزیشن حاصل کی تھی ۔۔۔ 2013 میں ایک بار پھر شیخ آفتاب اور
ملک امین اسلم میں جوڑ پڑا اور یہاں بھی شکست ملک امین اسلم کا مقدر بنی
اور جیت نے شیخ آفتاب کے قدم چومے یہ شیخ آفتاب کے ریکارڈ تھا کے وہ آج تک
کوئی الیکشن نہیں ہارے اس بار انکی جیت کا مارجن تقریبا چار ہزار ووٹ کا
تھا انہوں نے 59920 ووٹ جبکہ ملک امین اسلم نے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ
پہ 56007 ووٹ لیئے جبکہ میجر طاہر صادق نے 51439 ووٹ لیکر تیسری پوزیشن
حاصل کی اب یہاں میجر طاہر صادق گروپ تحریک انصاف میں شامل ہو چکا ہے جس سے
تحریک انصاف کا پلڑا بھہت بھاری ہو گیا ہے کیونکہ اب یہاں سے پاکستان تحریک
انصاف ملک امین اسلم کو اپنا امیدوار نامزد کر چکی ہے اور میجر طاہر صادق
یہاں سے امیدوار نہیں ہونگے تو وہ بھی ملک امین اسلم کو سپورٹ کرینگے
کیونکہ طاہر گروپ کا اٹک میں بہت بڑا ووٹ بنک ہے اور وہ اب اسے تحریک انصاف
کے لیئے کیش کروائنگے اب یہاں سے مسلم لیگ ن کے شیخ آفتاب کا جیتنا آسان
نہیں ہوگا اور ممکن ہے ملک امین اسلم اپنے والد اور اپنی پہ در پہ شکستوں
کا بدلہ شیخ آفتاب سے لینے میں کامیاب ہو جائیں لیکن ایہ ایک انتہائی سخت
مقابلہ ہونے جا رہا ہے مسلم لیگ ن اپنا ٹکٹ شیخ آفتاب کے علاوہ کسی کو نہیں
دے سکتی اور نہ ہی کو ئی اور امیدوار یہاں پہ مسلم لیگ ن کے پاس ہے شیخ
آفتاب کی مسلم لیگ ن سے 28 سال کی وفاداری ہے اور مسلم لیگ ن انکے علاوہ
کسی اور کو ٹکٹ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی لیکن میرا تجزیہ کے مطابق یہاں
سے میجر طاہر صادق گروپ کی تحریک انصاف میں شمولیت سے ملک امین اسلم کی
پوزیسن کافی مظطوط ہو گئی ہے اور اس بار شیخ آٍفتاب کو کامیابی حآصل کرنے
کے لیئے بہت محنت کرنا پڑے گی نہیں تو انکی مسلسل کامیابیوں کا سلسلہ رک
سکتا ہے اب ہم دوسرے حلقہ کی بات کریں تو یہاں سے ملک اللہ یار خان عامر
محمد خان اور ملک لعل خان میں مقابلہ ہوتا رہا ہے 1988 میں یہاں ان تینوں
امیدواروں میں کانٹے کا مقابلہ ہوا لیکن یہاں سے پیپلز پارٹئ کے ملک امیر
محمد خان نے 67729 ووٹ لیکر کامیابی حآصل کی ملک اللہ یار خان نے 51906
جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد کے ملک لعل خان نے 39740 ووٹ لیئے 1990 میں
اسلامی جمہوری اتحاد نے ملک لعل کی بجائے ملک اللہ یار کو ٹکٹ دے دیا جسکی
وجہ سے ملک لعل نے آزاد الیکشن لڑا یہاں پیپلز پارٹی کے امیدوار سابقہ ایم
این اے ملک امیر محمد خان ہی تھے لیکن اس بار انہیں ملک اللہ یار کے ہاتھوں
شکست کا سامنا کرنا پڑا ملک اللہ یار نے 68458 امیر محمد خان نے پیپلز
پارٹئ کے ٹکٹ پہ 55174 جبکہ ملک لعل خان نے 32188 ووٹ لیئے تھے ۔۔۔ 1993
میں مسلم لیگ ن نے اپنا ٹکٹ ملک لعل خان کو دے دیا تو ملک اللہ یار نے آزاد
الیکشن لڑا لیکن کامیابی اس بار ملک لعل کے حصہ میں آئی انہوں نے 60140 ووٹ
لیئے ملک اللہ یار نے 42620 جبکہ پیپلز پارٹی کے امیر محمد خآن نے 52226
ووٹ لیئے 2002 میں ملک اللہ یار خان نے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پہ الیکشن لڑا
یہاں انکا مقابلہ مسلم لیک نے کے ملک لعل کے صاحبزاے ملک سہیل سے تھا لیکن
اس الیکشن میں ملک اللہ یار نے کامیابی حاصل کی انہوں نے 88784 ووٹ لییے
جبکہ ملک سہیل نے 41373 ووٹ اور پیپلز پارٹی کے سید افتخآر علی نے 10302
ووٹ لیئے 2008 میں یہاں سے سابق وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی نے خود الیکشن
لڑا اور کامیابی حاصل کی انہوں نے 70000 ووٹ لیئے جبکہ مسلم لیگ ن کے ملک
سہیل نے 59354 ووٹ لیئے 2013 کے الیکشن سے پہلے ملک اللہ یار کے بیٹے ملک
اعتبار مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے ا ور پارٹی ٹکٹ حآصل کرنے میں کامیا ب
ہوگئے جس سے دلبرداشتہ ہوکر ملک سہیل پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگے
اور ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن اس بار پھر انہیں شکست کھانا پڑی
اور ملک اعتبار خان نے 85244 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی ملک سہیل نے 74526
جبکہ میجر طاہر صادق نے 59067 ووٹ لییے اب یہاں سے ملک سہیل تحریک انصاف
چھوڑ کے پھر مسلم لیگ ن میں شامل ہو چکے ہیں صرف ٹکٹ کی آس پر لیکن ایک بار
پھر انہیں ٹکٹ ملتا مشکل دکھائی دے رہا ہے کیونکہ عین ممکن ہے مسلم لیگ ن
اپنے جیتے امیدوار ہی دوبارہ نامزد کرے گی جبکہ پاکستان تحریک انصاف یہاں
سے میجر طاہر صادق کو نامزر کر چکی ہے اسلئے یہاں بہت سخت مقابلہ کا امکان
ہے اور ممکن ہے مسلم لیگ ن کو اس سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑے لیکن اسکا فیصلہ تو
الیکشن کے دن ہی ہوگا - |