بس حکومت کی دربار ختم ہوگئی اورعوام کا دربار شروع ہونے
کو ہے اب ہرسیاستدان کے ساتھ عوام کی عزت پیدا ہوجائے گی جو پانچ سالوں میں
نظر نہیں آتے تھے اب وہ ہر دوسری تیسری پنجائیت میں دیکھنے کو ملیں گے جو
پانچ سالوں میں عوام کا حال معلوم نہیں کرتااب وہ صبح وشام عوام کے حال
معلوم کرنے میں کسر نہیں چھوڑیں گے جومعمولی سی اونچے آوازکی بات پسند نہیں
کرتا اب وہ عوام کی گالیاں بھی برداشت کرنے لگیں گے بظاہر سیاست بھی عجیب
سی چیز ہے جو پانچ سالوں میں آگے پیچھے پروٹوکول کے ساتھ گھومتے پھیرتے تھے
اب اکیلے چلتے پھرتے نظر آنے لگیں گے اب نہ تو اُن کو جان کاخطرہ ہوگا اور
نہ ہی خودکش دھماکے کااور نہ ہی کسی کے نشانے پر ہوں گے خدا کی بھی عجیب سی
شان ہے جن لوگوں کے ساتھ پانچ سالوں میں ملاقات کیلئے وقت نہیں ہوتا تھا اب
وہ عوام سے وقت مانگیں گے نہ تواب ان کی کوئی مصروفیات ہوں گے سرکار ی
اجلاس اور نہ ہی تکبرکی باتیں۔ایک دن میں ایک ضروری کام کے غرض سے اسلام
آباد جانا پڑا ساتھ دوست بھی تھا سارے راستے پرگرماگرم سیاسی بات چیت ہوتی
رہی جب ہم اسلام آباد پہنچے اور گاڑی سے اُترے تو ہم نے چاند گاڑی والے کو
اشارہ کیا وہ رُکا ہم نے اسے عرض کیابھائی ہم فلاں جگہ پر جارہے ہیں اس نے
کہاجائیں گے بس ہم گاڑی میں بیٹھ گئے اورچاندگاڑی اسلام آباد سٹی کی طرف
رواں دواں ہوئی تھوڑے سفر کے بعدراستے میں گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاروں پر
نظر پڑی یقین جانئے چار گھنٹوں کا انتظار تھا آخر کارمیں نے ڈرئیوارسے
پوچھا بھائی یہ کیا ہے کوئی احتجاج ہے یا کوئی کام ہورہاہے جس کی وجہ سے
روڈ بندپڑا ہے کیونکہ ہم نے اپنے صوبے میں دیکھا ہے کہ احتجاجی مظاہروں کی
وجہ سے روڈ بند جاتا ہے تو اس نے کہاکہ نہیں خان صاحب یہ تو وزیر اعظم یا
صدر مملکت صاحب کسی تقریب میں جارہے ہیں اس لئے روڈ بند اور رش ہے یہ بھی
کہاکہ یہ صرف آج کادن نہیں بلکہ ہر دوسرے تیسرے روزصدر، وزیر اعظم یا دیگر
وی وی آئی پی کی وجہ سے روڈ بند ہوجاتاہے اور آنے اور جانے والوں کو سخت
تکلیف کا سامنا کرناپڑتا ہے اس سے روزگار پربھی کافی اثر پڑتا ہے میں نے
اسے عرض کیا بھائی جن لوگوں کی وجہ سے آپ کو تکلیف ہے یہ خود منتخب ہوئے
ہیں یا غریب عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں،نہیں عوام کے ووٹ کے ذریعے ،میں
نے عرض کیاکہ پھربھی ایسے شخص کوووٹ دیں گے کہاکہ نہیں، بہرحال عوام کب سبق
سیکھے گی یہ فیصلہ عوام نے خودکرنا ہے؟اب تو حکومت ختم ہوچکی ہے یہ لوگ
پھرنئے نعروں کے ساتھ عوام کو دھوکہ دینے میدان میں اُتریں گے گذشتہ شب
پانچ سالہ جمہوری وفاقی حکومت نے اپنی مدت پوری کرلی اوروفاقی کابینہ تحلیل
ہوگئی اس موقع پر وزارت پارلیمانی امور نے تحلیل ہونے کا نوٹیفیکیشن جاری
کردیا یہ ملکی استحکام کیلئے بڑی خوش آئند بات ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف
کے بعد دوسری جمہوری حکومت نے اپنی آئینی میعاد پوری کرلی خدانخواستہ
احکومتیں تحلیل نہ ہوتیں اورانتخابات وقت پر نہ ہوتے تو ممکن تھا کہ ملک
میں انتشار برپا ہوتا یہ خدا کا فضل و کرم ہے کہ مارشل ء نافذ نہ ہوا کسی
غیر مسلم ملک کے ساتھ جنگ نہ چھڑی شائداس سے زیاد ہ خوشی کامقام کوئی اورنہ
ہوگا یہ ا راکین اسمبلی اور قوم دونوں کیلئے فخر کا مقام ہے اور خدا کالاکھ
لاکھ شکراداکرناچاہئے کہ خوش اسلوبی سے اسمبلیاں تحلیل ہوئیں اور الیکشن
وقت پرہونے کوجارہے ہیں کیونکہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کسی بھی وزیر
اعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی کسی کی حکومت میں مارشل اورکسی کی حکومت
کرپشن کی وجہ سے نااہلیت کا شکار ہوئی کچھ سیاسی جماعتیں حکومتیں تحلیل اور
انتخابات کرانے کے حامی نہیں تھیں مختلف تاخیر ی حربے استعمال کررہے تھے
لیکن ان کو ناپاک عزائم میں کامیابی نہ مل سکی اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وفاق
سمیت چاروں صوبوں کی حکومتیں تو تحلیل ہوگئیں اورالیکشن کمیشن نے انتخابات
کرانے کی تاریخ کا اعلان بھی کیا ہے کہ ملک میں25 جولائی کو انتخابات ہوں
گے بظاہر انتخابات کرانے کیلئے دو ماہ باقی ہیں اب سیاسی جماعتیں ملک کے
تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آنے والے انتخابات کی
تیاریوں اور صف بندی میں مصروف ہیں اور سیاسی گہماگہمی عروج پر ہے ہر علاقہ
اور یونین کونسل عید کامنظرپیش کرنے لگا ہے لوگ عید کی طرح خوشیا ں مناتے
ہیں سیاسی جلسے ،جلوسوں چھوٹے بڑے تقریبات منعقد ہورہی ہیں جس سے ہر کسی کی
دکانداری چمکی نظر آرہی ہے اس کے برعکس چاروں صوبوں کی حکومتیں تحلیل ہوچکی
ہیں لیکن دیگر صوبوں کی طرح خیبر پختونخواکا نگران سیٹ اپ ابھی تک عمل میں
نہیں آسکا ہے کیا یہ ملک کے خلاف ایک سازش تو نہیں ہے ؟ اس سلسلے میں حکومت
اور اپوزیشن کی ملاقات بھی ہوئی ہے اورمزید بھی ہونگی نگران سیٹ آپ ان
دونوں کیلئے امتحان ہے نگران سیٹ اپ مسئلہ کشمیر بنا ہے نگران سیٹ آپ کا
مسئلہ الیکشن کمیشن کو جارہاہے اور آخری فیصلہ الیکشن کمیشن کو ہی کرنا ہے
جو نگران حکومت کی تشکیل کا آخری آئینی راستہ ہے الیکشن کمیشن کا فیصلہ
سیاسی جماعتوں کی ناکامی ہے عوام بھی کافی عرصے سے انتظار میں ہیں اور
موروثی سیاستدانوں سے تنگ آچکے ہیں اُنہوں نے عزم کیا ہے کہ 2018 الیکشن
میں ووٹ کا صحیح استعمال کریں گے اور عوام دوست قیادت سامنے لائیں گے ۔ |