نظریۂ ضرورت کا جمہوری وژن

ملکی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے جب پارلیمنٹ اپنے دور اقتدار کی مدت مکمل کرچکی ہے۔ یہ عمل اس حوالے سے خوش آئند قرار دیا جارہا ہے کہ ماضی کی ادھوری حکومتوں کے مقابلے میں جیسے تیسے پارلیمنٹ نے جمہوریت کے استحکام کے لیے تاریخ رقم کی۔ اگر پی پی حکومت سے 2013 تا 2018 کی حکومت کا موازنہ کریں تو واضح نظر آتا ہے کہ (ن) لیگ کی حکومت کو پیپلز پارٹی کی نسبت زیادہ مسائل کا سامنا رہا۔ تحریک انصاف، عوامی تحریک اور تحریک لبیک کے دھرنوں اور جلسے جلوسوں نے کئی مواقع پر قیاس آرائیوں کو یقین میں بدلنے کی کوشش کی کہ نواز حکومت چند دنوں کی مہمان ہے، لیکن اسے نواز شریف کی خوش قسمتی قرار دیا جاسکتا ہے کہ ان کی گرتی حکومت کو سہارا ملا۔ یہاں مسلم لیگ (ن) کو مکمل کریڈٹ نہیں دیا جا سکتا کہ لیگی رہنمائوں کی جانب سے کوئی ایسی حکمت عملی وضع کی گئی تھی، جس سے مخالفین قبل ازوقت انتخابات کرانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ گو سیاست میں قسمت سے زیادہ حکمت کا تصور پایا جاتا ہے، لیکن (ن) لیگ کے پانچ برس کے دور حکومت کا اجمالی جائزہ بھی لیں تو یہاں حکمت سے زیادہ قسمت مہربان نظر آتی ہے۔ حالاںکہ نواز شریف تیسری بار بھی اپنا دور وزارت عظمیٰ مکمل نہ کرسکے اور اس کے ساتھ پارٹی صدارت سے بھی نااہل قرار پائے، لیکن ان کی جماعت نے حکومتی مدت مکمل کی اور قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ و سعی کرنے والے ناکام رہے۔اہم بات یہ کہ جولائی میں ممکنہ انتخابات کے حوالے سے ابھی تک قیاس آرائیاں ہیں کہ الیکشن مقررہ وقت پر نہیں ہوسکیں گے، لیکن جس طرح قدم بہ قدم شکوک وشبہات اور افواہ سازیوں کی گرم بازاری کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پارلیمانی دور مکمل کیا۔ اس پر فیصلہ ذرا مشکل ہے کہ مبارک باد کا اصل حق دار کون ہے۔ عمومی رائے تو یہ ہے کہ تمام تر کریڈٹ عسکری قیادت کو جاتا ہے، عسکری قیادت نے جس تدبر اور دُوراندیشی کا مظاہرہ کیا، اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو مسلح افواج کا شکر گزار ہونا چاہیے۔غیر محسوس طور پر ایسا لگ رہا ہے کہ عوام میں اطمینان نہیں۔ وہ اس وقت سیاسی انتشار کے شکار ہیں، اُن کے سامنے تین بڑی اور چھ چھوٹی سیاسی قوتیں ہیں، جو اقتدار میں آنے کے بعد ان کی قسمت بدلنے کا دوبارہ دعویٰ کررہی ہیں۔ منتشر سوچ میں مبتلا عوام کی اکثریت اس شش و پنج میں ہے کہ اگر تمام تر نامساعد حالات کے باوجود (ن) لیگ دوبارہ اس پوزیشن میں آجاتی ہے کہ وفاق میں حکومت بنانے کے لیے زیادہ دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے تو کیا تحریک انصاف، اس کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے موجودہ رویے پر نظرثانی کرے گی، کیونکہ 2013 کے انتخابات میں نگراں حکومت پر اعتماد کا اظہار کرکے عدم اعتماد کرنے والی تحریک انصاف ایک مرتبہ پھر موجودہ نگراں وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار کررہی ہے۔ ماضی میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے آر اوز کے الیکشن کہہ کر جس طرح انتخابات پر الزام تراشیاں کیں اور مسلم لیگ (ن) کی کامیابی پر سوال اٹھاکر ایسی روایت کو فروغ دیا جو اس سے قبل ملک میں رائج نہیں تھی۔ اب دوبارہ عدلیہ کی نگرانی میں انتخابی عمل کو دہرایا جائے گا۔ کیا ضروری ہے کہ نتائج تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی کی توقع کے مطابق ہی آئیں؟.تحریک انصاف نے مکمل طور پر اپنا مائنڈ سیٹ بنالیا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں وہ کامیاب ہوکر وفاق سمیت کم ازکم دو صوبوں میں بلاشرکت غیرے اور ایک صوبے میں اتحادی حکومت بنائے گی۔ اگر ان کی خواہشات کے برخلاف نتائج آگئے تو پھر یہ کیا کریں گے۔ اسی طرح یہ سمجھ لیا جائے کہ وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو حسب توقع کامیابی نہیں ملتی اور اندرونی خلفشار کی وجہ سے وہ وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوتی تو نواز شریف جو ریاستی اداروں کے خلاف پنڈورا بکس کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں، کیا اپنی سیاسی و اخلاقی شکست کی اصل وجوہ کو تسلیم کرکے خاموش ہوجائیں گے۔ ذاتی خیال تو یہی ہے کہ نواز شریف قومی انتخابات میں شکست کے بعد اپنی بچی کھچی کشتیاں بھی جلانے سے دریغ نہیں کریں گے، تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ کسی نئے این آر او کے تحت صرف پنجاب حکومت ملنے پر ہی اکتفا کرلیں اور وفاق میں اپنے مخالفین کی اتحادی حکومت کے راستے میں آنے سے گریز کریں۔ حالات شاید اس جانب گامزن بھی نظر آتے ہیں۔

چاروں صوبوں اور وفاق کی مجموعی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہی سمجھ آتا ہے کہ غیر مستحکم، غیر متوازی حکومتیں بنیں گی، جن کا مستقبل روشن نہیں ہوگا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے کوئی رسمی کارروائی پوری کی جارہی ہو اور انتخابات میں حصہ لینے والے بس کسی اسکرپٹڈ کارروائی کا حصہ ہوں۔ مضبوط اور مستحکم حکومت کا تصور ناپید نظر آتا ہے۔ بادیٔ النظر لگتا ہے کہ جمہوری حکومت کو بھی نظریۂ ضرورت کے تحت منتخب کرایا جارہا ہے۔ دیکھا جائے تو نظریۂ ضرورت کا تصور کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود رہا ہے۔ تمام تر مرکزیت کا محور نظریۂ ضرورت کے نئے وژن کے گرد ہی گھومتا نظر آتا ہے۔

ایک دلچسپ مظاہرہ ہمیں بڑی سیاسی جماعتوں میں ٹکٹ تقسیم کے بعد دیکھنے کو بھی ملے گا، جہاں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی تنظیمی کمزوری کھل کر سامنے آنے کا امکان ہے۔ عوام کی سوچ کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت نے مملکت کو مسائل سے نکالنے کے لیے اپنا سیاسی کردار کماحقہ ادا نہیں کیا۔ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کو مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح بیشتر سیاسی پارٹیوں میں طاقت کا منبع وہ افراد ہیں جو اپنی سیاسی وفاداریاں بدل کر کی پوزیشن پر بیٹھ چکے ہیں۔ بظاہر کوئی سیاسی شخصیت پاکستان کی تمام اکائیوں کے لیے متفقہ آئیڈیل نہیں بن سکی۔ جولائی 2018 کے ممکنہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے کردار کے حوالے سے حوصلہ افزا صورت حال سامنے نظر نہیں آتی۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان فروعی اختلافات کے سبب عوام کی متفقہ لیڈرشپ کا فقدان نمایاں نظر آتا ہے۔ پارلیمان کا تیسرا دور مکمل طور پر جمہوری دکھایا جا رہا ہے۔ شاید پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے مطالبہ نہیں آیا کہ انتخابات فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں۔ اگر ماضی میں جھانکیں تو مملکت کے کسی نہ کسی کونے سے یہ مطالبہ ضرور اٹھتا تھا کہ الیکشن فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں۔اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس آف پاکستان کی بھی خواہش پوری ہورہی ہے کہ حالیہ عام انتخابات عدلیہ کی نگرانی میں ہوں۔ نگراں وزیراعظم کا تعلق بھی عدلیہ سے رہا ہے، الیکشن کمیشن کے سربراہ بھی عدلیہ سے وابستہ رہے ہیں اور قریباً تمام اضلاع میں ماتحت عدالتوں کے جج صاحبان ریٹرننگ افسر کی خدمات سر انجام دیں گے۔ امن و امان کے لیے حساس پولنگ اسٹیشنز میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تعیناتی معمول کی کارروائی ہوگی، جن کا براہ راست الیکشن منعقد کرانے سے کوئی تعلق نہیں۔ اب نئی حکومت کی تشکیل کے لیے عدلیہ کا کھلا کردار سب کے سامنے ہو گا۔ یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ عدلیہ پر عوام و سیاسی جماعتوں کا مکمل اعتماد بھی ہے اور کچھ سیاسی فیصلوں کی وجہ سے تحفظات بھی ہیں، تاہم 2018 کے الیکشن عدلیہ کی زیر نگرانی ہورہے ہیں۔ یہ ذمے داری بھی الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے کہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے انتخابات سبوتاژ کرنے کے خدشے کی وضاحت کرکے عوام میں نظریۂ ضرورت کے تحت حالیہ انتخابات کرانے کے تاثر کو دُور کرے۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 263327 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.