لوڈشیڈنگ، گرمی اور سیاسی کارکن!

 ابھی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو ہی رہی تھیں کہ بتّی گُل ہوگئی، ہڑبڑا کر اٹھے، وقت دیکھا تو رات کے صرف بارہ بجکر دس منٹ ہوئے تھے۔ گویا جمہوری پاکستان میں منتخب حکومت کو آئینی طریقے سے گئے ہوئے ابھی دس منٹ ہی ہوئے تھے اور نئی عبوری حکومت نے اگلے روز نمودار ہونا تھا، یہ تو علم نہیں ہو سکا کہ پارلیمانی نظام میں یہ درمیانی رات ملک پر کس کا راج تھا، تاہم ذہن میں خیال ضرورآیا کہ اب بجلی جانے پر مغلظات کے لئے کس محترم ہستی کا انتخاب کیا جائے گا؟ گزشتہ سے پیوستہ دور میں لوڈ شیڈنگ نے ملک میں اپنے ظالم پنجے گاڑے تھے اور تب کے صدر مملکت آصف زرداری کو دیگر امور سے ہٹ کر صرف لوڈشیڈنگ کی مد میں ہی لاکھوں کروڑوں گالیاں روزانہ کی بنیاد پر ارسال ہوتی تھیں، مگر کمال یہ ہے کہ اُس ’’مردِ حُر‘‘ نے بھی عوام کے ان پیغامات کو مسکرا کر ٹالے رکھا، لوگ لوڈشیڈنگ میں جان گھلاتے رہے اور ان کے صدر مغلظات سہتے اور مسکراتے رہے۔ سابقہ دور میں لوڈشیڈنگ میں بہت حد تک کمی واقع ہوئی، مگر معاملہ بالکل ختم نہیں ہوا، بجلی کے جاتے ہی گالیاں دینے کی عادت عوام میں بہت پختہ ہو چکی ہے۔ اب تازہ صورتِ حال میں گالیاں دینے کا فیصلہ تو بعد میں ہوتا، ایک دلچسپ ویڈیو کلپ یاد آیا، جو سرِ شام ہی گردش کر رہا تھا، اور یار لوگ اسے مزاحیہ اور طنزیہ انداز میں پیش کر رہے تھے ، جس میں سابق خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ’’․․․ہم نے لوڈشیڈنگ ختم کردی ہے، اگر کل کلاں بجلی چلی جائے تو اس کی ذمہ داری ہم پر نہ ہوگی، آپ نے نواز شریف یا شاہد عباسی کو طعنہ نہیں دینا ․․․‘‘۔ خیر چند منٹ میں لائیٹ آگئی اور چند منٹ بعد پھر چلی گئی، یوں بارہ بجے سے لے کر سحری تک یہ عمل تین مرتبہ دہرایا گیا اور لوگوں کا آرام خراب کرکے انہیں رمضان میں منفی تبصروں پر مجبور کیا گیا۔

سابقہ حکومت لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کرکے جارہی ہے، دوسری طرف کراچی سمیت سندھ کے بیشتر شہروں میں کربناک لوڈشیڈنگ جاری ہے، گرمی تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اوپر سے بجلی کا کوڑا حکومت کا دیا ہوا تحفہ ہے۔ وزیراعظم اور بجلی کے وزیر وغیرہ نے لوڈشیڈنگ کی وجہ یہ بتائی ہے کہ صرف ان علاقوں میں بجلی جارہی ہے جہاں بجلی چوری ہو رہی ہے، لیکن یہ کبھی کسی نے نہیں بتایا کہ چوری والے علاقے میں دیگر رہائشیوں کا کیا قصور ہے؟ اور یہ بھی کہ چوری کو روکنا کس کا فریضہ ہے؟ گزشتہ ماہ حکومت نے خاموشی سے نجی تعلیمی اداروں کے بجلی کے ٹیرف تبدیل کر دیئے۔ حکومت نے جاتے جاتے سکولوں کو بجلی کا جھٹکا لگا دیا۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ دونوں متعلقہ وزراء (تعلیم اور بجلی پانی) کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ جنوبی پنجاب یا دیگر محروم علاقوں کے لوگ اپنی قسمت کو ایسے ہی نہیں روتے، اُن کے نمائندے عموماً گونگے ہی ہوتے ہیں، جو فیصلے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں ہو گئے، ان پر سرِ تسلیم خم کر دیتے ہیں، تنقید تو دور کی بات ہے، یہ لوگ اختلاف یا مشورہ دینے کی جرات بھی نہیں رکھتے، خوئے غلامی اِن کے خون میں بسی ہے ، جو آگاہی کے زمانے میں بھی جانے کا نام نہیں لیتی ۔ یہ حکومت تو جاتے ہوئے پٹرول بم بھی عوام پر گرانے کا فیصلہ کر چکی تھی، نہ جانے وہ کس خیال سے ملتوی کردیاگیا؟

اگرچہ آجکل زندگی کی مشینری بجلی کے بغیر ناکارہ ہی ہے، تاہم لوڈشیڈنگ کا زیادہ احساس بھی گرمیوں میں ہوتا ہے، اُدھر عام انتخابات کا نقارہ بھی بج چکا ہے، صدارتی فرمان کے بعد 25جولائی کی تاریخ حرف آخر کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اگر کہیں سے الیکشن کے التوا کی خبر نکلی تو بے شمار مخالفین میدان میں آگئے اور ایک لمحے کی تاخیر سے بھی انکار کردیا۔ چونکہ آئینی معاملہ ہے اور آئین بلا شبہ ایک مقدس دستاویز ہے، جس سے روگردانی کسی صورت میں برداشت نہیں ، کیونکہ یہ ملکی مفاد میں نہیں۔ ورنہ دیکھا جائے تو الیکشن کی مقررہ تاریخ تک گرمی کی صورت حال انتہائی تشویش ناک رہے گی، ایسے میں جلسے کرنا، انتخابی مہم چلانا اور خاص طور پر الیکشن والے دن شدید تپش اور حبس کے موقع پر باہر نکلنا کس قدر مشکل کام ہے۔ آئین میں انتخابات کی کوئی مستقل تاریخ بھی تو طے کی جاسکتی ہے، کہ ہر دفعہ الیکشن اچھے موسم میں منعقد ہوں۔ اب تو مسلسل تین جمہوری حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کرکے ایک ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ بے شمار فیصلے اسمبلیاں اپنے مفاد میں کرتی ہیں، اپنی مراعات کا خیال ہمیشہ رکھا جاتا ہے، اپنی گردن پر بوجھ بننے والے قوانین کو چپکے سے آئین سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے، ابھی کاغذاتِ نامزدگی میں سے بہت سی ایسی شقیں نکال باہر کیں جن کے جواب ذرا مشکل تھے، اور بعد ازاں جن کی وجہ سے نااہلی کی تلوار سر پر لٹکتی تھی، اثاثوں کا حساب، دہری شہریت سمیت بہت سے معاملات گول کر دیئے۔ الیکشن کی اچھے موسم کی تاریخ بھی اسمبلی مقرر کر سکتی ہے۔

بات گرمی اور سیاست کی ہے تو سیاسی کارکنوں کے ذکر کے بغیر بات ادھوری ہے، کارکن ویسے ہی گرم ہوتے ہیں، ان کے جذبات اس قدر شدید ہوتے ہیں کہ موسمی اثرات ان کا کچھ نہیں بگاڑپاتے۔ کارکن سخت مزاحمتی مزاج رکھتے ہیں، وہ نہ صرف موسمی گرمی کو برداشت کرتے ہیں بلکہ مخالف کے جا بے جا الزامات کو بھی سنتے اور ان کے جواب دیتے ہیں، اگر جواب میں دلیل ہو تو بہتر ورنہ گالی ضرور دے دیتے ہیں، اس روش کو موجودہ سیاستدانوں نے خود ہی پروان چڑھایا ہے اور سوشل میڈیا نے کارکنوں کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ایسی باتیں بھی شیئر کر سکتے ہیں جو عام زندگی میں کرتے ہوئے کچھ شرم وحیا سے کام لیتے ہیں۔ سیاسی کارکن کس قدر مضبوط اعصاب کے مالک ہیں، اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے سیاستدانوں کی پارٹیاں بدلنے کے معاملہ کو سامنے رکھیں۔ جب سیاستدان اچانک اپنی وفاداریاں تبدیل کرکے پرانے قائدین کو ناکارہ قرار دیتا اور نئے لیڈر میں تمام خوبیوں کی جھلک پاتا ہے تو اس پارٹی کے کارکن بھی نئے آنے والے مقامی لیڈر کے نعرے لگانے لگتے ہیں، اگرچہ گزشتہ ایک روز پہلے ہی اس کے خلاف نعرہ زن تھے۔ کچھ کارکن اس کے ساتھ پارٹی نہیں بدلتے، کچھ کارکن چندر وز ناراض رہنے کے بعد دل کو سمجھا لیتے ہیں۔ مگر اب یہ دھندا اس قدر عام ہوچکا ہے کہ لیڈر کو پارٹی تبدیل کرنے کی دلیل نہیں دینا پڑتی ، اس کے کارکن ہی دلیل ، گالی، جوتی اور گولی وغیرہ کے ذریعے اپنے نئے پرانے قائدین کا منشور دوسروں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔کارکن آنے جانے والے لیڈروں سے مطمئن ہو جاتے ہیں، دوسری پارٹی کے کرپٹ ہمارے ہاں آتے ہیں تو گنگا نہا کر آتے ہیں، جو جاتے ہیں وہ لوٹے بن جاتے ہیں، یہی سیاست کے سنہری اصول ہیں۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472734 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.