رمضان المبارک کے مقدس لمحات کی قدر دانی، اس کے
بابرکت ایام کی تعظیم اور اس کی نورانی راتوں کے احترام کا جو غیر معمولی
نمونہ عبا دت و ریاضت، مجاہدہ و مشقت، دعاء و تلاوت اور اذکار و استغفار
وغیرہ کی صورت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام
رضی اﷲ عنہم کی مقدسجماعت نے اُمت کے سامنے پیش کیا ہے اس کا ایک بڑا
اثراور اس کی ایک غیر معمولی تاثیر بعد کے سلف صالحین، تابعین، تبع تابعین
، ائمہ مجتہدین، اور اکابر علماء کی زندگیوں میں بھی بھرپور طور پرجھلکتی
ہوئی نظر آتی ہے۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے نام اور کام سے کون ناواقف ہوگا؟
مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپ رمضان شریف میں اکسٹھ ( 61) قرآن شریف پڑھتے تھے،
ایک دن کا اور ایک رات کا اور ایک تمام رمضان شریف میں تراویح کا۔(المستطرف:ص23)
امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ کا معمول تھا کہ وہ رمضان المبارک میں دن رات کی
نمازوں میں ساٹھ (60) قرآن شریف پڑھتے تھے،یعنی روزانہ دو (2) ختم کرتے تھے۔
(الفتاویٰ الحدیثیہ: ص82)امام مالک اور سفیان ثوری رحمہما اﷲ رمضان المبارک
میں اپنی دیگر دینی مصروفیات کو ترک کرکے سارا وقت تلاوتِ کلام میں گزارتے
تھے اور فرماتے کہ یہ مہینہ قرآنِ مجید کا ہے۔ (المستطرف:ص 23) امام ابوبکر
بن عیاش رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے تیس (30) سال سے ہر روز ایک
قرآنِ کریم پڑھنے کا معمول بنا رکھا ہے۔ (شرح نووی علیٰ مسلم: 1/10) زبید
الیامی رحمۃ کی خانقاہ پر جتنے لوگ آتے تھے روزانہ ان کا معمول تھا کہ ایک
قرآنِ مجید مکمل پڑھا کرتے تھے۔ منصور بن زاذان رحمۃ اﷲ علیہ کے متعلق لکھا
ہے کہ وہ ظہر اور عصر کے درمیان مکمل قرآنِ مجید پڑھ لیا کرتے تھے۔ حضرت
قتادہ رحمۃ اﷲ علیہ تمام رمضان تو ہر تین رات میں ایک قرآن ختم فرماتے مگر
عشرۂ اخیرہ میں ہر رات میں ایک قرآن شریف ختم کرتے۔ ابراہیم بن ادہم رحمۃ
اﷲ علیہ رمضان المبارک میں نہ تو دن کو سوتے نہ رات کو۔ابن الفضل مشہور
تابعی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں رمضان المبارک کا اتنا اہتمام ہوتا
تھا کہ ہم چھ (6) مہینے اﷲ رب العزت سے دعاء مانگتے تھے کہ وہ ہمیں رمضان
تک پہنچا دے اور جب رمضان المبارک گزر جاتا تھا تو بقیہ چھ (6) مہینے دعاء
کرتے تھے کہ اے اﷲ! ہم سے رمضان کو قبول فرمالے!۔ سہل بن عبد اﷲ تستری رحمۃ
اﷲ علیہ پندرہ (15) روز میں ایک (1) مرتبہ کھانا تناول فرماتے تھے اور
رمضان المبارک میں ایک لقمہ، البتہ روزانہ اتباعِ سنت کی وجہ سے محض پانی
سے روزہ افطار فرماتے تھے۔ (شرح احیاء عن العوارف) بعض مشائخ کے بارے میں
لکھا ہے کہ اگر افطار کے وقت سے پہلے کوئی چیز کہیں سے آجاتی تو اس کو کسی
دوسرے کو دے دیتے تھے مبادا (یعنی ایسے مت ہوکہ)دل کو اس کی طرف التفات
ہوجائے۔(شرح احیاء)اسود بن یزید رحمۃ اﷲ علیہ رمضان المبارک میں مغرب اور
عشاء کے درمیان تھوڑی دیر سوتے اور بس۔ حماد بن سلمہ ایک مشہور محدث ہیں وہ
روزانہ پچاس (50) آدمیوں کے روزہ افطار کرانے کا اہتمام کرتے تھے۔(روح
البیان)
حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ ایک مرتبہ رمضان المبارک میں بھوک کے
فضائل کر رہے تھے ، تو کسی نے کہا کہ حضرت! بھوک کے بھی کوئی فضائل ہیں؟۔تو
آپ نے فرمایا کہ ہاں! اگر فرعونم کو بھوک ملتی تو وہ کبھی بھی خدائی کا
دعویٰ نہ کرتا، اس نے خدائی کا دعویٰ کیا ہی اس لئے تھا کہ اس کا پیٹ بھرا
ہوا تھا، جب پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے تو بندہ اپنی اوقات بھول جاتا ہے۔ اﷲ
تعالیٰ نے ہم عاجز مسکینوں کو ہماری اوقات یاد دلانے کے لئے ہم پر رمضان کے
روزوں کو فرض کردیا تاکہ ذرا بھوک بھی لگے اور پیاس بھی۔ اس سے ہم کو ان
غرباء کی پریشانی کا احساس ہوگا جن کے پاس دو وقت کھانے کو مشکل سے ہوتا
ہیکہ وہ کس طرح گزارا کرتے ہوں گے؟۔امام جعفر صادق رحمۃ اﷲ علیہ سے مروی ہے
کہ کسی رمضان المبارک کی پانچ تاریخ جس دن ہو اگلے رمضان المبارک کا پہلا
روزہ لازماًاسی دن ہوتا ہے۔ علامہ مغربی رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ اس قاعدہ
کو پچاس سال آزمایا گیا تو یہ ہمیشہ صحیح نکلا۔ (الیواقیت: ص342) لیکن ظاہر
ہے کہ ان تمام تر حسابات کی حیثیت لطائف سے زیادہ نہیں، احکام شریعت میں
اعتبار ’’رؤیت ہلال‘‘ ہی کا ہے۔ (تراشے:ص 22)
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ کو تلاوت سے اس قدر
شغف تھا کہ رمضان المبارک میں یومیہ تیس (30) پارے پڑھنے کا عرصہ (بیتالیس
(42) سال تک)معمول رہا۔ (آپ بیتی:1/95) مولانا قاری صدیق احمد باندوی رحمۃ
اﷲ علیہ تلاوت کلام پاک سے انتہائی شغف رکھتے تھے، اسفار میں بھی تلاوت
کرتے رہتے، اور رمضان المبارک میں یہ اہتمام مزید بڑھ جاتا تھا۔آپؒ کے بعض
سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک اہل بدعت کے علاقہ میں تراویح
سنانے تشریف لے گئے تو ایک ہی رات میں تراویح میں اکیس (21) پاروں کی تلاوت
فرمائی(تذکرۃ الصدیق: 1/417) محدث عصر علامہ بنوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں
کہ ایک قاری صاحب جو میرے دوست بھی تھے میری ملاقات کے لئے تشریف لائے،
رمضان شریف کے آخری ایام تھے، وہ بڑا نفیس قرآن پڑھتے تھے، میں نے کہا
بجائے وقت گزارنے کے چلو نفل پڑھتے ہیں، چنانچہ ان قاری صاحب نے نفل کی نیت
باندھ لی اور میں نے اقتداء کی بس، تو پھر کیا پوچھنا وہ تو پڑھتے چلے گئے
اور میں لطف اٹھاتا چلا گیا، وہ ایکس پریس گاڑی کی طرح سورتوں کے اسٹیشن طے
کرتے چلے گئے اور سحری سے پہلے پورے قرآنِ کریم کو دو رکعتوں میں ختم
کرڈالا۔ (ماہنامہ بینات، بنوریؒ نمبر ص706)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اﷲ علیہ بڑے افسوس کے ساتھ فرماتے ہیں
کہ آٹھویں صدی میں سلطان المشایخ محبوبِ الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین دہلوی
اولیاء رحمۃ اﷲ علیہ کی خانقاہ غیاث پور (دہلی) اور تیرہویں صدی میں حضرت
شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ کی ’’خانقاہ مظہریہ‘‘ واقع چتلی قبر
(دہلی) کے رمضان المبارک کا آنکھوں دیکھا حال کسی مؤرخ نے نہیں لکھا اور
وہاں ذکر و تلاوت کی سرگرمی، شب بیداری اور وہاں کا نظام الاوقات کسی کتاب
میں تفصیل سے نہیں ملتا، لیکن ’’فوائد الفواد‘‘ ، ’’سیر الاولیاء‘‘ اور
’’درالمعارف‘‘ میں اس کی کچھ جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ جو شخص ان خانقاہوں کے
شب و روز اور ان کے مشایخ کے ذوق و شوق اور ساز و سوز سے واقف ہے وہ ان
نقطوں سے پوری تحریراور ان نامکمل خطوط سے پوری تصویر تیار کرسکتا ہے کہ:
قیاس کن زِگلستانِ من بہارِ مرا
لیکن جن خانقاہوں اور روحانی مرکزوں کے حصہ میں ان خانقاہوں کی وراثت اور
جن علماء و مشایخ کے حصہ میں ان بزرگانِ سلف اور مشایخ پیشین کی نیابت و
خلافت آئی انہوں نے ان مناظر کو تازہ اور زندہ کردیااور تاریخ نے ان کے عہد
میں اپنے آپ کو دہرا دیا۔ (رمضان المبارک اور اس کے تقاضے: ص34)
|