تحریر: رافعہ مستور،(رحیم یارخان)
اگر ہم ابتدائے آفرینش سے لے کر حال تک قرطاس تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایک
وقت تھا کہ جب پوری انسانیت مظالم کے شکنجے میں جکڑی ہوئی تھی۔ انسانیت کے
لئے کہیں کوئی جائے امان نہ تھی مسیح کی تعلیمات مسخ ہو چکی تھیں۔ یونان کا
فلسفہ سکتے میں تھا۔ دنیا میں ہر طرف اندھیرا تھا۔ امن وامان نام کی کوئی
چیز موجود نہ تھی، کبھی رنگ ونسل کے نام پر، کبھی زبان و تہذیب کے عنوان سے
اور کبھی وطنیت و قومیت کی آڑ میں انسانیت کو اتنے ٹکڑوں میں بانٹا گیا اور
آپس میں ٹکرایا گیا کہ آدمیت ہی چیخ پڑیں۔ پوری دنیا بدامنی و بے چینی سے
لبریز تھی۔ وہ پسماندہ علاقہ ہو یا ترقی یافتہ، روم وافرنگ ہو یا ایران
وہندوستان، عجم کا لالہ زار ہو یا عرب کے صحراء و ریگزار، الغرض ساری دنیا
اس آگ کی لپیٹ میں تھی۔ اسلام سے قبل بہت سے مذہبی پیشواؤں اور نظام اخلاق
کے علمبرداروں نے اپنے اپنے طورپر امن ومحبت کے گیت گائے، پر سب کچھ وقتی
تھا۔
کنفیوشس اور مانی کی تعلیمات دم بخود تھیں ، ویدانت اور بدھ مت کے تصورات
اور منو شاستر کے نکات سربا گریباں تھے۔ سولن کا قانون بے بس تھا۔ انسانیت
حالات کے آئینی قفس میں مقید تھی،کہیں سے کوئی نجات کا رستہ دکھائی دیتا
تھا نہ ہی کہیں کوئی حل نظر آتا ہے۔ ان اندھیروں میں اسلام کی مشعل روشن
ہوئی اور تمدنی بحران کا سینہ چیر کر ہر طرف اجالا پھیلا دیا۔ اسلام نے
پہلی بار دنیا کو امن ومحبت کا باقاعدہ درس دیا اور اس کے سامنے ایک جامع
ضابطہ اخلاق پیش کیا۔ وہ دین کہ جس کا نام ہی ’’اسلام‘‘ رکھا گیا یعنی
دائمی امن وسکون اور لازوال سلامتی کا مذہب۔ یہ امتیاز دنیا کے کسی مذہب کو
حاصل نہیں، اسلام نے مضبوط بنیادوں پر امن وسکون کے ایک نئے باب کاآغاز کیا۔
اسلام نے آ کر کر دیا امن و سکون کا سائبان
بندے کو آکر کر دیا پھر سے خدا سے ہم زبان
پوری علمی و اخلاقی قوت اور فکری بلندی کے ساتھ اس کو وسعت دینے کی کوشش کی،
آج دنیا میں امن وامان کا جو رجحان پایا جاتا ہے اور ہر طبقہ اپنے اپنے
طورپر کسی گہوارہ سکون کی تلاش میں ہے۔ یہ بڑی حد تک اسلامی تعلیمات کی دین
ہے۔ اسلام سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی مگراسلام نے انسانی جان
کو وہ عظمت و احترام بخشا کہ ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار
دیا۔ ’’جو کسی جان کو ناحق قتل کرے یا زمین میں فساد پھیلائے یہ گویا ایسا
ہی ہے جیسے پوری انسانیت کا قتل کر دیا جائے اور جس نے کسی ایک کی جان
بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا‘‘ (القرآن)۔ اسلام قتل و غارت اور
فسادات کو پسند نہیں کرتا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے’’اﷲ تعالیٰ فسادیوں کو
پسند نہیں کرتے‘‘۔
اسلام کے وجود میں آتے ہی سرکشی کو اطاعت میں تبدیل کر دیا ۔ ظلم کا خاتمہ
ہوا، فتنوں اور سازشوں کے تاریک دور کو پیار اور محبت کا نام دیا گیا۔
ارشاد خداوندی ہے: ’’اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی
مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کام) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو‘‘۔ (القرآن)
ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا۔ حدیث نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم ہے ’’کہ مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ تو اس پر ظلم کرے اور نہ
اسے ظالم کے حوالے کرے اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت براری میں رہتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ اس کی ضروریات پوری کرتا ہے جو شخص کسی مسلمان سے مصیبت دور کرے
اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مصیبت دور کرے گا جس نے کسی مسلمان کی سترپوشی
کی اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا ‘‘۔ (صحیح البخاری)
اسلام نے عدل و مساوات کا ایک الگ ہی نظام قائم کیا۔ وہ نظام کہ جس کے تحت
دنیا آج تک سر تسلیم خم کردے۔ سچ اور دیانت داری کا بول بالا ہوا۔ دنیا نے
صادق او امین کے مطلب کو پہچانا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ بیان
کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’امانتدار خزانچی کے لئے
بھی صدقہ کرنے والے کے برابر ہی ثواب ہے جب وہ امیر کے حکم کے مطابق خوش
دلی سے پورا پورا مال اس شخص کے حوالے کردیتا ہے جس کے لئے حکم ہوا ہے۔
(سنن ابی داؤد)
فتح مکہ کے وقت حضور (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) چاہتے تو ایک ایک ظلم کا بدلہ
لے سکتے تھے۔ ایک ایک زیادتی کا جواب دیا جا سکتا تھا لیکن حضور (صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم) جنہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا، عام
معافی کا اعلان کر کے تاریخ کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس وقت وہ ظالم ہندہ بھی
موجود تھی جس نے حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کا کلیجہ چبایا تھا۔ وہ ظالم بھی
موجود تھا جو حضرت خبیب رضی اﷲ عنہ کو دہکتے انگاروں پر لٹایا کرتا تھا۔ وہ
ظالم بھی موجود تھا جس نے حضرت بی بی زینب رضی اﷲ عنہا کو اونٹ سے گرا کر
شہید کیا تھا۔ تمام لوگ معافی کے طلبگار تھے آپ صل اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
’’تم پر آج کوئی گرفت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو‘‘۔ شریعت اسلامیہ نے جنگوں
کے دوران سپہ سالاروں کو باقاعدہ حکم نامہ جاری کیا کہ دوران جنگ بچوں،
بوڑھوں اور خواتین کو ہاتھ نہیں لگایا جائے گا۔ املاک کا نقصان نہیں کیا
جائے گا۔ فتح مکہ کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ ایک تنہا عورت زیورات پہنے بے
خوف و خطر صنا سے حضر موت تک اکیلی سفر کر سکتی ہے۔ نبی رحمت (صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم) نے اپنے دائمی امن کی بنیاد رکھی۔
ان تمام باتوں سے واضح ہے کہ دین اسلام ہی وہ دین ہے جو امن کا داعی اور
تمام ادیان کے ماننے والوں کے لیے سب سے زیادہ عزت و احترام والا ہے۔ ایسے
دین اسلام کو امن کے مخالف کہا جائے تو یقین ایسے لوگ حقیقت سے ناواقف ہوں
گے اور جو اس کا ایسا استعمال کرتے ہیں وہ حقیقت میں گمراہ لوگ ہیں۔
|