آپ میں سے اکثر اپریل فول کے بارے میں تو جانتے ہونگے ۔
مگر الیکشن فول کے بارے میں شاید ہی آپ نے کبھی سنا ہو ۔اپریل فول اور
الیکشن فول میں تھوڑا سا فرق ہے ۔اپریل فول میں لوگوں کو جھوٹ بول کر
بیوقوف بنایا جاتا ہے اور اس جھوٹ کی بنیاد پر کچھ لوگ اپنی ذہنی تسکین اور
نام نہاد فطانت کو عیاں کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔اس سارے عمل سے کسی
کا بھی فائدہ نہیں ہوتا مگر نقصان ضرور ہوتا ہے۔مگرالیکشن فول کی خاص بات
یہ ہے کہ اس میں صرف مخصوص لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے جب کہ اکثریت نقصان کا
سامنا کرتی ہے ۔ اور یہ نقصان صرف شخصیات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس عمل
سے پورے ملک و قوم کا نقصان ہوتا ہے۔یہ وہ عمل ہے جس کے ذریعے نام نہاد
عوامی نمائندے انتخابات کے دنوں میں اپنے حلقہء اقتدار میں موسمی پرندوں کی
طرح نمودار ہوجاتے ہیں ۔اور پھر ان کی ٹاں ٹاں آنے والے انتخابات کی پیشن
گوئی کر رہی ہوتی ہے۔۔۔اورجب یہ سمجھتے ہیں کہ پچھلے وعدے پورے کرنے میں
بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور ان کی حکومتی جماعت کوئی خاطر خواہ کردار ادا
نہیں کر سکی جس کی وجہ سے لوگ ان سے نالاں ہیں ۔اور جب انہیں یقین ہو جاتا
ہے کہ اپنے حلقہء انتخا ب میں اپنا مقام کھو چکے ہیں اورآئندہ شکست فاش نظر
آرہی ہوتی ہے۔تو یہ سیاسی ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے کسی نئی جماعت کا انتخاب
کرتے ہیں۔اور پرانے وعدے نئی مزین پیکنگ کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھتے
ہیں۔ان کے ہاتھ میں وہ جادو ہوتا ہے کہ بھولی بھالی عوام کو اپنے اقتدار کے
سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔اور لوگ ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر پھر سے اپنا
سیاسی مقدر ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔اگراس عمل کو الیکشن فول کا نام دیا
جائے تو غلط نا ہوگا۔ہم اپنے تجربے کی کسوٹی پر سابقہ دور حکومت کے چند
وعدوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔پاکستان کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن جو کہ
پچھلے 30سال سے جزوی یا کلی طور پر اقتدار میں رہی ہے ۔ 2013ء کے انتخابات
سے قبل کئے گئے چند وعدے جن میں کشکول توڑنا ، تعلیم ، صحت، روزگار ،
دہشتگردی اور توانائی کا بحران شامل ہیں۔ اگر کشکول کی بات کریں تو
2013ٗٗٗٗ ء سے پہلے ہمارے ملکی کشکول میں تقریباً 43ارب ڈالر کا قرض
تھا۔جبکہ ان کے پانچ سالہ جمہوری دور کی مدت کی تکمیل پر کشکول ٹوٹنے کی
بجائے اس کا حجم بڑھتا ہی چلا گیا یہاں تک کہ موجودہ کشکول میں تقریباً 75
ارب ڈالر کا قرض عوام کا منہ چڑا رہا ہے۔اور ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرض
ہے۔ اور بدقسمتی سے اس قرض کی ادائیگی کے لئیے ہمارے پاس وسائل بھی موجود
نہیں۔ ملک کے قیمتی ادارے ملک کا بوجھ اٹھانے کی بجائے ملک پر بوجھ بنے
بیٹھے ہیں۔ جن میں پی آئی اے اور پاکستان سٹیل مل قابل ذکر ہیں۔جب یہ حکومت
اپنے وجود میں آئی تھی اس وقت بجلی کے عوض ہمیں تقریباً 400ارب کے گردشی
قرض کا سامنا تھا جبکہ کامیابی کے پانچ سال مکمل ہونے پر اس گردشی قرضے کو
پر لگ چکے ہیں جو کہ تقریباً1100ارب تک پہنچ چکا ہے اور یہ بات یاد رہے کہ
یہ قرضہ 400ارب ادا کرنے کے بعد صرف پانچ سالہ کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت
ہے۔عوامی خدمات کے ادارے جن میں پولیس قابل ذکر ادارہ ہے ماسوائے چند لوگوں
کی خدمت گزاری کے اور کوئی خاصہ کردار نظر نہیں آتا ۔ چور ڈاکو پولیس کو
اپنا دوست سمجھتے ہیں اور عام عوام ان کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار رہتی
ہے۔چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری پر ہم شادیانے بجا رہے ہیں ۔کبھی کبھی تو
لگتا ہے جیسے ہمارے حکام بالا ہمیں پھر سے اغیار کی کالونی بنانا چاہتے
ہیں۔ابھی تو یہ منصوبہ نامکمل ہے جب تک یہ مکمل نہیں ہوجاتا کوئی رائے قائم
کرنا قبل از وقت ہوگا ۔ ہاں البتہ اس منصوبے کی بدولت ہم اپنے ہمسائیہ ملک
کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔
درآمدات کا حجم بڑھ گیا ہے جبکہ برآمدات میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ملکی
معیشت دم توڑ رہی ہے جس کی ایک مثال ڈالر کی قیمت میں ملکی تاریخ کا سب سے
بڑا اضافہ ہے۔ڈالر کی قیمت 100روپے سے 118تک پہنچ چکی ہے۔اور خارجہ پالیسی
کا یہ عالم ہے کہ خدانخواستہ آنے والے دنوں میں وطن عزیز کو اقتصادی
پابندیوں کا سامنا نا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ پابندیاں گرے لسٹ سے بلیک لسٹ تک
کے سفر کی صورت میں بھی ہو سکتی ہیں۔اور یہ پابندیاں کسی بھی ملک کے لئے
نیک شگوں ثابت نہیں ہوتیں۔
اگر تعلیم اور روزگار کی بات کی جائے تو ہم آج بھی ترقی پذیر ممالک کی
فہرست میں سب سے نچلے درجے میں آتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم اور
صحت کے حوالے سے کوششیں کی گئیں مگر یہ کافی نہیں ۔توانائی بحران پر قابو
پانے کے دعوے کبھی چھ ماہ کبھی ایک سال تو کبھی تین سال مگر وہ وعدہ ہی کیا
جو وفا ہو جائے ۔ حکومتی دور ختم ہو گیا مگر لوڈشیڈنگ ختم نا ہوئی۔اسی طرح
سے اگر ہم تمام صوبائی حکومتوں کا جائزہ لیں تو صورت حال کچھ مختلف
نہیں۔ہاں البتہ کچھ ایسے کام بھی ہیں جو قابل ستائش ہیں۔مگر پھر بھی ابھی
بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ہمارے ہاں ترجیحات کا فقدان ہے انسانوں پر خرچ کرنے
کی بجائے نمائشی منصوبوں پر بے دریغ خرچ کیا جاتا ہے۔اور پھر ان منصوبوں
میں خوب بندر بانٹ ہوتی ہے۔ اسی طرح اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے اقرباء
پروری ، رشوت خوری کو ترجیح دی جاتی ہے ۔یہ سب وہ عوامل ہیں جو ہمارے وطن
عزیز کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔اور یہ بطور قوم ہماری ناکامی
ہے جس کا ہمیں کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہیے۔دکھ کی بات تو یہ ہے ہمارے
عوامی نمائندے اپنی ناکامیوں کا اعتراف کیے بغیر پھر سے عوام میں نمودار ہو
جائیں گے اور جھوٹ اس قدر بولیں گے کہ سچ لگنے لگے۔اور پھر سے عوام کو اپنے
سیاسی جال میں پھسانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔عوام کو چاہیے کہ اس بار سیاسی
بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے نام نہاد نمائندوں کو یکسر مسترد کردیں جو
ان کی امنگوں کے حقیقی ترجمان نا ہوں اور ہر بار انتخابات کے دنوں میں عوام
سے الیکشن فول کھیلتے ہوں۔اور اگر ایسا نا ہو سکا تو یہ حاکم و محکوم کا
کھیل یونہی کھیلا جاتا رہے گا ۔ اور اس بے رحم کھیل میں محکوم کی کبھی
حکومت نہیں ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ اس ملک و قوم کا حامی و ناصر ہو۔آمین
|