رمضان المبارک میں اکابر کے معمولات

حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم تانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ کے نام اور کام سے اہل علم خوب واقف ہیں، آپ ہمارے ماضی قریب کے ایک متبحر عالم، ایک عظیم مجاہد اور ایک زبردست صاحب عمل بزرگ گزرے ہیں۔ آپ بذاتِ خود گوشہ نشینی اور گم نامی کو پسند کرتے تھے، اس لئے آپ کے ذاتی معمولات بالخصوص رمضان المبارک کے معمولات کی کوئی زیادہ تفصیل کہیں نہیں ملتی، تاہم شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے رمضان المبارک کے حوالے سے آپ کے یہ چند معمولات ذکر کئے ہیں کہ مشہور ہے کہ حضرت نے سنہ 1277ء کے سفر حجاز میں (اس) ماہِ مبارک میں قرآنِ پاک حفظ کیا تھا، روزانہ ایک پارہ یاد کرکے تراویح میں سنایا کرتے تھے، مگر حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ’’سوانح قاسمیؒ‘‘ میں تحریر فرمایا کہ جمادی الثانیہ سنہ 1277ء میں حج کے لئے روانہ ہوئے ، آکر ذی قعدہ میں مکہ مکرمہ پہنچے، بعد حج مدینہ شریف پہنچے اور ماہِ صفر میں مدینہ پاک سے مراجعت فرمائی، ربیع الاوّل کے اخیر میں ’’بمبئی‘‘ پہنچے، اور جمادی الثانیہ تک وطن پہنچے۔ جاتے ہوئے کراچی سے جہاز باد بانی میں سوار ہوئے ، رمضان کا چاند دیکھ کر مولوی صاحب نے قرآن شریف یاد کیا تھااور وہاں سنایا۔بعد مکلّا پہنچ کر حلوائے مسقط خرید فرماکر شیرینی کتم دوستوں کو تقسیم فرمائی۔

مولوی صاحب کا اس سے پہلے قرآن یاد کرنا کسی کو ظاہر نہ ہوا تھا، بعد ختم مولوی صاحب فرماتے تھے کہ فقط دو سال رمضان میں مَیں نے یاد کیا اور جب یاد کیا پاؤ سپارہ کی قدر یا کچھ اس سے زائد یاد کرلیا، پھر تو بہت کثرت سے پڑھتے۔ ایک بار یاد ہے کہ ستائیس پارے ایک رکعت میں پڑھے، اگر کوئی اقتداء کرتا رکعت کرکے یعنی سلام پھیر کر اس کو منع فرمادیتے اور تمام شب تنہا پڑھتے رہتے۔ (سوانح قاسمیؒ)مشہور قول میں ایک سال اور حضرت کے ارشاد میں دو سال اور پاؤ پاؤ پارہ یاد کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے رمضان میں کچھ حصہ پاؤ پاؤ پارہ یاد کیا اور دوسرے رمضان میں سفر حج میں تھاایک ایک پارہ پڑھ کر اس کی تکمیل فرمائی۔(اکابر کا رمضان: ص27)

سید الطائفہ حضرت الحاج امداد اﷲ مہاجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ کے رمضان کے معمولات حضرت حکیم الامت نور اﷲ مرقدہ نے ’’امداد المشتاق‘‘ میں نقل کئے ہیں کہ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ تمہاری تعلیم کے واسطے کہتا ہوں، یہ فقیر عالم شباب میں اکثر راتوں کو نہیں سویا، خصوصاً رمضان شریف میں بعد مغرب دو لڑکے نابالغ حافظ یوسف ولد حافظ ضامن صاحب و حافظ حسین احمد میرا بھتیجاسوا سوا پارہ عشاء تک سناتے تھے۔ ان کے بعد ایک حافظ نصف شب تک۔ اس کے بعد تہجد کی نماز میں دو حافظ۔ غرض کہ تمام رات اسی میں گزر جاتی تھی۔ (امداد المشتاق)

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ کے ریاضت و مجاہدہ کی یہ حالت تھی کہ دیکھنے والوں کو رحم آتااور ترس کھایا کرتے تھے۔ چنانچہ اس پیرایہ سالی میں جب آپ ستر سال کی عمر سے متجاوز ہولئے تھے کثرتِ عبادت کا یہ عالم تھا کہ دن بھر کا روزہ اور بعد مغرب چھ کی جگہ بیس رکعت ’’صلوٰۃ الاوّابین‘‘ پڑھا کرتے تھے، جس میں تخمیناً دو پارے قرآنِ مجید سے کم کی تلاوت نہ ہوتی تھی، پھر اسی کے ساتھ رکوع سجدہ اتنا طویل کہ دیکھنے والے کو ’’سہو‘‘ کا گمان ہو۔ نماز سے فارغ ہوکر مکان تک جاتے اور کھانا کھانے کے لئے مکان پر ٹھہرنے کی مدت میں کئی پارے کلام مجید ختم کرتے تھے۔ پھر تھوڑی دیر بعد نمازِ عشاء اور صلوٰۃِ تراویح (جس میں گھنٹے سوا گھنٹے سے کم خرچ نہ ہوتا تھا) ادا فرماتے تھے۔ تراویح سے فارغ ہوکر ساڑھے دس، گیارہ بجے آرام فرماتے اور دو ڈھائی بجے ضرور ہی اُٹھ کھڑے ہورہتے تھے، بلکہ بعض دفعہ خدام نے ایک ہی بجے آپ کو وضو کرتے پایا۔ اس وقت اُٹھ کر دو، دھائی، تین گھنٹے تک تہجد میں مشغولی رہتی تھی۔بعض دفعہ سحر کھانے کے لئے کسی خادم کو پانچ بجے جانے کا اتفاق ہوا تو آپ کو نماز ہی میں مشغول پایا۔ صلوٰۃِ فجر کے بعد آٹھ، ساڑھے آٹھ بجے تک وظائف، اوراد اور مراقبہ و ملاحظہ میں مصروفیت رہتی، پھر اشراق پڑھتے اور چند ساعات استراحت فرماتے، اتنے ڈاک آجاتی تو خطوط کے جوابات اور فتاویٰ لکھواتے اور چاشت کی نماز سے فارغ ہوکر ’’قیلولہ‘‘ فرماتے تھے۔ ظہر کے بعد حجرہ شریف بند ہوجاتا تھااور تاعصر کلام اﷲ کی تلاوت میں مشغول رہتے تھے، باوجودے کہ اس رمضان میں جس کا مجاہدہ لکھا گیا ہے پیرانہ سالی و نقاہت کے ساتھ ’’وجع الورک‘‘ کی تکلیف شدید کا یہ عالم تھا کہ استنجاگاہ سے حجرہ شریف لانے میں حالاں کہ پندرہ سولہ قدم کا فاصلہ ہے مگر راہ میں بیٹھنے کی نوبت آتی تھی، اس حالت پر فرائض تو فرائض ٗ نوافل بھی کبھی بیٹھ کر نہیں پڑھے اور ان میں گھنٹوں کھڑے رہنا ، بارہا خدام نے عرض کیا کہ آج تراویح بیٹھ کر ادا فرماویں تو مناسب ہے، مگر جب آپ کا جواب تھا یہی تھا کہ نہیں جی یہ کم ہمتی کی بات ہے اﷲ رے ہمت! آخر افلا اکون عبدا شکورا کے قائل کی نیابت کوئی سہل نہ تھی جو اس ہمت کے بغیر حاصل ہوجاتی۔

یوں تو ماہِ رمضان المبارک میں آپ کی ہر عبادت میں بڑھوتری ہوتی تھی، مگر تلاوتِ کلام اﷲ کا شغف خصوصیت کے ساتھ اس درجہ بڑھتا تھا کہ مکان تک آنے جانے میں کوئی بات نہ فرماتے تھے۔ نمازوں میں اور نمازوں کے بعد تخمیناً نصف ختم قرآنِ مجید آپ کا یومیہ معمول قرار پاتا تھا، جس شب کی صبح کو پہلا روزہ ہوتا تھا آپ حضارِ جلسہ سے فرمادیا کرتے تھے کہ آج سے کچہری برخاست! رمضان کو بھی آدمی ضائع کرے تو افسوس کی بات ہے، اس مجاہدہ پر غذا کی یہ حالت تھی کہ کامل رمضان بھر کی خوراک پانچ سیر اناج تک پہنچنی دشوار تھی۔ (تذکرۃ الرشید:ص65)

رمضان شریف میں آپ صبح کو خلوت خانہ سے دیر میں بر آمد ہوتے۔ موسم سرما میں اکثر دس بجے تشریف لاتے نوافل اور قرأتِ قرآن و سکوت و مراقبہ میں بہ نسبت دیگر ایام بہت زیادتی ہوتی، سونا اور استراحت نہایت قلیل ، کلام بہت کم کرتے، بعد نمازِ مغرب ذرا دیر خلوت نشینی کا ذائقہ لے کر کھانا تناول فرماتے ، تراویح کی بیس رکعات اوائل میں خود پڑھاتے تھے اور آخر میں صاحب زادہ مولوی حافظ حکیم محمد مسعود احمد صاحب کے پیچھے پڑھتے ، بعد وتر دو رکعت طویل کبھی کھڑے ہوکر کبھی بیٹھ کر پڑھتے، دیر تک متوجہ بہ قبلہ بیٹھ کر پڑھتے رہتے، پھر ایک سجدۂ تلاوت کرکے کھڑے ہوجاتے، غالباً اس دوران میں سورۂ تبارک الذی اور سورۂ سجدہ اور سورۂ دخان پڑھتے تھے۔ (تذکرۃ الرشید:ص 67)
 

Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 278893 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.