اﷲ رب العزت نے انسانوں کی ہدایت کے لیے کم و بیش ایک
لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام مبعوث فرمائے ۔ نبوت و رسالت کا سلسلہ حضور
خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ پر ختم ہوا۔ آپ ﷺکے بعد آپ کے فیض یافتگان
نے امت کی کشتی کو سنبھالنے کا بیڑا اُٹھایا۔ آپ ﷺ کے فیض یافتگان میں جہاں
بہت سی ہستیاں تھیں، جن میں فتنوں کے طوفان کا استقامت کے ساتھ مقابلہ کرنے
والے تھے، بلا خوف و خطر اعلائے کلمۃ الحق کرنے والے تھے۔ایمان اور حیاء
میں کامل درجہ رکھنے والے تھے، ان میں ایک ہستی وہ بھی تھی جو بچپن سے ہی
آپ ﷺ کی صحبت کا جام پی رہی تھی۔ زمانۂ طفلی ہی سے آپ ﷺ کے شب و روز کا
مشاہدہ کر رہی تھی ۔ یہ وہ ہستی تھی جسے اﷲ رب العزت نے علم و حکمت کاکثیر
حصہ عطافرمایاتھا، جس کی سخاوت کی انتہا نہیں تھی، جس کی بہادری کی مثال
نہیں تھی ، جس کی جرأت و شجاعت میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ جس کی زبان میں
فصاحت تھی، جس کے کلام میں تاثیر تھی، جس کے فیصلے میں عدل ہوتا تھا،جس کے
ہاتھوں قلعہ خیبر فتح ہوا تھا،یہ وہ ہستی تھی جسے مصطفی ﷺ نے حیدر کرارکا
لقب عطا فرمایا تھا، بوتراب کی کنیت سے سرفراز فرمایا تھا،سید العرب کا
خطاب دیا تھا، ایمان والوں کے گروہ کا سردار اور امیر بنایا تھا۔
وہ ہستی حیدر کرار ، سید العرب ، صاحب علم و حکمت ، امام المتقین،امیر
المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کی تھی۔ آپ رضی اﷲ کی ہستی
کمالات و صفات کا مرقع تھی۔ رسول اﷲ ﷺ نے آپ کو ایمان والوں کا امیر و
سردار بنایا تھا۔ چنانچہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جہاں بھی یا ایھا
الذین آمنوا(اے ایمان والوں) سے خطاب فرمایا ہے اس گروہ کے سر دار اور امیر
علی( رضی اﷲ عنہ) ہیں۔(فضائل الصحابہ) ایک مرتبہ رسول اﷲ ﷺ نے حضرت علی رضی
اﷲ عنہ کو عرب کا سردار قرار دیا تھا۔ حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ
حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عرب کے سردار کو میرے
پاس بلاؤ۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے کہا کہ کیا آپ عرب کے سردار نہیں ہیں
یا رسول اﷲ، آپ نے فرمایا کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی رضی اﷲ
عنہ عرب کے سردار ہیں۔ (مجمع الزوائد)ایک اور روایت حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا
سے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا :میں تمام اولادِ آدم کا سردار ہوں اور علی
عرب کے سردار ہیں۔ (المستدرک للحاکم) مزید یہ کہ مولا علی کرم اﷲ وجہہ
الکریم کو بارگاہ خداوندی سے تین صفات کا حامل ٹھہرایا گیا۔ آپ رضی اﷲ عنہ
کو مومنوں کی سرداری کے ساتھ ساتھ متقین کے امام کے منصب پر بھی فائز کیا
گیا اور بروز قیامت بھی نورانی چہرے والوں کے قائد مولا علی مشکل کشا ہوں
گے ۔ چنانچہ حضرت عبد اﷲبن عکیم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲتعالیٰ نے شبِ معراج وحی کے ذریعے
مجھے علی کی تین صفات کی خبر دی یہ کہ وہ تمام مومنین کے سردار ہیں، متقین
کے امام ہیں اور (قیامت کے روز) نورانی چہرے والوں کے قائد ہوں گے۔ (المعجم
الصغیر )
حضرت علی رضی اﷲ عنہ میدان علم میں علمائے صحابہ میں بہت اونچا مقام رکھتے
تھے۔ رسول اﷲ ﷺ نے آپ رضی اﷲ عنہ کو علم و حکمت کا باب یعنی دروازہ فرمایا:
حضرت عبد اﷲبن عباس رضی اﷲعنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا
:میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ لہٰذا جو اس شہر میں داخل
ہونا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس دروازے سے آئے۔ (المستدرک للحاکم) اسی
طرح ایک اور روایت میں سرکارِ مدینہ ﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کوحکمت کا
دروازہ قرار دیا۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں حکمت کا گھر ہوں
اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ (ترمذی) رسول اﷲ ﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے
متعلق ارشاد فرمایا: حکمت و دانائی کو دس (۱۰)حصوں میں تقسیم کیا گیا، نو(۹)
حصے حضرت علی کو اور ایک حصہ لوگوں کو عطا کیا گیا۔ (ابن عساکر)
رسول اﷲ ﷺنے نزدیک حضرت علی کا مقام و مرتبہ بہت بلند و بالا تھا۔ حضرت
عبداﷲ بن نجی الحضرمی رضی اﷲ عنہ اپنے والد سے ایک طویل روایت میں بیان
کرتے ہیں کہ مجھے حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں میرا ایک خاص مقام و مرتبہ تھا جو مخلوقات
میں سے کسی اور کا نہیں تھا۔ (مسند امام احمد)رسول اﷲ ﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ
عنہ کے حق میں دعا فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ علی پر رحم فرمائے۔
اے اﷲ یہ جہاں کہیں بھی ہو حق اس کے ساتھ رہے۔ (سنن ترمذی)حضرت علی رضی اﷲ
عنہ حضور ﷺ کو مخلوق میں سے محبوب ترین تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ
سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک
پرندے کا گوشت تھا، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی یااﷲ!اپنی مخلوق
میں سے محبوب ترین شخص کومیرے پاس بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت
کھائے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ آئے اور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے
ساتھ وہ گوشت تناول کیا۔ (سنن ترمذی) یعنی مصطفی ﷺ نے خواہش ظاہر کی کہ
محبوب ترین شخص بارگاہ نبوت میں حاضر ہو تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ بارگاہ
نبوت میں قدم رنجہ ہوئے اور آقائے دوجہاں ﷺ کے ساتھ کھانا تناول فرمایا۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے مقام کا عالم یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ان کے
چہرے کی زیارت کو عبادت قرار دیا، ان کے ذکر کو عبادت قرا ردیا۔ چنانچہ
حضرت عبد اﷲابن مسعود رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے
فرمایا :علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔ (المستدرک للحاکم)اسی طرح حضرت
عائشہ رضی اﷲعنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا : علی کا ذکر بھی عبادت ہے۔ (مسند الفردوس) حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا
بیان کرتی ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو دیکھا کہ وہ
کثرت سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے چہرے کو دیکھا کرتے۔ پس میں نے آپ سے
پوچھا، اے ابا جان!کیا وجہ ہے کہ آپ کثرت سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے چہرے
کی طرف تکتے رہتے ہیں؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا :اے میری
بیٹی!میں نے حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ
علی کے چہرے کو تکنا بھی عبادت ہے۔ (ابن عساکر) رسول اﷲ ﷺ نے حضرت علی رضی
اﷲ سے محبت کو اپنی محبت قرار دیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: جس نے علی سے محبت
کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اﷲ تعالیٰ سے محبت
کی۔ اور جس نے علی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشنی کی اور جس نے مجھ سے
دشمنی کی اس نے اﷲ سے دشمنی کی۔(المعجم الکبیر) حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے
محبت اصل ایمان ہے ، کوئی بھی ایمان والا مولا علی سے بغض نہیں رکھ سکتا۔
کوئی بھی صاحب ایمان ان سے نفرت نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی اُن سے بغض و عداوت
رکھتا ہے تو وہ اپنے ایمان کی فکر کرے۔ اﷲ رب العزت ان کے مزار پر کروڑہا
رحمتیں نازل فرمائے اور ہمیں محبان صحابہ اور محبان اہلبیت میں شامل فرمائے
۔۔۔آمین |