ترک صدر رجب طیب اردوان کے بقول، ’’وہ ممالک آج کل دنیا
کو دھمکا رہے ہیں، جن کے پاس پندرہ ہزار سے زائد جوہری ہتھیار ہیں۔‘‘ زیادہ
ترجوہری ہتھیارامریکا اور روس کے پاس ہیں۔ اردوان نے مزید کہا، ’’ایسے
ہتھیار رکھنے والے ممالک جب نیوکلیئر پاور اسٹیشنز کو ایک خطرے کے طور پر
ظاہر کرتے ہیں تو بین الاقوامی برادری میں ان کی کوئی ساکھ باقی نہیں رہ
جاتی۔‘‘ اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ امریکہ کا کردار بین الاقوامی
امن میں ایک زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے وہ خود تو جیسا چاہے ہتھیار تیار
کرے لیکن وہی ہتھیار کوئی اور ریاست تیار کرے تو انکل سام اس ریاست یا ملک
کو عالمی برادری کے لیے نہ صرف خطرہ قرار دیتے ہیں بلکہ اس ملک پہ بے جا
پابندیاں بھی عائد فرماتے ہیں ۔بے شک ترک صدر کا بیان قابل ستائش ہے اور
ساری دنیا کے امن کے حامی طبقات کی آوازہے بظاہر اردوان کا بیان کچھ الفاظ
پر مشتمل ہے لیکن یہ ایک بہت بڑی حقیقت کا لب لباب ہے ۔ یہ بیان ایک بہت
بڑی اور واضح حقیقت ہونے کے ساتھ ساتھ انکل سام کی طبیعت کا عکاس ہے کیونکہ
عالمی امن کا بظاہر حامی انکل سام حقیقت میں بڑے ہی سخت اور غاصبانہ مزاج
کا حامل ہے جس سے اچھے کی امید رکھنا ہی عبث ہے اور جب سے مسٹر ٹرمپ امریکی
اقتدار پر براجمان ہوئے ہیں تب سے امن پسند حلقوں کا سکون غارت ہوچکا
ہے۔جوہری ہتھیاروں سے لیس طاقتیں جہاں عالمی برادری کو مغلوب کر کے اور
دھمکا کے اپنے مقاصد نکال رہی ہیں وہیں اپنی جوہری طاقت میں روز بروز
اضافہ بھی کر رہی ہیں اور اس کے علاوہ جو سب سے بڑا ہتھیار یہ طاقتیں
استعمال کر رہی ہیں وہ ہے ،، جہادکارڈ،،
بلاشک و شبہ یہ واضح ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار امریکہ اور
روس کے پاس ہی ہیں، جس سے انحراف ممکن نہیں ہے یہ دونوں طاقتیں اک دوجے کو
نیچا دکھانے کے چکر مین آج کل بھی اک دوجے کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف
رہتی ہیں۔ آج امریکہ سپر پاور ہے تو روس درپردہ اس کے خلاف جو بن پڑے کرتا
ہے کیونکہ وہ اپنی شکست کو نہیں بھولا اور آج بھی وہ ایک جوہری قوت سے مزین
ہے اور بالکل اسی طرح جب روس پوری دنیا میں ایک سپر پاور کی پہچان رکھتا
تھا تب امریکہ کو بھی ایک پل بھی چین نہیں تھااور عالمی طاقت بن کر دنیا پہ
حکمرانی کرنے کے چکر میں امریکہ نے ہر قسم کا امتیاز بھلا کر اپنے اتحادی
پیدا کیے اور جب روس اپنی طاقت کے زعم میں ہوش کھو کر افغانستان میں گھسا
تو امریکہ نے مسلمانوں کے جزبہ جہاد کو استعمال کیا اور پوری دنیا کے
مسلمانوں کو خود ٹرینڈ کر کے جہاد کاپرچار کرواکے افغانستان میں بھیجا اور
پھردنیا نے دیکھا کہ ایک جہاد فی سبیل اﷲ کی طاقت نے روس جیسی سپر پاور کے
پڑخچے اڑادئیے اس کے بعد وقت کی دونوں سپریم پاورز کو یہ ادراک ہوگیا کہ
جزبہ جہاد سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کی جنگی حکمت عملی
میں بھی کافی تبدیلی آچکی ہے اور اس کے بعد جہاد کے نام سے مسلمانوں کے
خلاف ،اپنے زیر سایہ لوگوں کی تنظیمیں کھڑی کر کے اپنے وہ کام بھی نکلوا
چکے ہیں جو کہ عام حالات میں ممکن نہ تھے پھر یہود وہنود نے انھیں اپنے
مہروں سے جہاد کے نام سے کھلواڑ کر کے دہشت گردی کو جنم دے کرعالمی برادری
میں جہاد اور دہشت گردی جیسے متضاد لفظوں کا مفہوم مترادف کردیا ہے جس کے
سبب مسلمانوں کا تشخص پوری دنیا میں متاثر ہوا ہے۔
اب یہ حال ہے کہ دونوں طاقتیں ہی جہاد کے نام سے لرزتی ہیں(مسلمانوں کے اسی
ہتھیار کو یہود و ہنود مسلمانوں کے خلاف ہی استعمال کرنے کے درپے رہتے ہیں)
ان کی کوشش ہی یہی ہوتی ہے کہ ایک میزائل کا بٹن دبائیں اور خس کم جہاں پاک
، والا معاملہ ہوجائے۔ ہمارے خطہ میں ان دونوں طاقتوں کی بدولت ہمیشہ بے
سکونی نے ہی راج کیا روس اور امریکہ ہمیشہ ہی پرسکون رہے اپنی بے سکونی کو
ان طاقتوں نے شامی مسلمانوں میں منتقل کردیا ہے جس کی بدولت وہ اک دوسرے کی
جانیں لے رہے ہیں شام میں ان طاغوتی طاقتوں کی بدولت مشرق وسطی میں لاشوں
کے ڈھیر لگ رہے ہیں یہ جہاد کارڈتو کھیل رہے ہیں لیکن یہ دیرینہ حریف اتنے
سیانے ہوگئے ہیں کہ خود سامنے آنے کی بجائے شامیوں کو شامیوں کے ہاتھوں سے
ہی مروارہے ہیں چونکہ دونوں طاقتیں ہی جہاد کارڈ سے اچھی طرح واقفیت رکھتی
ہیں اس لیے اس ضمن میں روس کی پالیسی ہے کہ جہادی، ایران اور بشار الاسد کے
ساتھ مل کر امریکی اتحاد سے ٹکر لیں اور اسی طرح امریکی سوچ ہے سعودیہ اور
ترکی کا اتحاد شامیوں کی مدد کے لیے جہاد کا نام لے کر روس ،ایران اور
بشارالاسد کی حکوت کی اینٹ سے اینٹ بجادیں یعنی دونوں ہی دیرینہ دشمن جہاد
کارڈ کھیل کر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں مسلمانوں کے خون کو پانی
کی طرح بہا رہے ہیں یعنی نتیجہ ء حاصل یہ کہ مسلمانوں کا خون پانی سے بھی
ارزاں ہے۔
ترک صدر اردوان نے اپنے بیانیے میں یہ بھی کہا کہ مشرق وسطیٰ کو تمام طرح
کے جوہری ہتھیار سے پاک کرنا ہوگا۔ ترک صدر کے یہ الفاظ بھی ان کے پہلے
بیانیے کا حصہ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مشرق وسطی میں گر کسی کے
پاس جوہری ہتھیار بھی ہیں تو وہ اسرائیل ہے جس کو سپرپاور امریکہ کی مکمل
حمائیت حاصل ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل گر ہتھیار تلف کرے تو نہ
صرف مشرق وسطی میں امن ہوگا بلکہ پوری دنیا کے مسلمان سکون کا سانس لیں گے
لیکن انتشار پسند اور مسلم کش قوتیں ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گی کہ مشرق
وسطی میں سکون ہو اور مسلمان سکون کی زندگی گزار سکیں کیونکہ وہ مسلمانوں
کی ترقی و سکون کو اپنے گریٹر اسرائیل کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ خیال کرتے
ہیں اردوان کے بیانیے پر عمل اس صورت میں ممکن ہے گر ساری اسلامی ریاستیں
اردوان کی طرح غیرت کا مظاہرہ کریں اور اس کے قدم سے قدم ملا کر اس کا ساتھ
دیں ۔آج اکیلا اردوان ہے اور اس کے ساتھ قدم بڑھانے والا کوئی دکھتا نہیں
ہے کل وہ وقت بھی دور نہیں جب یہ نام نہاد اسلامی حکمران ایسے رفقاء کو
ڈھونڈیں گے لیکن دیر ہو چکی ہو گی۔ |