دیپالپور کو ملکی سیاست میں ہمیشہ ہی سے بڑی اہمیت حاصل
رہی ہے کیوں کہ اس تحصیل سے بڑے بڑے قدآورنام سیاسی منظرنامے میں اہم کردار
اداکرتے رہے ہیں۔2018ء کی حلقہ بندیوں کے بعد دیپالپور کواین اے کے دو جبکہ
پی پی کے چارحلقوں پی پی 185،پی پی 186،پی پی 187،اور پی پی 188میں تقسیم
کیا گیا ہے۔ ان میں سے پی پی 186 کو اس لحاظ سے خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ اس
حلقے میں شروع سے ہی ایک مخصوص خاندان برسراقتدار رہاہے ۔
اس حلقہ میں کھوکھرخاندان اپنے سیاسی اثرورسوخ کی بناپر ہمیشہ کامیابی سے
ہمکنار ہوتا رہاہے اور اس وقت بھی معروف سیاسی شخصیت ملک عباس کھوکھر کے
صاحبزادے ملک علی عباس کھوکھر ایم پی اے ہیں ۔جب ہم اس حلقے کے ماضی میں
ہونیوالے انتخابات پر نظر ڈالتے ہیں تو بھی کھوکھر فیملی ہی کامیاب نظرآتی
ہے۔
ملک عباس کھوکھر سدا بہار ایم پی اے رہے انہوں نے 1985ء سے 1996ء تک
ہونیوالے انتخابات میں سوائے 1988ء کے تمام جنرل انتخابات میں کامیابی حاصل
کی ان کی اس کامیابی کے پیچھے ان کا عوام کیساتھ رابطہ اور ورکنگ تھی اس سے
قبل ان کے چچا ملک نورمحمد کھوکھر بھی انتخابات میں جیتتے رہے ۔1996ء کے
بعد ملک عباس کھوکھر نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا ۔
2002ء کے انتخابات میں ملک عباس کے بھتیجے ملک
نذرفریدکھوکھر(آزاد)،سیدمجتبیٰ حسن گیلانی(آزاد)،میجر(ر)اعجاز
شاہدموہل(پاکستان پیپلزپارٹی) ،میاں شریف ظفرجوئیہ(پاکستان مسلم لیگ ن)اور
حکیم محمدشاہ صائم(متحدہ مجلس عمل ) اس حلقہ میں جس کو اس وقت پی پی
192کہاجاتا تھا میں مدمقابل ہوئے تاہم کامیابی ملک نذرفرید کھوکھر
کامقدربنی جنہوں نے 28296ووٹ لئے جبکہ سیدمجتبیٰ حسن
20417،میجراعجازشاہدموہل6449اور میاں محمدشریف ظٖرجوئیہ 3714ووٹ لے
پائے۔جبکہ متحدہ مجلس عمل کے امیدوار حکیم محمدشاہ صائم نے بھی 939ووٹ لئے۔
اسی طرح 2008ء کے جنرل الیکشن ہوئے تو ملک علی عباس کھوکھرنے آزاد حیثیت سے
اس میں حصہ لیا جبکہ میاں ثنااللہ ڈولہ(آزاد)میاں نذرفرید کھوکھر(پاکستان
مسلم لیگ ق)اور میجرریٹائرڈ اعجازشاہدموہل پیپلز پارٹی سے میدان میں آئے
تاہم ملک علی عباس کھوکھر نے 19094ووٹ لے کرفتح حاصل کرلی دوسرے نمبر پر
رہنے والے میاں ثنااللہ ڈولہ نے 12548 ووٹ حاصل کئے۔جبکہ 2002ء کے انتخابات
میں کامیاب ہونیوالے ملک نذرفریدکھوکھر اس بار پھر مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم
سے سامنے آئے مگر 11974ووٹ لے پائے اور اعجاز شاہدموہل کو 11772ووٹ لے
کرچوتھے نمبر پر رہے اور راؤفیاض اسلم خان آزاد 10642 لے سکے۔سیدمحمدنقی
گیلانی نے 5971ووٹ لئے۔
2013ء میں ملک علی عباس کھوکھرنے پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا
جبکہ چوہدری طارق ارشاد خان پی ٹی آئی،میاں ثنااللہ ڈولہ تحریک تحفظ
پاکستان،سیدعباس رضا رضوی پاکستان پیپلز پارٹی اور سردار شہریارموکل نے حصہ
لیا تاہم ملک علی عباس کھوکھر 42073 ووٹ لے کر سب پر بازی لے گئے جبکہ پی
ٹی آئی کے رانا طارق ارشاد خان 18893ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے ۔اس
مقابلے میں شامل میاں ثنااللہ ڈولہ 9294ووٹ لے پائے ,سیدعباس رضا رضوی
9364اور سردار شہریارموکل کو 7131ووٹ ملے۔
اس حلقہ میں برادریوں کے ووٹ کا کردار بہت اہم رہا ہے جس امیدوار کو زیادہ
دھڑوں اور برادریوں کی حمائت حاصل ہوئی وہی کامیاب ٹھہرا ۔اس حلقہ میں
ارائیں برادری سب سے زیادہ تعداد کی حامل ہے جس کے پینتیس ہزار ووٹ کسی بھی
امیدوار کی فتح میں اہم ترین فیکٹر کی حیثیت رکھتے ہیں اس کے علاوہ
راجپوت،کھوکھر،نوناری،بلوچ،مہار اوربودلہ برادریاں نمایاں حیثیت کی حامل
ہیں۔
اس حلقہ کی آبادی 367000افراد پر مشتمل ہے اورنئی حلقہ بندیوں کے بعد اس
حلقہ میں کوئی خاص ترمیم بھی نہیں ہوئی ہے ۔
پی پی 186میں اس بار ایم پی اے کیلئے متوقع امیدواران میں ملک علی عباس
کھوکھر، پروفیسر ڈاکٹر امجد وحید ڈولہ،رانا طارق ارشاد خان اورمیاں بلال
عمر بودلہ شامل ہیں ۔
ملک علی عباس کھوکھر اس سے قبل دو الیکشن لڑکردونوں میں جیت چکے ہیں ،رانا
طارق ارشاد خان پی ٹی آئی کے ضلعی صدر ہیں گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے
ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہوئے18893 ووٹ لے چکے ہیں۔ جبکہ میاں بلال عمر بودلہ
اور ڈاکٹرامجدوحید ڈولہ پہلی بارپی پی کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
جہاں تک میاں بلال عمر بودلہ کی سیاسی پوزیشن کا تعلق ہے تو وہ اچھے مقر
ضرور ہیں جو اپنی تقریروں میں اشعار کے بہتر چناؤمیں کمال رکھتے ہیں جس کی
وجہ سے نوجوانوں کی معقول تعداد بھی انہیں پسند کرتی ہے تاہم بلدیاتی سیاست
وبار انتخابات کی نسبت عام انتخابات کیلئے ان کی پوزیشن انتہائی کمزور ہے ۔
جبکہ ڈاکٹرامجدوحید ڈولہ کو میدان سیاست میںآئے اگرچہ زیادہ عرصہ نہیں ہوا
مگر اس مختصر عرصہ میں عوام کے ہرطبقہ کیساتھ جس تسلسل کیساتھ رابطہ انہوں
نے رکھا ہے اور جس طرح ان کا طرززندگی ان کے الفاظ سے مطابقت رکھتا ہے ان
کی اسی ادانے ہرایک کو ان کا گرویدہ کردیا ہے ۔اور وہ دوسال کے عرصہ میں ہی
علاقہ کی مقبول ترین سیاسی شخصیت بن چکے ہیں ڈاکٹرامجدوحید ڈولہ نہ صرف
انسان دوست اور سادہ مزاج آدمی ہیں بلکہ ان کی گفتگو میں موجود علمیت اور
علاقے کے مسائل سے آگہی اور ان کے حلا کیلئے موثرپلاننگ واضح طور پر یہ
بتانے کیلئے کافی ہے کہ عوام انہیں موقع ضرور دیں گے۔
اس کے علاوہ خالدمحمودخان بلوچ برادری کی طرف سے میدان میں آگئے ہیں ان کا
کہنا ہے کہ اس سے قبل وہ ملک علی عباس کو سپورٹ کرتے تھے مگر ہمیں کوئی
فائدہ نہیں ہوا ۔
اسی طرح تحریک لبیک یا رسول اللہ ﷺ کی جانب سے میاں سجاد حسین وٹو ایڈووکیٹ
امیدوار ہیں ۔
اب دیکھتے ہیں کہ اقتدار کا ہمہ کس کے سر بیٹھتا ہے۔ |