آتش پیشہ حکمران

ایک بار کا ذکر ہے کہ مرنے کے بعد امریکی صدر جارج بش، برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور سلطنتِ شریفیہ کے موجودہ تاجدار میاں محمد نواز شریف جہنم میں پہنچ گئے۔ جہنم کی سختیاں سہہ سہہ کر غم سے نڈھال ہو گئے تو اپنا دُکھڑا بیان کرنے کی غرض سے ایک دِن دُنیا میں موجود اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنے کی سُوجھی۔ جہنم میں ایک دُنیا سے دُوسری دُنیا میں بات کرنے کے لیے مہنگے داموں پر پبلک کال آفس کی سہولت موجود تھی۔ پہلے امریکی صدر نے وہاں سے اپنے گھر ٹیلی فون پررابطہ کر کے مختصر بات چیت کی مگر اس مختصر کال کا سینکڑوں ڈالر کا بِل پیش کیا گیا تو صدر کے ہوش اُڑ گئے۔ اس کے بعد برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے کال ملائی تو اُسے بھی تھوڑی سی بات کے عوض سینکڑوں پاؤنڈ کال چارجز کی مد میں ادا کرنے پڑے۔ آخر میں نواز شریف کال کرنے گیا اور کئی گھنٹوں تک اپنے لواحقین سے باتیں کرتا رہا مگر جب واپس آیا تو بہت ہی خوش نظر آ رہا تھا۔ چہرے پر کوئی پریشانی نہیں تھی۔ امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم نے پُوچھا یار تمہیں کال کے اتنے زیادہ چارجز پڑے ہیں، پھر بھی تم مسرُور نظر آ رہے ہو۔ اس پر نواز شریف نے فرمایا کیسے چارجز؟ تم لوگوں کو اس دُنیا سے دُوسری دُنیا میں کال کرنے کی وجہ سے بے انتہا چارجز پڑے ہیں۔ جبکہ میں دُنیا سے رخصت ہوتے وقت پاکستان کو جہنم بنا آیا تھا اس لیے جہنم سے جہنّم لوکل کال کا ہی خرچہ پڑتا ہے۔

بظاہر تو یہ لطیفہ ہی معلوم ہوتا ہے مگر دیکھا جائے تو مکافاتِ عمل کے نتیجے میں اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے نواز شریف انتقام کی جس آگ میں جل رہا ہے، اُس آگ میں پاکستان کی سا لمیت، وقار اور استحکام کو جلا کر راکھ کرنے پر تُل بیٹھا ہے۔ لازمی سی بات ہے کہ جس شخص کی عزت چلی جائے، وہ دُوسروں کی عزت کے بھی درپے ہو جاتاہے۔ اسی سوچ کے تحت اُس نے پاکستان کو انارکی ، خانہ جنگی اور انتشار کی بھٹّی میں جھونکنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اجمل قصاب کی شہریت کے حوالے سے بیان بھی اسی مذموم اور ناپاک سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

ہاں، بھٹّی سے یاد آیا کہ ان کا ابتدائی کاروبار بھٹّی سے ہی پروان چڑھا۔ 1980ء کی دہائی میں انہیں سیاست کو بطور کاروبار استعمال کرنے کا گُر آزمانے کا موقع مِلا۔ اُس وقت سے ہی سلطنت شریفیہ کو پھلنے پھُولنے کا موقع میسر آیا۔ اس سے پہلے بقول شخصے ان کا کاروباری وتیرہ یہ تھا کہ یہ لوگوں سے لوہے کے بدلے میں رقم لے لیتے، مگر اُسے چکر پر چکر لگواتے رہتے۔ اتنے چکر لگواتے کہ بیچارہ مایوس ہو کر مال کے تقاضے سے پیچھے ہٹ جاتا۔ اگر کوئی گاہک سختی سے اپنے پیسوں کی واپسی کا تقاضا کرتا تو یہ اسے بھٹّی میں گھُسیڑ کر کوئلہ بنا دینے کی دھمکی دیتے۔اور یوں لوگوں کی رقمیں دبا دبا کر، اُنہیں ڈرا ڈرا کر شریفوں نے اتفاق فونڈری کو ترقی دی۔ آج بھی ان کا یہی وتیرہ ہے۔ کوئی بھی دِل سے ان کے ساتھ کاروبار کرنے پر راضی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ پہلے پارٹنر بنتے ہیں پھر آہستہ آہستہ سارا کاروبار ہتھیا لیتے ہیں۔ شریفوں کے بزرگ نے اپنے ہی بھائیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اس بارے میں عوام کے سینوں میں بہت ساری کہانیاں محفوظ ہیں۔ دروغ بر گردنِ راویان کہ جائیداد کے مسئلے پر انہوں نے اپنی ایک عزیزہ کو بھی بھٹّی میں پھنکوا دیا تھا۔ سوکاروباری مفاد کی بھٹّی میں انہوں نے ظلم اور استحصال کی جو آگ دہکائی تھی، وہ آج تک بُجھنے کا نام نہیں لے رہی۔ نواز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے پہلے دور میں ہی ان کے بارے میں بہت سی باتیں زبانِ زدِ عام تھیں کہ یہ لوگ اپنے کارخانوں فیکٹریوں میں مزدوروں کے حقوق کی بات کرنے والوں، اُن کے استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بُلند کرنے والوں اور اپنا حق مانگنے والوں کو دہکتی ہوئی بھٹّی میں پھنکوا دیتے تھے۔ خدا معلوم ان باتوں میں کتنی صداقت ہے، مگر ان کے دہائیوں پر محیط خونخوار طرزِ عمل کو دیکھتے ہوئے یہ باتیں بعید از حقیقت نہیں لگتیں۔

خیر، لوہار ہونے کی حیثیت میں آگ دہکانا ان کی پیشہ ورانہ مجبوری سمجھ لیں۔مگر اس’ مجبوری‘ کو انہوں نے سیاست میں بھی خوب استعمال کیا۔کیونکہ آگ دہکانا ان کا آبائی پیشہ ٹھہرا، اسی وجہ سے ایسا کر کے ہی انہیں تسکین مِلتی ہے۔ مگر سیاست میں آنے کے بعد انہوں نے اپنے مفاد کی آگ میں لوہا نہیں دہکایا، بلکہ اپنے مخالفین کے سیاسی کیریئرز، عوام کی حسرتیں، مجبوریاں، اور ریاست کی بنیاد اور استحکام کو نذرِ آتش کرنے کی کوشش کی۔ یہ آتش زنی اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست کے بانی ٹھہرے۔ ان کے فسطائی ہتھکنڈوں کے آگے احتجاج کون کرتا ۔ مارشل لاء کے چہیتے…… ہزاروں غنڈے پالے ہوئے تھے۔ جو اِن کے ایک اشارہ ابرو پر سب کجھ تہس نہس کرنے کو تیار ہو جاتے۔ ایجنسیز کی مدد سے تشکیل دیا گیا اسلامی جمہوری اتحاد بھی جب بے نظیر کو اقتدار میں آنے سے نہ روک سکا تو شریفوں نے اپنا پیشہ ورانہ طریقہ آزمایا۔اس ’جلاؤ‘ کے ساتھ ’گھیراؤ‘ بھی شامل ہو گیا۔ ہر طرف جعلی عوامی احتجاج کا طوفان برپا کیا گیا۔ اور پھر اس پر لوگوں کے خون پسینے سے کمائے پیسے کی چمک نے بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگوں کا ضمیر ڈگمگا دیا۔ بے نظیر کی حکومت ختم کروا دی گئی۔ یہی کچھ دُوسرے دور میں بھی کروایا گیا۔ تحریک نجات میں بھی ان کے گلو بٹوں نے جگہ جگہ آتش زنی کی۔

درحقیقت ان کے ہاتھ میں یہ فارمولا آ گیا ہے کہ جب بھی مشکل میں ہو، آگ دہکا دو۔ 1990ء کی دہائی میں کروڑوں روپئے مالیت کی جاتی عمرہ کی زمین انہوں نے چند ہزار روپوں میں خریدی۔ جب یہ سکینڈل ان کے گلے کی پھانس بننے لگا تو اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر لاہور اور سلطنتِ شریفیہ کے دست بستہ خادم خاصر خاں کھوسہ کی معاونت سے کچہری کو آگ لگوا کر جاتی عمرہ کا لینڈ ریکارڈ ضائع کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ آگ ایک دفعہ پھر ان کے کام آ گئی جب میٹرو بس منصوبے میں اربوں روپے کی کرپشن کا ریکارڈ مٹانے کی خاطر ایل ڈی اے پلازہ کو نذرِ آتش کروایا گیا۔ زرداری حکومت کو بدنام اس کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی خاطر گلو بٹوں سے پنجاب کے مختلف شہروں میں واقع واپڈا کے دفاتر کو لگائی گئی آگ ابھی تک لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو شریف خاندان اپنے اولین دُشمن مشرف کے طیارے کو بھی آگ کی لپٹوں میں جھُلستے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا۔ان لوگوں نے مشرف دور میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف ہونے والے عوامی احتجاج کو بھی اپنی پُرتشدد فطرت کی تسکین کے لیے استعمال کیا۔ گلو بٹوں کے ذریعے اربوں روپے کی سرکاری اور عوامی املاک کو نذرِ آتش کروایا گیا۔مسلم لیگ کے گلو بٹ درحقیقت جماعت کے نہیں بلکہ شریف خاندان کے مفادات کو پُورا کرنے والے غنڈے ہیں۔ یہی گلو بٹ اگلے چند روز میں نواز لیگ کے اہم لیڈروں کی جان کو نشانہ بنانے کی کوشش کریں گے تاکہ شریفوں کو عوامی ہمدردی کا ووٹ حاصل ہو سکے۔ شریف خاندان موجودہ دور کا نیرو ہے جو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے کسی بھی منفی حد کو عبور کر سکتا ہے۔ اپنے بھیانک عزائم کی آتش زنی کے شوق میں انہوں نے اپنے گھر کے فرد کو بھی نشانہ بنا ڈالا۔ رشتہ داریوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے شریفوں نے اپنے مذموم مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بننے والے سگے بھائی عباس شریف کو بھی نہیں بخشا۔ جس دِن اس کی موت کی تحقیقات ہوئیں بہت سارے نئے انکشافات سامنے آئیں گے۔ مگر ان کے کرتوت اور شیطانیت آشکار ہونے کے بعد عوامی غیظ و غضب کی جو آگ اب دہکی ہے، وہ پُوری سلطنتِ شریفیہ، شہنشاہ سلامت اور اُن کے ولی عہدوں سمیت سب کو راکھ کا ڈھیر بنا دے گی۔ اور سب کو یقین ہے کہ زوال کی اس راکھ سے کرپشن کا کوئی نیا قُقنس جنم نہیں لے گا۔

Naushad Hameed
About the Author: Naushad Hameed Read More Articles by Naushad Hameed: 21 Articles with 12252 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.