سوشل میڈیا بے لگام گھوڑا بن چکا ہے، جس کی باگ کسی کے
قابو میں نہیں۔ کوئی اخلاقی حدود و قیود نہیں، کوئی احترام آدمیت نہیں۔ بس
جس کی مرضی گوگل سے تصویر اٹھائی اور گرافک کر کے اشتعال انگیز نعرے لکھ
مارے اور پھر اسے ’سوشل میڈیا مہم‘ کا نام دے کر وائرل کر دیا۔ سماجی رابطے
کا یہ پلیٹ فارم جس طرح ایک عام انسان کی زندگی پر حاوی ہوتا جا رہا ہے، اس
کے مضمرات سے سوشل ویب سائٹس سے جڑا کوئی فرد محفوظ نہیں۔ اس سے کوئی انکار
نہیں کر سکتا کہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے آبی ذخائر کی اشد ضرورت ہے، ماضی
میں آمریت ہو یا جمہوریت۔ کالا باغ ڈیم کے معاملے کو قومی اتفاق رائے نہ
ہونے تک دوبارہ نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن یہاں اس کا تذکرہ
کرنا مقصود ہے کہ ہمارے سنجیدہ طبقوں نے بھی بچگانہ رویوں کو اختیار کر لیا
ہے۔ صوبائیت اور قوم پرستی کی سطحی سوچ لے کر کسی بھی قوم کے رہنماؤں کو
لعن طعن کرنا اور یہاں تک متشدد رویے کو فروغ دینا کہ ’’کسی کی لاش پر کالا
باغ ڈیم بن سکتا ہے تو چند سو لاشوں پر کالا باغ ڈیم بنا لیا جائے‘‘۔ یہ
ایک انتہائی افسوس ناک طرز عمل ہے۔ کسی بھی مسئلے کو تشدد کے ذریعے حل
کرانے کی کوشش اور ایسے متشدد رویوں کی حوصلہ افزائی قومی المیوں کو ہی جنم
دیتی ہے، جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔
تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کو اغیار سے زیادہ نقصان اپنوں نے ہی پہنچایا۔ یہ
فطری امر ہے کہ جب ایک جانب سے دشنام طرازی کی جائے گی تو دوسری طرف سے
پھولوں کے ہار نہیں ملیں گے۔ دُکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے صاحب علم بھی
متشدد رویوں میں بہہ کر ’نیرو کی طرح بانسری بجانا چاہتے ہیں‘۔ اگر بزور
طاقت کسی مسئلے کو حل کیا جا سکتا تو سب سے پہلے مقبوضہ کشمیر کو آزاد اور
بھارت پر قبضہ کر لیا جاتا۔ اس سے کم ازکم بھارت کو آبی جارحیت کرنے کی
جرا?ت نہ ہوتی، جس کا ہم واویلا کرتے ہیں۔ آج ہم پانی کی کمی کے ایشو پر
اپنے گریبانوں میں جھانکنے کے بجائے دوسروں کے دامن چاک کرنے میں لگے ہوئے
ہیں۔ ہم دلوں میں کدورت ڈالنے میں تو مہارت رکھتے ہیں، لیکن دلوں سے نفرتوں
کے خاتمے کے بجائے ریت میں سر چھپا لیتے ہیں۔
سوشل میڈیا ایک بگڑا ہوا بچہ ہے، جو زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے اپنی حد سے
باہر نکل چکا ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ کی حشر سامانیوں سے تو ملک کی بڑی
سیاسی جماعتیں و ادارے بھی محفوظ نہیں۔ ہمارا الیکٹرونک میڈیا بھی اس کے
اثرات سے محفوظ نہیں رہا۔ کمال کی بات یہ کہ اب تو ’سوشل میڈیا جرنلسٹ‘ کی
اصطلاح بھی رائج ہو چکی ہے اور بڑھ چڑھ کر اس کا دفاع بھی کیا جاتا ہے۔
چلیں جو کچھ بھی ہو کم ازکم صحافت سے وابستہ سنجیدہ شخصیات، دانشوروں اور
صاحب علم کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ ’کوّا جب بھی ہنس کی چال چلتا
ہے تو اپنی چال بھول جاتا ہے۔‘
سیاسی جماعتیں اور جمہوری عمل بھی ایک طرف رکھ دیں۔ اگر ہم دیکھیں کہ مملکت
میں مطلق العنان حکومتیں بھی آئیں، وہ جو چاہتی کر سکتی تھیں، لیکن انہوں
نے کچھ سوچ کر ہی پہلوتہی برتی ہو گی۔ ہمیں ایسے سیاسی نعروں کے پیچھے نہیں
جانا چاہیے کہ ’کوّا ہمارا کان لے گیا، تو ہم اپنے کان دیکھنے کے بجائے کوے
کے پیچھے دوڑ پڑیں۔‘ اگر کبھی کسی نے یہ کہہ دیا کہ ہماری لاشوں پر فلاں
ڈیم بنے گا تو قومی یکجہتی کے لیے یہ سمجھنا ضروری تھا کہ لاکھوں افراد کا
لیڈر ایسا کہنے پر کیوں مجبور ہے، لیکن ہم نے تو غداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم
کرنے کی فیکٹری کھولی ہوئی ہے۔ تو پھر یہی جواب ملے گا کہ آئیں ہماری لاشوں
پر کالا باغ ڈیم بنا لیں۔ پاکستان کے لیے ان گنت قربانیاں دی ہیں، اگر
ہماری لاشوں سے پاکستان قائم رہ سکتا ہے تو پہلے بھی جان کی قربانی دیتے
رہے ہیں اور اب بھی تیار ہیں۔ مسئلہ آپ کو ہے ہمارے لیے تو قدرتی آبشار و
جھیلیں کافی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہم یہ کسی کو نہیں بتاتے کہ اَنا کی روش
کس نے اپنائی، کس نے اپنے وعدوں سے انحراف کیا۔ کس نے بار بار چھوٹے صوبوں
کو دھوکا دیا، کس وجہ سے چھوٹے صوبوں کا اعتماد کسی ایک صوبے سے ختم ہوا۔
یہ کوئی گڈے گڈی کا کھیل تو نہیں کہ ہم لالی پاپ بانٹ کر خوش ہو جائیں۔
چھوٹے صوبوں کے تحفظات ’کینسر کا مرض بھی نہیں کہ اس کو جسم سے کاٹ کر
پھینک دیا جائے‘۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ جس بات کو ہم ’ناسور سمجھ رہے ہیں
تو یہ زخم بھی ناقابل علاج کسی کی وجہ سے ہی تو بنا ہے۔‘ ملک بھر میں کئی
مقامات پر ڈیم کی ضرورت ہے۔ اس پر کام نہیں کیا جاتا، کالا باغ سے بڑے اور
تمام صوبوں کے متفقہ بھاشا ڈیم کو بھی سیاسی قبر میں اتارا جا رہا ہے۔
سوچنے کا مقام یہی ہے کہ جب آپ صوبائیت کا نعرہ بلند کرتے ہوئے کھوکھلے
دعوے کریں گے کہ ’’پنجاب ناانصافی نہیں کرے گا‘‘، ’’کالا باغ کے نام پر
اعتراض ہے تو ولی باغ نام رکھ لیں۔‘‘ تاہم پانی جمع ہو ایک صوبے میں لیکن
اس کا اسٹیئرنگ دوسرے صوبے کے پاس ہو، جو کئی بار چھوٹے صوبوں کو دھوکا دے
چکا ہو تو پھر اعتماد کی فضا کیسے پیدا ہو گی۔ عوام کو کس طرح یقین دلائیں
گے کہ جس صوبے سے گیس پورے پاکستان کو ملتی ہو، اس علاقے کے ہی لوگوں کو یہ
میسر نہیں تو پھر سوال تو اٹھے گا۔ جب ایک صوبہ کی بدولت بڑے بڑے آبی ذخائر
اور بجلی پورے پاکستان کو ملے، لیکن وہ صوبہ خود اندھیرے میں رہے اور واپڈا
کا ہیڈ آفس اور اختیار بجلی دینے والے کے پاس ہی نہ ہو تو اعتماد کہاں سے
آئے گا۔
یہ سب کچھ اعتماد سازی کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ کچھ بھی ناممکن نہیں، اگر کچھ
کرنے کی نیت کی جائے۔ جب تک اجارہ داری ختم نہیں ہو گی، اس وقت تک صوبائیت
کے خول میں دھنسے عوام کو قومی دھارے میں نہیں لایا جا سکتا۔ اس ضمن میں
صرف یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ کسی ’’تانگہ پارٹی‘‘ کے فروعی مقاصد کے لیے
قوم کے اجتماعی مفادات کو قربان نہ کیا جائے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ
پاکستان کے تین صوبے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی
ہے کہ پہلے پنجاب اپنا اعتماد چھوٹے صوبوں میں بحال کرے۔ اُن آبی ذخائر کو
ترجیح دی جائے جن پر تمام صوبوں کا اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ چھوٹے ڈیم پہلے
بنائے جائیں۔
پانی کے ذخائر پر ہم پہلے ہی کافی دیر کر چکے ہیں، لیکن اس کی واحد وجہ
ہمارا سیاسی رویہ اور فروعی مفادات رہے ہیں۔ ہم اقتدار کے لیے صرف کرسی
کرسی کا کھیل ہی کھیلتے رہے ہیں۔ عوام کو بھی اسی سرخ بتی پر لگایا ہوا ہے۔
چھوٹے سے چھوٹے معاملے پر ہم میں اتفاق رائے پیدا نہیں ہوتا، لیکن جب ڈنڈا
چلتا ہے تو برسوں سے غائب سیاست دان بھی کسی شرم و حیا کے بغیر پارلیمنٹ
پہنچ جاتے ہیں۔ اس سے کوئی اختلاف نہیں کہ پاکستان کو چھوٹے بڑے آبی ذخائر
و سستی بجلی کی ضرورت ہے۔ یہ راگ تو ہم قریباً 50 برس سے الاپ رہے ہیں،
لیکن اس کے برعکس ہو کیا رہا ہے۔ عصبیت، لسانیت کے نعروں کی وجہ سے اپنا
ایک بازو کٹوا چکے ہیں۔ عدم برداشت ہمارا مزاج بن چکا ہے۔ ماضی سے سبق حاصل
کرنے کے بجائے ہم دوبارہ لاشیں گرانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ناپختہ اذہان
میں نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں، تو پھر ’اینٹ کا جواب پتھر سے ہی ملے گا
پھولوں کی توقع کرنا تو بے وقوفی ہی ہو گی۔‘ مقصود صرف یہ ہے کہ لسانیت و
صوبائیت کی سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے غیر سنجیدہ رویوں کو اپنانے سے
گریز کیا جائے۔ لسانی اکائیوں کے اکابرین کی تضحیک کا سلسلہ بند کیا جائے۔
ان اکابرین کو گالیاں دینا اور کسی بھی قوم کو لاشیں بنا کر قبرستان میں
دفنانے کی باتیں کرنا پاکستان کے اجتماعی مفاد میں نہیں۔ کالا باغ ڈیم پر
نفرت انگیز سیاست سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ خاکم بدہن ہم
نفرت انگیز سیاست کو فروغ دے کر مملکت کی خدمت نہیں بلکہ جڑیں کمزور کر رہے
ہیں۔ اگر ہم سمجھ جائیں تو یہ ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔ |