1947سے لے کر اب تک پا ک بھارت تعلقات ہمیشہ ہی اتار
چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں،سونے پر سہاگہ بھارت بھی پاکستان کی طرح جوہری
صلاحیت کا حامل ملک ہے،حقیقت ہے کہ یہی بات بھارت کو ہضم نہیں ہو رہی ،جس
طرح دنیا کا سکون امریکہ نے خراب کر رکھا ہے اسی طرح اس میں کوئی شک نہیں
کہ جنوبی ایشیاء کا سکون خراب کرنے میں بھارت کا ہاتھ ہے، بھارت ایشیاء کا
سپر پاور بننے کے خواب میں نا صرف خطے کا امن برباد کرنے میں پیش پیش ہے
بلکہ وہ اپنے ہمسایے ملک پاکستان کی خوشحالی کو ایک آنکھ نہیں دیکھ پا
رہا۔اصل میں بھارت شروع دن سے ہی پاکستان کے قیام کا انکاری ہے یہی وجہ ہے
کہ وہ پاکستان کے وجود کو برداشت نہیں کر تااور ہر لمحہ پاکستان کو نقصان
پہنچانے کیلئے تیار رہتا ہے اس لیے کبھی وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات
استوار نہیں کر پایا حالانکہ قیام کے وقت دونوں ممالک اس بات پر متفق تھے
کہ ایک دوسرے کے ساتھ نہ صرف اچھے تعلقات استوار کریں گے بلکہ اچھے ہمسایے
کی طرح میل جول رکھیں گے مگر اب تک دونوں ممالک میں چار بڑی جنگیں ہو چکی
ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک طرف بھارتی فورسز کا لائن آف کنٹرول (ایل او
سی) پر فائرنگ کرنا معمول بن چکاہے تو دوسری طرف بھارتی حکومت پاکستان کو
بنجر کرنے میں مگن ہے ۔ تعلقات بہتر بنانے کیلئے بھی پاکستان کی ہر حکومت
نے بھرپور کوشش کی اور حالات کو پرامن بنانے کی بہت سی کوششیں کی گئیں جن
میں آگرا ، شملہ اور لاہور کا سربراہی اجلاس شامل ہے مگر صورتحال بہتر ہونے
کی بجائے سے مزید ابتر ہو تی جا رہی ہے۔
سچ کہتے ہیں ہندو مکروہ ذہنیت کی حامل قوم ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ایک طرف امن
کی آشا کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے تو دوسری طرف وہ سندھ طاس معاہدے کی سر عام
خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر ڈیم بنا کر
پاکستان کا پانی روک کر اس کی آنے والی نسلوں کو بوند بوند پانی کو ترسانے
کی سازشیں بناتا رہتا ہے۔اسی سازشیوں کے تانے بانے بننے میں مگن مودی سرکار
نے حال ہی میں ایک اور وار کرتے ہوئے کشن گنگا ڈیم کا کامیاب افتتاح کیا
،جس کی تعمیر کے آغاز پر پاکستانی حکومت نے شورو غوغا کیا مگر اس کی عالمی
برداری میں شنوائی نہیں ہوئی ،اور آج بھارت کشن گنگا ڈیم بنانے میں کامیاب
ہو چکا ہے۔کشن گنگا ہے کیا تو واضح کرتی چلوں کشن گنگا جہلم کا ایک معاون
دریا ہے جسے بھارت میں کشن گنگا کہتے ہیں جبکہ پاکستان میں وہ دریائے نیلم
کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دریائے نیلم پر باندی پورہ کے مقام پر 330 میگا
واٹ کے کشن گنگا ہائیڈرو پاور اسٹیشن تعمیر کا آغاز 2009 میں کیا گیا تھا۔
یہ ڈیم پاکستان کی طرف آنے والے پانی پر بنایا گیا ہے جس سے زراعت کی غرض
سے ملکی ضروریات کے لئے درکار پانی کی فراہمی بری طرح متاثر ہوگی۔صرف یہی
نہیں بلکہ اس طرح کے کئی اور منصوبے شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔دسمبر
2016 میں عالمی ثالثی عدالت نے بھارت کو منصوبے پرمزید کام کرنے سے عارضی
طور پر روک دیا تھا اور ثالثی عدالت کے وفد نے دومرتبہ نیلم جہلم منصوبے
اور کشن گنگا منصوبے کا دورے بھی کیاتھا۔ جس نے صورتحال کا جائزہ لے کر
عدالت کو اپنی رپورٹ پیش کی۔ یہ تنازعہ کئی سال ثالثی عدالت میں چلتا رہا۔
کمال چالاکی سے بھارت نے فیصلہ اپنے حق میں کرا لیا۔ فروری 2017ء میں ثالثی
عدالت نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ ایک مخصوص تناسب کو چھوڑ کر بھارت کشن گنگا
یعنی دریائے نیلم کے پانی کا رخ تبدیل کر سکتا ہے۔ اس فیصلے کے بعد بھارت
نے تیزی سے ڈیم مکمل کیا۔ مجموعی طور پر اس ڈیم پر بھارت نے 864 ملین ڈالر
خرچ کئے ہیں۔اس کے علاوہ پاکستانی میڈیا کے مطابق عالمی بینک نے کشن گنگا
ڈیم سے متعلق پاکستان کی شکایات اور تحفظات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا
کہ سندھ - طاس معاہدے کے ضامن کی حیثیت سے عالمی بینک کا کردار نہایت محدود
ہے جس کی وجہ سے پاکستان تنازعہ کے حل کے لیے ہونے والی ملاقات بغیر اتفاق
رائے کے اختتام پذیر ہوگئی ہے۔
غور فکر پہلو یہ ہے کہ بھارتی جارحیت کے باعث پہلے ہی پاکستان کے تمام دریا
سوکھتے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں وطن عزیز کو پانی کی بد ترین قلت کا
سامنا ہے ۔اسی بحران میں مزید اضافہ ہونے جارہا ہے،کشن گنگا پراجیکٹ سے
ہمارے ایکو سسٹم کو بھی خطرہ ہے بلکہ اس سے وطن عزیزکو سالانہ 140 ملین
ڈالر کا نقصان متوقع ہے لیکن یہ مسئلہ ہمارے قومی بیانیے میں کہیں جگہ نہیں
بنا سکا۔ ہماری حکومت کی عالمی برادی کے سامنے بے بسی اورغیر سنجیدگی کے
باعث پانی کا خوفناک بحران ہماری دہلیز پر دستک دے رہا ہے مگر پاکستانی
حکومت کو سیاسی ڈراموں اور ایک دوسرے کے خلاف شعلہ بیانی سے فرصت ملے تو وہ
اس طرف دھیان دیں ،سچ تو یہ ہے کہ ان کی غیر سنجیدگی اور آپس کی چپقلش اور
روز ایک نئے تماشے میں مگن سیاسی قیادت اس سوچ سے آزاد ہے کہ آنے والے
وقتوں میں پاکستان کی خوبصورت وادی نیلم تباہی کے دہانے پر ہے اور بھارت اس
کا پانی اپنی سر زمین کو شاداب کرنے میں استعمال کرے گا۔بھارتی انجئینرز نے
کمال مہارت سے اس دریا کے قدرتی بہاؤ میں تبدیلی پیدا کی ہے یعنی22 کلومیٹر
سرنگ بنا کر اس کا رخ موڑ دیا ہے اب یہ دریا’ وولر جھیل ‘کے ذریعے بارہ
مولا کے مقام پر مقبوضہ کشمیر ہی میں دریائے جہلم میں ڈال دیا گیاہے۔
جس طرح پنجاب کی شان اس کے پانچ دریاؤں سے منسوب کی جاتی تھی اور اسے پانچ
دریاؤں کی سرزمین کے نام سے جانا جاتا تھا ،مگر بھارت کے مذموم مقاصد کی
بھینٹ چڑھتے ہوئے یہ سر زمین اور اس کے دریا سوکھتے جارہے ہیں اور آنے والی
نسلوں کو ہم صرف یہ ہی بتا پائیں گے کہ پنجاب پانچ دریاؤں کی سرزمین تھی
کیونکہ اس کے دامن میں پانچ دریا بہتے تھے بلکہ اسی طرح اب ہم آنے والی
نسلوں کو صرف نصابی کتب میں ہی بتا پائیں گے کہ ایک وقت تھا جب وادی نیلم
میں ایک دریا بہتا تھا جسے دریائے نیلم کہا جاتا تھا ۔
وادی نیلم کا شمار پاکستانی کشمیر کی خوبصورت ترین وادیوں میں ہوتا ہے جہاں
دریا، صاف اور ٹھنڈے پانی کے بڑے بڑے نالے، چشمے، جنگلات اور سرسبز پہاڑ
ہیں۔آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے شمال کی جانب چہلہ بانڈی پل سے
شروع ہو کر تاؤبٹ تک 240 کلومیٹر کی مسافت پر پھیلی ہوئی حسین و جمیل وادی
ہے۔ یہ وادی اپنے نام کی طرح خوبصورت ہے۔جا بجا بہتے پانی اور بلند پہاڑوں
سے گرتی آبشاریں ہیں یہ علاقہ آزادی سے قبل دراوہ کہلاتا تھا۔ آزاد حکومت
کے قیام کے 9 سال بعد 1956 میں قائم حکومت کی کابینہ میٹنگ میں غازی کشمیر
سید محمد امین گیلانی نے کشن گنگا دریا کا نام دریائے نیلم اور دراوہ کا
نام وادی نیلم تجویز کیا اور کابینہ کے فیصلے کے مطابق یہ نام تبدیل کر
دئیے گئے۔ یوں کل کا دراوہ آج کی وادی نیلم ہے۔وادی نیلم کی ایک اور خصوصیت
یہ بھی ہے جو اسے سب سے ممتاز کرتی ہے کہ یہاں یعنی اس وادی میں مون سون
بارشیں نہیں ہوتیں ۔اس کا 41 ہزار ایکڑ رقبہ دریائے نیلم سے ہی سیراب ہوتا
تھا۔یہی دریا وادی کی خوبصورتی کو چار چاند لگا تا ہے مگر افسوس اس کی
خوبصورتی اور اسکی خوشحالی کو تو جیسے کسی کی نظر لگ گئی ہے کیونکہ بھارتی
پراجیکٹ کشن گنگا ڈیم کی بدولت اس وادی سے اس کا ہر دلعزیز دریا روٹھ گیا
ہے ، اب نا وہاں دریائے نیلم بہے گا اور نہ ہی مون سون کی بارشیں ہو ں گی
جس کی وجہ سے یہ وادی اپنی شادابی کھو دے گی۔یعنی اب آنے والے وقتوں میں
دریا سوکھنے کے باعث اس وادی کا سارا حسن اجڑ جائے گا اور سر سبز و شاداب
وادی بنجر ہو جائے گی ۔الغرض ساڑھے چار لاکھ افراد کا روز گار اور زندگی
خطرے سے دوچار ہو چکی ہے۔بلکہ دریائئے جہلم میں ٹراؤٹ مچھلی کا کاروبار
کرنے والوں کا کاروبار بھی تباہ ہو جائے گا پہلے ہی یہاں کے لوگ خطِ غربت
سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھے اب مزید حالات ابتر ہو جائیں گے۔
بھارت نے آج تک کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیااور نہتے کشمریوں پر ظلم و
ستم کے پہاڑتوڑتا رہاہے ،بچارے کشمیری آزادی کے حصول کے لیے تحاریک چلاتے
ہیں مگر پھر بھی بھارت ان کو آزاد نہیں کرتا۔اصل میں کشمیر پر اسکے تسلط کا
بنیادی مقصد ہی کشمیر کے راستے پاکستان آنیوالے دریاؤں پر اپنا تسلط جمانا
تھا تاکہ ان کا پانی روک کر کسی بھی طرح پاکستان کو خشک سالی اور قحط کی
کیفیت سے دوچار کر سکے، اسی تناظر میں جب بھارت نے آبی تنازعہ کو فروغ دینا
شروع کیا تو پاکستان نے پہلی بار 1960ء میں اس تنازعہ کے حل کیلئے عالمی
بنک سے رجوع کیا چنانچہ عالمی بنک نے ثالث کی حیثیت میں دونوں ممالک کے
مابین سندھ طاس معاہدہ کرایا۔ اس میں بھی بھارت کے حق میں ڈنڈی ماری گئی
اور تین دریا راوی‘ ستلج اور بیاس مکمل طور پر بھارت کے حوالے کر دیئے گئے
جن کا پانی اپنے مصرف میں لانے کا پاکستان کا حق چھین لیا گیا جبکہ دوسرے
تین دریاؤں نیلم (چناب)‘ جہلم اور سندھ پر اس معاہدے کے تحت پاکستان کو
پہلے ڈیمز تعمیر کرنے کا حق دے کربھارت کو بھی ساتھ ہی یہ حق دے دیا گیا کہ
پاکستان کے بعد وہ بھی ان دریاؤں پر ڈیمز تعمیر کر سکتا ہے۔ شومئی قسمت کہ
پاکستان کیلئے انتہائی ضروری ہونے کے باوجود منگلا اور تربیلا ڈیم کے بعد
کوئی نیا ڈیم بنانے کی حکمت عملی ہی طے نہ کی جاسکی چنانچہ بھارِت کو ہماری
ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل گیا جس نے سندھ طاس معاہدے کا
سہارا لے کر پاکستان کے حصے میں آنیوالے متذکرہ دریاؤں پر بھی دھڑا دھڑ
ڈیمز کی تعمیر شروع کردی۔ ہمارے لئے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ
بھارت نے جب دریائے نیلم پر اپنی جانب بگلیہار ڈیم کی تعمیر مکمل کرلی تو
ہمارے آبی ماہرین گہری نیند سے بیدار ہوئے اور انہوں نے متذکرہ ڈیم کیخلاف
عالمی بنک سے رجوع کرنے کیلئے محض خانہ پری کے طور پر کیس تیار کیا جو اتنا
کمزور تھا کہ عالمی بنک کے روبرو پہلی ہی پیشی میں اس جواز کے تحت خارج
ہوگیا کہ کسی تعمیر شدہ ڈیم کو گرانے کا حکم دینا مناسب نہیں۔ ہمارے منصوبہ
سازوں نے پہلی غلطی تو پاکستان کے حصے میں آنیوالے دریاؤں پر کوئی ڈیم
تعمیر نہ کرنے کی صورت میں کی جبکہ اسکے بعد وہ پاکستان پر آبی دہشت گردی
مسلط کرنے کی بھارتی سازشوں سے بھی بے نیاز ہوگئے۔ اسی بنیاد پر ہم عالمی
بنک میں بھارت کیخلاف کوئی کیس نہ جیت سکے جبکہ بھارت کے حوصلے اتنے بلند
ہوگئے کہ اس نے پاکستان کی طرف آنیوالے دریاؤں پر مزید ڈیم تعمیر کرنا شروع
کر دیئے۔ پھر بھارتی سپریم کورٹ نے قطعی جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے
بھارتی حکومت کو پاکستان آنیوالے دریاؤں کا رخ موڑنے کی بھی اجازت دے دی
چنانچہ ایسے سازگار حالات میں ہی ہندو انتہاء پسندوں کے نمائندے بھارتی
وزیراعظم نریندر مودی کو یہ بر ملا کہنے کا موقع ملا کہ پاکستان کو پانی کے
ایک ایک قطرے سے محروم کر دیا جائیگا۔ یہ درحقیقت پاکستان مخالف بھارتی
ایجنڈے کا اہم ترین نکتہ ہے جس پر آج مودی مکمل طور پر کاربند ہے۔ درحقیقت
یہ ہمارے دشمن بھارت ہی کا ایجنڈا تھا جسے اس نے ہمارے مخصوص سیاست دانوں
کودولت کے زور پر اپنا آلہ کار بنا کر پایہ تکمیل کو پہنچایا ہے۔ اسی سازش
کے تحت کالاباغ ڈیم کی تعمیر آج تک نہیں ہو سکی۔ واضح رہے کہ جس روزبھارتی
وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیریوں کو کشن گنگا کا ’’تحفہ‘‘ دینے کے علاوہ
سٹرٹیجک اہمیت کی ایک سرنگ Tunnel کی تعمیر کا بھی افتتاح کیا۔ اس ٹنل کا
نام زوجیلا سرنگ رکھا گیا ہے۔ 14 کلو میٹر لمبی اس Tunnel کی تعمیر سے
بھارت کو کارگل سیکٹر تک تمام موسموں خاص طور پر موسم سرما میں جب کارگل
اور لیپہ کا علاقہ بھاری برف باری کی وجہ سے جموں و کشمیر سے کٹ کر رہ جاتا
ہے اور اس سے زمینی رابطہ قریباً منقطع ہو جاتا ہے۔ اب بھارت کو بآسانی ایک
محفوظ روٹ مل گیا ہے جسے بھارت سٹرٹیجک مقاصد کیلئے استعمال کرے گا۔
یعنی بھارتی حکومت ایک سے بڑھ کر ایک سازش کے تحت پاکستان کی جڑیں کمزور کر
رہی ہے اس کے بر عکس پاکستانی حکومت خواب غفلت کے مزے لوٹ رہی ہے۔یہی وجہ
ہے کہ وہ ناآج تک بھارت کو ایل او سی پر بلا اشتعال فائرنگ سے روک سکی ،اور
نا ہی بھارتی آبی جارحیت کاموثر حل نکال سکی۔اگر دیکھا جائے تو آج اگر کالا
باغ ڈیم اور اس طرح کے مزید اور ڈیمز تعمیر کر لیے جائیں تو ملک آبی بحران
سے نکل سکتا ہے ،مگر حکومت تو صرف سٹرکیں بنانے اور اورنج اور میٹرو ٹرین
بنانے کو ہی ترقی سمجھتی ہے ،بات صرف سوچ کی ہے جو بدلنے کی ضرورت ہے ورنہ
حکومتیں بدلتی رہیں گی ،حکمران آتے رہے گے مگر وہ اپنی سوچ اور مقاصد کے
تحت ہی فیصلے کرتے رہیں گے اور ملکی مفاد کو ہمیشہ پس پشت رکھیں گے تو
انڈیا اسی طرح اپنی سازشوں میں کامیاب ہوتا رہے گا اور پاکستان کو نقصان
پہنچاتا رہے گا۔کاش کہ پاکستان کی قسمت بدلنے والا حکمران اس کو نصیب ہو جو
ذاتی مفاد کی جگہ ملکی مفاد کو ترجیح دے اور بھارتی آبی و جنگی جارحیت کا
منہ توڑجواب دینے کی اہلیت رکھتا ہو۔۔۔۔ |