ایبولا نامی وائرس کا تو آپ نے سن رکھا ہوگا ایبولا
وائرس کی وبا جب 2014 اور 2016 میں افریقی ملک گانگو کے دریا ایبولا کے
نزدیک پھیلی تو اس خطرناک وائرس کے مہلک حملے کے نتیجے میں گیارہ ہزار
افراد ہلاک ہوئے تھے، ایبولا وائرس عموماً جانور سے پھیلتا ہے ، افریقہ اور
وسطی امریکا میں ایبولا کی وبا پھیلنے کے بعد آج کل بھارت میں چمگادڑ کی
وجہ نیپاہ وائرس نے دہشت پھیلا رکھی ہے
نیپاہ اور ایبولا کے ساتھ کل آٹھ بیماریاں ایسی ہیں جو جانوروں کی وجہ سے
پھیلتی ہیں ، یہ بیماریاں جانوروں سے جانوروں میں اور جانوروں سے انسانوں
میں منتقل ہونے کے بعد انسانوں میں پھیل کر وبا کی شکل اختیار کر لیتی ہے،
تاحال اس وائرس سے متاثرہ افراد کا کوئی علاج بھی دریافت نہیں ہوسکا، بھارت
کی ریاست کیرالہ میں نیپاہ وائرس کی زد میں آنے والے افراد میں سے گیارہ
ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ہسپتال میں نیپاہ وائرس کے حملے سے متاثر مریضوں کی
دیکھ بھال پر تعینات 31 سالہ نرس بھی ہلاک ہو چکی ہے ، نرس کی ہلاکت کے بعد
اس خوف سے کچھ نرسوں نے ایسے مریضوں کا علاج کرنے سے انکار کیا تھا ، جس کے
بعد بھارت میں سوشل میڈیا پر ان نرسوں اور ڈاکٹروں کو شدید تنقید کا نشانہ
بنایا گیا، بھارت کے جس علاقے میں یہ وائرس پھیلا ہے اس کے علاقے کے لوگ
ہجرت کر کے دوسرے علاقوں میں جا رہا ہیں اور اب تک تقریباً 30 کے لگ بھگ
خاندان علاقہ چھوڑ کر جا چکے ہیں
نیپاہ وائر س کے حملے سے متاثرہ انسان کے 60 سے 70 فصید امکانات موت واقعہ
ہونے کے ہوتے ہیں ، اس وائرس کے حملے سے تیز بخار ، سر میں شدید درد ، سرکا
چکرانا ، آنکھوں کی بینائی کا کم ہونا ، دھندلا پن ، سانس لینے میں تکلیف
وغیرہ ، مریض پر وائرس کا حملہ شدت سے ہوتا ہے اور مریض 24 سے 48 گھنٹوں کے
اندر میں کومے میں چلا جاتا ہے ، نیپاہ وائرس کا انفیکشن مریض کے ربط میں
آنے سے تیزی سے پھیلتا ہے،اس وجہ سے بھارت کے کوجھی کوڈ میڈیکل کالج ہسپتال
کے ڈاکٹروں نے متاثرہ مریضوں کے متعلقین کو ہستپال میں آنے سے منع کردیا ہے۔
مریضوں کو اسپیشل وارڈ میں رکھا گیا ہے، اور ہسپتال انتظامیہ اپنے ملازمین
کو بھی خاص احتیاطی تدابیر کے بغیر آنا سے منع کیا ہے۔ بھارت میں نیپاہ
وائرس کے پھیلنے کے خطر ے کے پیش نظر ریاست ہما چل پر دیش نے الرٹ اور
ایڈوائریز جاری کر دی ہیں ، بھارت میں اس وائرس کی وجہ سے بہت خوف پایا
جاتا ہے
نیپاہ وائرس کیسے پھیلتا ہے ؟
بھارت میں نیپاہ وائرس پھیلنے کی وجہ چمگادڑ ہے جو کہ مختلف پھل کھانے کی
غرض سے ان کو کتر کر چھوڑ دیتا ہے ، وہی پھل اگر کوئی انسان کھا لے تو یہ
وائرس انسان میں منتقل ہو جاتا ہے ، نیپاہ وائرس سب سے پہلے 1998 میں
ملائشیا کے گاؤں ننیپاہ میں پایا گیا تھا جس سے اس کا نام نیپاہ پڑ گیا ،جبکہ
2004 میں نیپاہ بنگلہ دیش میں بھی پھیلا تھا جس سے اموات ہوئی تھیں، جیسا
کہا جاتا نیپاہ کے پھیلاؤ کی وجہ چمگادڑ ہے ‘چمگادڑ ایک اڑنے والا مملیائی
جاندار ہے ‘ جو بچے پید ا کرنے کے ساتھ انہیں دودھ بھی پلاتا ہے ‘ چمگادڑ
کے بارے میں سب سے حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ یہ پر ندہ کھاتا پیتا بھی منہ
سے ہے اور فاضل مادوں کا اخراج بھی منہ سے ہی کرتا ہے ‘چمگادڑوں کئی اقسام
ہیں ان میں کچھ نسل کے جس کو انگریزی میں فروٹ بیٹ ، پھل کھانے والے یعنی
پھلوں کا چمگادڑ کہا جاتا ہے، اس قسم کے چگادڑ پھل سبزیاں کھا کر گزارہ
کرتے ہیں جبکہ ان میں سے دوسری قسم کے ہیں جن کو مائیکرو بیٹ کہتے ہیں یہ
چمگادڑ کیڑے مکوڑے اور زیادہ تر کھٹمل کھاتے ہیں کھٹمل انسانوں اور جانوروں
کا خون چوستے ہیں اس لیے زیادہ تر مائیکرو بیٹ چمگادڑ انہیں شوق سے کھاتے
ہیں فروٹ کھانے والے چمگادڑ سے نیپاہ وائرس پھیلتا ہے ، نیپاہ وائرس پھلوں
کے باغات میں پائی جانے والی چمگادڑوں سے پھیل رہا ہے۔ کیلا، آم اور کھجور
کے باغات چمگادڑوں کے پسندیدہ مسکن ہیں اس لیے موسمی سبزیوں کے علاوہ
کھجور،کیلے اور آم وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
نیپاہ وائرس کے خوف سے دنیا کے مختلف ممالک نے بھارت سے فروٹ اور سبزیاں
منگوانا بند کر دی ہیں خلیجی ممالک اورمتحدہ عرب امارات نے ورلڈ ہیلتھ
آرگنائزیشن کے انتباہ کے بعد انسانوں اورجانوروں کے لیے جان لیوا نیپاہ
وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بھارت سے پھل اور سبزیوں کی درآمد پر
پابندی عائد کردی ہے، کویت نے بھارت کی تمام ریاستوں سے پھل اور سبزیوں کی
درآمد پر پابندی عائد کردی ہے۔ خلیج اور مشرق وسطی کے دیگرملکوں کے ساتھ
یورپ،برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی جانب سے بھی پابندی لگائی جا
سکتی ہے۔جبکہ آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل امپورٹرز ایکسپورٹرز اینڈ
مرچنٹس ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلی نے حکومت پاکستان اور وزارت تجارت اور
پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ نیپاہ وائرس کے خطرے کے پیش
نظر پاکستان میں بھی بھارتی پھلوں اور سبزیوں کی درآمد اور فروخت پر فی
الفور پابندی عائد کی جائے۔انھوں نے کہا کہ رمضان میں پھلوں کی کھپت پوری
کرنے کے لیے کشمیر کے راستے پھل درآمد کیے جارہے ہیں بالخصوص کیلے کی مقامی
فصل نہ ہونے کی وجہ سے بھارت سے براستہ کشمیر کیلے درآمد کیے جارہے ہیں جن
پر فی الفور پابندی عائد کی جائے۔بھارت میں نیپاہ وائرس کے انفکشن کو روکنے
کے لیے چمگادڑوں کو پکڑ کر مارا جا رہا ہے جبکہ لوگوں سے اپیل کی جارہی ہے
کہ جن علاقوں میں یہ خطرناک وائرس پھیلا ہوا ہے، ان علاقوں میں لوگ کم سے
کم دو ہفتے تک اپنے رشتے داروں کے پاس نہ جائیں اور پیڑ سے گرے ان انفیکٹڈ
پھلوں کو کھانے منع کیا جارہا ہے
عموماً باغات میں زمین پر گرے ہوئے پھل لوگ اٹھا کر بغیر صاف کیے اور دیکھ
بھال کیے بغیر کھا لیتے ہیں دیہاتوں میں اکثر بچے باغات میں گرے ہوئے آم
اور دیگر پھل کھا لیتے ہیں ، اس بارے والدین کو احتیاط کرنی چاہیے ہمارے
ملک میں تاحال اس وائرس کا خطرہ تو نہیں لیکن چمگادڑ تو ہمارے ہاں بھی پائے
جاتے ہیں ، بازار سے پھل خریدتے وقت دیکھا بھال کر خریدیں، کٹ لگے کترے
ہوئے پھل اور سبزیاں ہرگز نہ خریدیں
|