نواز شریف جب کہتے ہیں کہ ان کے سینے میں بڑے راز دفن ہیں
تو ان کے مخالفین انہیں کئی طرح کے طعنے دینے لگتے ہیں۔کہتے ہیں کہ یہ راز
بتاتے کیوں نہیں۔آپ نے اپنے اختیارات کیوں استعمال نہیں کیے۔کیوں کر سازشو
ں پر خاموش رہے، وغیرہ وغیرہ ، حیرانگی ا ن لوگوں کی طرف سے طعنہ زنی پر
ہوتی ہے جو اس سارے گھن چکر کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔اس کے شکار رہے ہیں۔یا
اس کا کبھی نہ کبھی کچھ حصہ بنے رہے۔اصل میں یہ طعنہ زنی اس سبب نہیں کہ
سابق وزیر اعظم کچھ جھوٹ کہتے ہیں۔ مسئلہ کچھ اور ہے۔دراصل انہیں نوازشریف
کی اس بغاوت سے منہ میں آتی چھننے کا خوف ہے۔یہ غلام ابن غلام لوگ کسی قسم
کی بغاو ت کا سوچ بھی نہیں سکتے۔انہیں تو جھوٹے اور بچے کھچے پر گزاراکرنے
کی عادت ہے۔اسی لیے وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اوٹ پٹانگ بیان بازیاں کرتے
رہتے ہیں۔جہاں تک نوازشریف کے دھرنا اول کے وقت چپ رہنے کی بات ہے۔وقت نے
ثابت کیا کہ وہ عین مناسب تھا۔تب واقفان حال تو سب کچھ جانتے تھے۔مگر بھولی
بالی خلق خدا کو کچھ مغالطہ تھا۔نوازشریف کی تب کی چپ آج وہ مغالطہ دور
کرنے میں کامیاب رہی ہے۔اگر وہ تب کوئی ہنگامی اقدام کرتے تو عام آدمی
انہیں جلد بازی اور بے صبرے پن میں مبتلا قرار دیتا۔ان پر الزام لگتا کہ
انتقام نے پاگل کردیا۔آج عام آدمی تب کی چپ کے اسباب سمجھ چکاہے۔اسے پتہ چل
چکا ہے کہ کس طر ح عوامی مینڈیٹ کو قدم قدم پر روندنے کی کوششیں ہوئیں۔اب
نوازشریف جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں۔عام آدمی تسلیم کرتاچلا جارہاہے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ کرپٹ حکومت سے نجات پر قوم
شکرانے کے نوافل اداکریے۔اللہ نے چاہا تو اب شریف مافیاسے مستقل نجات مل
جائے گی۔قوم آج مٹھائی بانٹے۔پاکستان کی تاریخ میں اتنی نااہل اور کرپٹ
حکومت کبھی نہیں آئی۔ملکی سیاست میں ایک تاریک اور سیاہ رات کا خاتمہ ہورہا
ہے۔مذید براں عمران خاں نے اسلام آبا دسے مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اشرف
گجر کے تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد انہیں عدالتی اصلاحات کمیٹی کے
کنوینر کی ذمہ داری سونپ دی۔عمران خاں کی طرف سے نوازشریف حکومت کی معیاد
ختم ہونے پر عوام سے مٹھائی بانٹنے کی ہدایت عجب ہے۔وہ اس حکومت کے خاتمے
پر مٹھائیاں بانٹنے کی بات کررہے ہیں۔جس نے عوام کو ریلیف دیا۔اس کارکردگی
پر تو اس حکوتت کے جانے پر تکلیف کا اظہار بنتاہے۔مگر خاں صاحب کی ترجیح ہی
الٹی رہی ہے۔وہ مٹھائی بانٹنے او رجشن منانے کی بات کرتے ہیں۔
انہیں تب مٹھائی تقسیم کرنے کی ہدایت کرنا یادنہیں رہا۔جب ایسی حکومتوں کا
احتتام ہوا جنہوں نے عوام کا ناطقہ بند کیے رکھا۔یہاں ایسا دور بھی گزرا جب
ملک میں جنگل کا قانون تھا۔جب ایک شخص جسے چاہے جج بنادیتا۔جسے چاہے الیکشن
لرنے دیتا۔جسے چاہے الیکشن لڑنے سے روک لیتا۔اس دور کے خاتمے پر قوم جشن
منانا چاہتی تھی۔مگر عمران خاں تب خاموش رہے۔پھر ایک دور آیاجب لوٹ مار ایک
حکومتی پالیسی بنی رہی ۔سب سے کرپٹ بندے کو سب سے اونچے عہدے پر لگایا
جاتارہا۔تب چن چن کر محتسبوں اور اہل عدل کو مفلوج کیا جاتارہا۔اس لیے کہ
وہ لوٹ مار اور بے ایمانی کے کھیل میں رکاوٹ تھے۔حیران کن طور پر خاں صاحب
تب بھی چپ رہے۔
قوم اب عمران خاں کی باتوں پر کان نہیں دھررہی ۔خاں صاحب کی باتوں میں دلیل
کی بجائے پرچی کااثر زیادہ پایا گیا ہے یوں محسوس ہوا جیسے وہ معاملات کو
حقائق کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے کسی طر ف سے آنے والے اشارے پر پرکھتے
ہیں۔خاں صاحب نے مسلسل ایسے فیصلے کیے جو رائے عامہ کے خلاف تھے۔ایسے
بیسیوں بیان آئے جو عوامی سوچ سے میچ نہیں کرتے۔اسی سیاست کے سبب اب ان کی
باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ۔عمران خاں کو ان کی اس سیاست نے اب تک
خالی ہاتھ رکھا ہے ۔ ان کی ساری دھوڑ دھوپ کسی نہ کسی بہانے سے اکارت چلی
جاتی ہے۔اب بھی جبکہ نئے الیکشن ہونے جارہے ہیں۔خاں صاحب خالی ہاتھ دکھائی
دیتے ہیں۔وہ جس تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعرے پر تکیہ کیے ہوئے تھے۔ان کی
بار بار کی کہہ مکرنیوں میں کہیں گم ہوچکا۔ایک طرف تو نوازشریف ہیں جو ابھی
تک ڈٹے ہوئے ہین۔قو م ان کی باتوں پر کان دھر رہی ہے۔اس درانی انکشافات نے
سابق وزیر اعظم کے اس بلنڈر کو شاندار حکمت عملی میں بدل ڈالا جو پاکستان
میں جمہوری حکومتوں کی بے بسی سے متعلق تھا۔نوازشریف کو پہلے ہی ان کی
حکومتی کارکردگی کے سبب قوم میں پزیرائی حاصل تھی۔اب جوں جوں نوازشریف کو
درپیش مسائل سامنے آرہے ہیں۔قوم کی ہمدردیاں بڑھ رہی ہیں۔دوسری طرف عمران
خاں کی پوزیشن دن بدن کمزور ہورہی ہے۔اب وہ کھل کر صرف اور صر ف نوازشریف
کو کمزور کرو ایجنڈے پر کھڑے نظر آتے ہیں۔قوم سمجھتی ہے کہ نوازشریف ہی اصل
میں نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔اور تحریک انصا ف کے لوگ ان کی راہ میں
رکاوٹ بننے والوں کے دست وبازو بنے ہوئے ہیں۔اب اگر عمران تبدیلی او
رانقلاب کی باتیں کرتے ہیں تو سنجیدہ طبقے صرف مسکراکررہ جاتے ہیں۔انہیں
یقین ہے ان الیکشن کے بعد عمران خاں کے پاس بھی سوائے ادھوری مسکراہٹ کے
کچھ نہ بچے گا۔یہ ادھور ی مسکراہٹ تب چہرے پر آتی ہے جب بندہ سب کچھ گنو
اکر بھی خالی ہاتھ رہ جائے۔ |