جیسے جیسے عید کے ایام قریب آتے ہیں آپ نے دیکھا ہوگا کہ
لوگوں کا ایک جمِ غفیر بازاروں کا رخ کرتا ہے۔
جہاں کچھ پرہیز گار لوگ مساجد میں رمضان کے آخری ایام میں اعتکاف اور خصوصی
عبادات کا اہتمام کر تے ہیں وہاں سارا دن سنسان رہنے والے بازار بھی وقتِ
افطار کے گزرتے ہی مردوزن سے اٹ جاتے ہیں۔۔
ایسے میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ مُحلے کا سب سے میلا کُچیلا لونڈا بھی جو کہ
جمعہ کے روز بھی ایسی حالت میں مسجد میں پایا جاتا ہے کہ جیسے باہر کھڑا
غباروں والا سائیکل انہیں ناہنجار کا ہے، وہ موصوف بھی ان ایام میں نہا دھو
کر ، بالوں میں تیز خوشبو والا تیل جھس کر اسکے دکڑ دھوس قسم کے اسٹائل بنا
کر تانکا جانکی کی مشق کرتے نظر آئیں گے اور ایسے میں بدبختی سے اگر کوئی
کہنہ مشق فریق ٹکر جائے تو موصوف زنانہ چپلوں سے دھنائی کرواتے بھی دیکھے
جاسکتے ہیں۔
مزید برآں یہ کہ ہر لونڈا اپنے اپنے فن کا اظہار کرنے پر تُلا ہوتا ہے ،
ایڑھیاں ہیں کہ زمین پر لگنے کا نام نہیں لیتی،کوئی سر پر تکونی ٹوپی لے کر
اور چشمے لگا کر ہنی سِنگ بنا ہوتا ہے تو کوئی گلے میں لوہے کی زنجیر اور
قمیض شلوار کے نیچے جوگر پہن کر اپنے طرف سے وین ڈیزل بنا ہوتا ہے کسی نے
اپنے ہچکے ہوئے گالوں میں آدھا کلو کی پان اڑسی ہوتی ہے تو کسی نے آنکھوں
میں آدھا کلو سُرمہ اُنڈیلا ہوتا ہے اور ان کی گستاخیاں مختلف دوشیزاؤں پہ
آزما نے کی ناکام کوشش میں لگا ہوتا ہے۔۔
اور ایسے میں گھر میں کسی وجہ سے رہ جانے والے نوجوان بھی ہاتھ ہولا نہیں
رکھتے بلکہ یہ بھی نا جانے کس نا بکار شاعر کی شاعری ٹیکسٹ میسج کی صورت
میں لکھ لکھ کر نئی پوند کےدل مچلا رے ہوتے ہیں۔
ایک کہاوت تو سنی ہوگی کہ 'بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سُبحان اللّٰہ'
تو لیجیے آپ دورِ حاضر کے چھوٹے میاں ملاحظہ فرمالیجیے ، ایک ہمارا بچپن
تھا کہ کوئی راستہ پوچھ لیتا تھا تو کسی بھی قریبی گھر میں دبک کر بیٹھے
رہتے تھے مگر آجکل کی پوند اس معاملے میں حد درجہ ایڈوانس ثابت ہوئی ہے
مثلاً چلتے چلتے آپکے ہاتھ سے آیس کریم اچک کر لے جائیں گے ، ڈیڑھ انچ کا
نومولود قسم کا بچہ موٹر سائیکل پر آپکو اوور ٹیک کرتےہوئے گزر جائے گا اس
پر مہیب افتاد یہ کہ کانوں میں ہیڈ فون اڑیس رکھے ہوتے ہیں اور بے سری سی
اور نیم زنانہ آواز نکالنے میں اپنی پیٹھ تک کا زور لگا تے نظر آتے ہیں ۔۔
خیر خریداری اپنے زوروں پر ہے
بات خریداری کی ہے تو ایسے میں سب سے پہلے جو شے برسبیلِ تذکرہ آتی ہے تو
وہ ہیں خواتین ۔ جن میں سے سب سے پہلے آتی ہیں وہ خواتین جن کی شاپنگ؛ خُدا
شاہد ہے کہ کبھی پوری نہیں ہوتی بھلے میاں حضرات پورا رمضان باقاعدگی سے
شاپنگ کرواتے کرواتے کنگال ہو جائیں مگر پھر بھی خاتونِ خانہ کی زبان ہر
یہی شکوہ زدِ عام رہتا ہے کہ میں تو آپ کے ساتھ شادی کر کے برباد ہی ہوگئی
یا آپ تو پرلے درجے کے کنجوس ہوگئے ہیں شادی سے پہلے تو ایسے نہ تھے وغیرہ
وغیرہ۔
اور ایسے میں مظلوم خاوند حضرات اگر آسٹریلیا کے میچ کے بارے میں بھی کسی
سوچ میں گم پائے جائیں تو پھر تو اس صورت میں بھی انکی شامتِ اعمال ، ان کی
اس حماقت کو بھی ایسے طعنوں کا نام دیا جاتا ہے
ہے مثلاً یہ کہ'ابھی پڑے کس ماں کے بارے میں سوچ رہے ہو، ہاں وہی جو فلاں
پلازے میں بڑا پھدک پھدک کر اصرارا کررہی تھی کہ لے لیں سر لے لیں یہ
آرٹیکل نیا آیا ہے۔۔ڈائن کہیں کی!!'
دوسری قسم کی خواتین میں ایسی خواتین آتی ہیں کہ جو گھر سے تو سبزی لینے
آتی ہیں مگر ہر دوکان پر جاکر شیلف میں لگی ساری کی ساری چپلیں پہن کر چیک
کرینگی اور کپڑے کی ساری کی ساری نئی ورائٹی کو ازبر کرنے کے بعد بھی لیتی
ویتی کچھ نہیں بس واپسی پہ دو کلو بھنڈی اور کلو پیاز لے کر گھر کا راستہ
پکڑ جاتی ہیں ایسی خواتین بیشتر اوقات آپکو چادر کی بکل مارے نظر آئیں گی
اور نشانی یہ ہے کہ بھاری بھر کم جُسّہ، پسینے سے شرابور اور پاؤں میں بڑے
بکل والی تین سال پرانی جوتیاں اور ہاتھ میں بڑا سا خالی پرس اور بغل میں
وہی بارہ سالہ بچہ جو ہر دوکان پہ جا کر یہی سوچ رہا ہوتا ہے کہیں اماں کی
ان نادیدہ حرکات و سکنات کی وجہ سے کہیں دوکاندار اسکی دھلائی نہ کر دے۔
چلیے یہ تو ہوئیں ونڈو شاپنگ والی خواتین، خواتین میں ایک تیسری قسم بھی
ہوتی ہے تو وہ ہیں ایسی خواتین کہ جنہوں نے واقعتاً کچھ خریدنا ہوتا ہے تو
ایسی خواتین ہرگز اکیلے میں وارد نہیں ہوتی کم از کم تین سے چار مددگار ،
تجربہ کار اور بحث ومباحثہ میں خصوسی عبو ررکھنے والی خواتین کو ساتھ میں
لیکر تشریف لاتی ہیں اور ماشاءاللّٰہ ریٹ ایسا لگائیں گی کہ دوکاندار سٹپٹا
جائے مثلاً دو ہزار کے چیز کے پانچ سو روپے دینے پہ تُلی ہوتی ہیں وہ تو
بھلا ہو اس شخص کا کہ جس نے فکسڈ پرائس والی روایت
شروع کردی وفرنہ آج آدھے سے زیادہ دوکاندار باؤلے ہو چکے ہوتے۔
خواتین کے بعد اتا ہے ان لڑکیوں کا نمبر جو کہ کھلے بالوں کے ساتھ میک اپ
کی دبیز تہہ چڑھائے گروہوں کی صورت میں شاپنگ مال میں جا بجا مٹر گشت کرتی
نظرآتی ہیں اور غالباً اقبال نے ایسے ہی موقع پر کہا تھا
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رونق
چھوڑیے بہت ہو ہوگئیں خواتین و حضرات کی باتیں بھلا ہم کون ہوتے ہیں انکے
ذاتی معاملات میں ٹانگ اڑانے والے؟تو لیجیے ابھی ذرا آپ بازار کا ایک منظر
ملاحظہ فرما لیں تو میاں بازار میں رش کا عالم یہ ہوتا ہے کہ مردوزن کا
کوئی فرق روا۔ نہیں رہتا اور ایسے میں نئی پوند کا کوئی نہ کوئی شگوفہ موٹر
بائیک کا سائلینسر نکلوا کر لگاتار گھڑیں ں ں ں گھڑیں ں ں کا راگ الاپے
ہوتا ہے ، بھیڑ ہے کہ اس سے مسلسل دق ہو رہی ہے ایسا لونڈہ اکثر وبیشتر کسی
تپے ہوئے چاچے سے دو چار تھپڑ مفت میں ہی کھا لیتا ہے ۔
اکثر جگہوں پر جہاں مردوزن کا ایک جم غفیرِ عظیم ہوتا ہے وہاں کہیں سے کسی
خاتون کی تلملاتی ہوئی تیز آواز گونج رہی ہوتی ہے' ہائےہائے !! نامردودو
اندھے ہوگئے ہو کیا!'
اتنے میں کوئی ہیولا آئے گا اور نہایت چستی سے آپ کے نزدیک سے گزر جائیگا
اور آپ اسکی اس پھرتی پر سر دھننے پر مجبور ہو جائیں گے کہ میاں دیکھو ایسے
لوگ بھی ہیں کہ اپنے کام سے کام نہ کسی کو نادیدوں کی طرح تاڑااور نہ ہی
اچک کر پیچھے مڑ مڑ کر دیکھا مگر یہ خیال صرف تب تک ہی رہتا ہے کہ جب تک آپ
اپنی جیب کا خالی پن محسوس نہ کر لیں نتیجتاً گالیاں۔۔
سارا دن سستی اور کسالت میں جمائیوں پہ جمائیاں لے کر اپنا جبڑا توڑ نے
والے دوکاندار بھی شام ڈھلتے ہی نہانے دھونے اور عطر کا اہتمام کرنے کے بعد
ہنس ہنس کر اپنے گاہکوں کو میٹھی چھری پھیرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
چوڑیوں اور جیولری والوں کے مٹیالہ اور زردی مائل برقی قمقمے خواتین کی
آنکھوں کو خیرا کر رہی ہوتی ہیں۔
درزی 'بکنگ بند ہے 'کے بورڈ کے علاوہ اپنے موبائل فون کو سائلنٹ پر لگا کر
اپنے کام میں مصروف ہیں اور ایسے میں اگر آپ کوئی جوڑا سلائی کروانے کے لیے
تشریف لے جائیں تو آپ انکی قہر زدہ نظروں کے عین مستحق گردانے جاتے ہیں۔
بیوٹی سیلون والے اور والیاں مردوزن کے نرالے نمونے بنا بنا کر نکال رہے
ہیں اور خواتین اپنے دونوں ہاتھوں کو ہرا کرواکے آرہی ہیں ایسے میں اگر
'گُڈو' کوئی نٹ کھٹ سی شرارت کردے تو وہی ہاتھ اسکی گال پہ رسید کرنے کے
بعد سوچتی ہیں کہ ہاتھ پر تو مہندی لگی تھی ضمناً دو تین چانٹے اور۔۔
باربی کیو، پھینیاں، مٹھائیاں اور طرح طرح کے پکوان لوگوں کی توجہ کا مرکز
بنے رہتے ہیں ۔۔
بھیڑ میں کہیں کہیں آپکو دو ٹانگوں والے مال بردار گدھے بھی نظر آئیں گے۔
کہیں کہیں پکڈنڈی پر کوئی سیل سیل الاپ رہا ہوگا جس پر خواتین اندھا دھند
لپک رہی ہوتی ہیں۔
کہیں کہیں کچھ نوجوان ٹولیوں کی صورت میں گُلچھرے اڑاتے ہوئے برآمد ہوتے
ہیں اور ہی ہی ہو ہو ہا ہا کرتے گزر جاتے ہیں۔
اگرچہ ایسے طوفانِ بدتمیزی میں شریف طبع انسان بازاروں کا رخ کم ہی کرتے
ہیں مگر پھر بھی اگر انکا گزر یہاں سے ہو جائے تو وہ ان رنگینیوں کو آکھیوں
کے کناروں سے تاڑنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں ۔
بہر کیف جو بھی بازارکے اس پار سے اس پار جانے کا ارادہ رکھتا ہے وہ گھر سے
یہ سوچ کر آئے کہ ڈھائی تین سو دھکوں سے کم میں تو یہ سمندر ہرگز ہرگز عبور
نہیں ہوگاجبکہ لباس ، جیب اور جوتے کی سلامتی کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔۔
خیر باشد |