ایک دفعہ کا ذکر ہے لاہور کے ایک چھوٹے سے محلے کے ایک
چھوٹے سے گھر میں ایک چھوٹی سی لڑکی رہتی تھی جس کا نام زرِّین تھا۔ آج
زرّین بہت اداس تھی۔ وہ والی اداس نہیں جو آپ آئس کریم نہ ملنے سے ہو جاتے
ہیں۔ زرّین اداس تھی کیونکہ آج اُس کے بابا ایک ماہ کی چھٹیاں گزار کر باہر
واپس جا رہے تھے۔ ارے گھر سے باہر نہیں، ملک سے باہر۔ چھٹیوں کے علاوہ پورا
سال زرّین کے بابا اُس سے کہیں دُور ہی رہتے تھے، اور یہی ایک ماہ ہوتا تھا
جس میں وہ اُن کے ساتھ باتیں کرتی، کھیلتی، پارک جاتی، آئس کریم کھاتی۔
ویسے آئس کریم تو وہ ماما کے ساتھ بھی خوب کھاتی تھی پر بابا کے ساتھ اِن
سب کاموں کا اپنا ہی مزہ تھا۔ اِن چھٹیوں میں اگر ایک خرابی تھی تو وہ یہ
کہ یہ چھٹیاں ختم بہت جلدی ہو جاتی تھیں اور زرّین کی ہزاروں چُپکے چُپکے
کی گئی دعائیں اِنہیں کھینچ کر "ہمیشہ ہمیشہ" میں تبدیل نہیں کر پاتی تھیں۔
پچھلے سالوں کی طرح آج بھی چھٹیوں کا آخری دن آ پہنچا تھا اور وہ صبح سے ہی
بابا کے ساتھ نتھی ہو گئی تھی۔ بابا کے بار بار گلے لگانے اور اگلی چھٹیوں
کے لئے فرمائشوں کی فہرست مانگنے کے باوجود تقریباََ سارا دن ہی بوجھل گزرا
تھا۔ اور اب گھر کے باہر ماموں کی گاڑی تیار کھڑی تھی جس میں زرّین، ماما
اور ماموں نے بابا کو ایئرپورٹ چھوڑنے جانا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی زرّین
سب کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوئی اور راستے میں گزرنے والی روشنیوں کو دیکھنے
لگی۔ ائیرپورٹ پر بابا کو خدا حافظ کہتے ہوئے اُس کے ذہن میں ماما کا دیا
ہوا سبق گھوم رہا تھا ("تم اب بڑی ہو گئی ہو، بڑے بچے مضبوط ہوتے ہیں، روتے
نہیں ہیں")۔ پہلے تو زرّین نے اپنے مضبوط ہونے کا بھرپور ثبوت دیا، پر جب
اُس نے دیکھا کہ مُڑتے مُڑتے ایک لمحے کے لئے بابا بھی چھوٹے بچے بن گئے
تھے تو اُس سے رہا نہ گیا اور ماما سے چپک کر زور زور سے رونے لگی۔
گھر واپس آ کر وہ اپنے کمرے میں روتے روتے سو گئی۔ نہ جانے رات کا کون سا
پہر تھا جب اُس کی آنکھ کھلی۔ اُسے ایسے لگا جیسے ایک چھوٹا سا پرندہ اُس
کی کھڑکی میں چہچہا رہا ہے۔ پر جلد ہی پرندے کی آواز غائب ہو گئی۔ زرّین نے
منہ چادر سے نکال کر کھڑکی کی طرف دیکھا۔ باہر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔
پر اب اُس کی توجہ پوری کی پوری اُس لکڑی کے ڈبے کی طرف تھی جو کھڑکی کے
قریب پڑا ہوا تھا۔ لکڑی کے تختوں کے بیچ کہیں کہیں روشنی کی سنہری کرنیں
باہر جھانک رہی تھیں۔
"یہ ڈبہ کہاں سے آیا؟"، زرّین سوچنے لگی۔ پہلے تو اُسے ڈبے سے خوف آیا مگر
جلد ہی ایک اور خیال اُس کے ذہن میں اُبھرنے لگا۔
"ضرور بابا نے میرے لئے تحفہ چھوڑا ہو گا!"
وہ بستر سے نکلی اور دبے پاؤں چمکتے ڈبے کی طرف بڑھی۔ تختوں کے بیچ سے
نکلتی روشنی اب اُسے صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ قریب پہنچ کر اُس نے بڑی
احتیاط سے ڈبےکو کھولا۔ روشنی کی تیز کرنیں اُس کی آنکھوں میں زور سے
چبھیں۔ ایک لمحہ آنکھیں بند رکھنے کے بعد اُس نے دوبارہ کھولیں تو اب اُسے
بہتر طریقے سے نظر آ رہا تھا۔ سوچے سمجھے بغیر اُس نے پہلے ایک اور پھر
دوسرا پاؤں ڈبے کے اندر رکھا اور اگلے ہی لمحے مکمل اندھیرا ہو گیا۔ زرّین
چپ چاپ اپنی جگہ کھڑی رہی۔ کچھ دیر میں اُس کی آنکھیں اندھیرے کی عادی ہونے
لگیں تو اُسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے کمرے میں نہیں ہے۔ اندھیرے میں ابھی صرف
اُسے ایک کونے میں دیوار سے لگا ڈیسک ہی نظر آ رہا تھا۔ ڈیسک پر دائیں جانب
شاید کسی تصویر کا بڑا سا فریم پڑا تھا۔ کمرے کا منظر اُسے کہیں دیکھا
دیکھا لگ رہا تھا۔ جیسے کسی پینٹنگ یا خواب میں دیکھا ہو۔ وہ خاموشی سے
ڈیسک کی طرف بڑھی اور فریم میں لگی تصویر کو غور سے دیکھنے لگی۔ ایک بچی
اپنے باپ کے کندھوں پر بیٹھی تھی۔ تصویر پہچان کر زرّین اچانک اُچھل پڑی
"ہائے، یہ تو بابا کا کمرہ ہے!"
اِس سے پہلے کہ زرّین مزید کچھ سوچ پاتی کمرے کا دروازہ باہر سے کُھلا اور
اُس کے بابا اپنا سامان سنبھالے اندر داخل ہوئے۔ زرّین تیزی سے دروازے کی
طرف لپکی تا کہ پورے زور سے بابا سے لپٹ جائے، پر وہ جیسے کھڑکی میں روشنی
کی طرح اُن کے اندر سے گزر گئی۔ بابا اُس کی اِس حرکت سے بے خبر آگے بڑھے
اور اپنا بیگ اور سوٹ کیس کمرے کی ایک جانب رکھنے لگے۔ تب زرّین کو احساس
ہوا کہ بابا اُسے نہیں دیکھ سکتے۔ سامان سلیقے سے رکھنے کے بعد بابا نے سب
سے پہلے ڈیسک پر پڑا فریم اُٹھایا اور ایک صوفہ نما سیٹ میں بیٹھ کر فریم
میں لگی تصویر پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگے۔ ایک بار پھر زرّین کا دل چاہا
کہ وہ اُچھل کر بابا کے گلے لگ جائے۔ پر اب وہ جان چُکی تھی کہ ایسا کرنا
ناممکن ہے۔ اچانک پرندے کی آواز ایک بار پھر سنائی دی اور زرّین کی آنکھ
کُھل گئی۔ وہ اپنے بستر میں لیٹی ہوئی تھی۔ باہر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی
تھی۔ پر اب سنہری صندوق کمرے میں نہیں تھا۔ اُس نے صبح ماما سے اِس کا ذکر
بھی نہ کیا۔ اگلی رات دوبارہ پرندے کی چہچہاہٹ نے اُسے جگا دیا اور سُنہری
صندوق ایک بار پھر اُس کے کمرے میں تھا۔ اِس کے بعد تو باقاعدہ سلسلہ چل
نکلا۔ ہر رات وہ سنہری صندوق میں اترتی اور چند لمحوں کے لئے بابا کو دیکھ
آتی۔ یہ لمحے اُسے بہت ہی پیارے تھے اور وہ روز اِس جھلک کا انتظار کرتی۔
ماما کو بتانے کا خیال جب بھی آتا تو وہ اِس خیال کو یہ سوچ کر ترک کر دیتی
کہ کہیں سنہری صندوق اُس سے چِھن ہی نہ جائے۔
یونہی ایک رات جب وہ پہنچی تو بابا فون پر کسی سے بات کر رہے تھے۔
"بس میں نے مینیجر سے کہہ دیا ہے اگر اُس نے اجازت نہ دی تو میں پکا ملک
واپس جا رہا ہوں"
خوشی کے مارے زرّین کی چیخ نکل گئی۔ اُس نے پہلے تو فوراََ اپنے منہ پر
ہاتھ رکھا پر اگلے ہی لمحے خود پر ہنسنے لگی
"بابا کون سا سُن سکتے ہیں میری آواز!"
اگلے کئی روز اُس نے اللہ میاں سے خوب دعائیں کیں۔ سوتے جاگتے، ماما کے
ساتھ مصلّے پر بیٹھے، چلتے پھرتے،
"یا اللہ مینیجر انکل اجازت نہ دیں، یا اللہ مینیجر انکل اجازت نہ دیں"
کئی دن یوں ہی گزر گئے اور ایک رات زرّین زور زور سے روتی ہوئی اُٹھی۔ اُس
کی ماما دوڑتی ہوئی آئیں اور اُسے سینے سے لگا لیا۔
"کیا ہوا؟ ڈر گئی خواب میں؟"
ہچکیوں کے بیچ زرّین اپنی بات کرتی چلی گئی
"ماما میں نے اتنی زیادہ دعائیں کی تھیں۔ اتنی زیادہ۔ پر اللہ میاں نے میری
دعا نہیں سُنی۔ بابا فون پر کہہ رہے تھے کہ مینیجر نے اجازت دے دی ہے۔ ماما
اب وہ پکے واپس نہیں آئیں گے۔"
ماما حیران رہ گئیں۔
"تمہاری کب بات ہوئی بابا سے؟"
"ماما، وہ پرندہ، صندوق، روشنی، بابا"
ماما کو سب کچھ بتانے کی کوشش میں زرّین کچھ بھی ٹھیک سے بتا نہ پا رہی
تھی۔
"ارے تم نے ہماری باتیں سُن لی ہوں گی۔ کچھ دیر پہلے تمہارے بابا کا فون
آیا تھا۔ کہہ رہے تھے اُنہیں فیملی ویزہ مل گیا ہے۔ اب وہ یہاں نہیں آئیں
گے، ہم اُن کے پاس جائیں گے، اور پورا سال اُن کے ساتھ رہیں گے۔"
"پورا سال؟"
زرّین زور سے چلائی۔
"پورا سال!"
ماما بھی زرّین ہی کے انداز میں چہک اُٹھیں۔
اگلی رات معمول کے مطابق پرندے کی آواز سے زرّین کی آنکھ کُھلی۔ وہ اُٹھ کر
ڈبے کی طرف بڑھنے ہی والی تھی کہ کچھ دیکھ کر دوبارہ بستر میں سمٹ گئی۔ آج
کمرے میں کوئی اور بھی موجود تھا۔ ڈبے کے ایک جانب ایک بوڑھی عورت کھڑی
تھی، جس نے ایک بڑا سا سیاہ چوغہ پہن رکھا تھا۔ بڑھیا کے کندھوں پر ایک سبز
چادر تھی جس میں بالکل روشنی کی کرنوں کی طرح دمکتی سُنہری پٹیاں دوڑ رہی
تھیں۔ بڑھیا کے ہاتھ میں ایک بڑا سا تھیلا تھا۔ زرّین کی طرف دیکھے بغیر وہ
صندوق اُٹھا کر تھیلے میں ڈالنے ہی والی تھی کہ زرّین بے قابو ہو کر بول
اُٹھی
"یہ میرے بابا اور میرا صندوق ہے، پلیز اِسے مت لے جاؤ"
اب پہلی بار بڑھیا زرّین کی جانب مُڑی۔ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی
"پر پیاری بیٹی اب آپ تو اپنے بابا کے پاس جا رہی ہو نا، آپ کو اِس کی کیا
ضرورت!"
"تَو آپ اِس کا کیا کرو گی؟"، زرّین سے رہا نہ گیا۔
"اب یہ میں کسی اور بچے کو دوں گی، جسے اِس وقت اِس کی ضرورت ہو"
اب زرّین کچھ دلیر ہونے لگی
"پر پلیز آپ یہ میرے پاس رہنے دیں نا"
معصوم التجا سُن کر بڑھیا کچھ سوچنے لگی۔ پھر بولی
"اچھا، ایک بات طے کرتے ہیں۔ میں اِسے تمہارے پاس چھوڑ دیتی ہوں۔ اور جب تک
تم اسے اچھے کاموں کے لئے استعمال کرو گی یہ تمہارے پاس ہی رہے گا۔ مگر
جب۔۔۔"
"میں بالکل اچھے کاموں کے لئے استعمال کروں گی۔ پکا وعدہ۔"
زرّین کو معلوم تھا کہ کسی کی بات کاٹنا اچھی بات نہیں پر اِس وقت صبر
ناممکن تھا۔
بڑھیا ایک بار پھر مسکرائی۔ اُس نے صندوق فرش پر رکھا اور پلک چھپک میں ایک
چھوٹے سے پرندے میں تبدیل ہو کر کھڑکی سے باہر اُڑ گئی۔ بڑھیا کے جاتے ہی
زرّین صندوق کی طرف لپکی۔ اُسے اپنے بابا کو دیکھنا تھا۔ پر اِس بار وہ ڈبے
میں اُتری تو وہ بابا کے کمرے میں نہیں تھی۔ یہ جگہ بہت مختلف تھی۔ ایک تنگ
سا حبس زدہ کمرہ جس کے ایک کونے میں چھوٹا سا دِیا پڑا تھا۔ کمرے کی
دیواروں سے پینٹ اور پلستر جگہ جگہ اُکھڑے ہوئے تھے اور دو تین چارپائیاں
دیواروں سے لگی ہوئی تھیں۔ اِن میں ایک چارپائی کے کونے پر ایک بچی بیٹھی
رو رہی تھی۔ پاس بیٹھی اُس کی ماں اُسے دلاسا دے رہی تھی۔
"سب مذاق اُڑاتے ہیں میرا۔ 'گندے کپڑے، پھاٹا بیگ' کہتے ہیں مجھے"
گندے کپڑے، پھاٹا بیگ؟ زرّین چونک اُٹھی۔ یہ لڑکی زرّین ہی کی کلاس میں تو
پڑھتی تھی۔
اگلے روز زرّین سکول گئی تو اپنی سب سے آگے والی سیٹ پر بیٹھنے کی بجائے سب
سے پچھلی صف میں سب سے الگ تھلگ بیٹھی پھٹے بیگ والی لڑکی کے ساتھ بیٹھ
گئی۔ لڑکی نے ڈرتے ڈرتے زرّین کی طرف دیکھا جیسے ابھی زرّین "گندے کپڑے
پھاٹا بیگ، گندے کپڑے پھاٹا بیگ" چلاتی ہوئی اُس کے پاس سے بھاگ جائے گی۔
پر زرّین کے منہ سے کچھ اور ہی نکلا
"تمہیں اشٹاپو کھیلنا آتا ہے؟"
"ہاں۔۔۔۔۔ م۔۔۔۔گر۔۔۔۔ ٹھی۔۔ ک ۔۔۔ سے۔۔۔ نہیں"
لڑکی نے ٹوٹے الفاظ میں جواب دیا۔
"بس ٹھیک ہے، بریک میں کھیلیں گے۔ میں سکھا دُوں گی"
اور اُس دن زرّین اور پھٹے بیگ والی نے خوب اشٹاپو کھیلا، یہاں تک کہ اُن
کے پاؤں دُکھنے لگے۔ چند دنوں میں زرّین کی دوسری سہیلیاں بھی پھٹے بیگ
والی کے ساتھ کھیلنے لگیں اور پھر ایک دن زرّین اپنے بابا کے پاس چلی گئی۔
تو یہ تھی کہانی زرّین اور سنہری صندوق کی۔ کہتے ہیں کہ ایک طویل عرصہ باہر
رہنے کے بعد زرّین پاکستان واپس لوٹ آئی۔ اُس نے بڑھیا سے کِیا اپنا وعدہ
بھی پورا کیا اور سُنہری صندوق کو ہمیشہ اچھے کاموں کے لئے استعمال کیا۔
سُنا ہے اب وہ بہت بوڑھی ہو گئی ہے اور کسی ایسے بچے کی تلاش میں ہے جسے وہ
سنہری صندوق دے سکے۔ اُس کے پاس ایک سبزر چادر بھی ہے جس میں دوڑتی سُنہری
پٹیاں بالکل روشنی کی کرنوں کی طرح لگتی ہیں۔ لاہور میں ہی رہتی ہے۔ شاید
آپ نے دیکھا ہو کہیں؟۔ |