گزشتہ دنوں سندھ کے وزیر داخلہ
ڈاکٹر زوالفقار مرزا نے بدین میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا “کہ اگر
ان کے جانے سے سندھ کا مسئلہ حل ہوتا ہے تو وہ جمہوریت کے لئے یہ قربانی
دینے کو تیار ہیں انہوں نے مزید نرم لہجے میں کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ ایک
جمہوری پارٹی ہے جس کے مینڈیٹ کا وہ احترام کرتے ہیں۔
ابھی کچھ ہی دن پہلے زوالفقار مرزا کے گرجنے اور برسنے کو تو پاکستان بھر
کے میڈیا نے خوب جی بھر کر دکھایا مگر افسوس کی بات ہے کہ مرزا صاحب کے
منمنانے کو کوئی نہیں دکھا رہا تاکہ معلوم ہوجائے کہ دھاڑتا ہوا شیر جب
بکری کی طرح منمنانے لگ جائے تو کیسا لگتا ہے۔
لیجیے جناب ایک جانب تو حکومتی شہہ یا اشارے پر زوالفقار مرزا شیر جیسے
ہوجاتے ہیں اور مانتے بھی ہیں کہ وہ ایک بدمعاش ہیں اور دوسری طرف جب ایم
کیو ایم صرف زبانی جمع خرچ نہیں یعنی خالی خولی الٹی میٹموں تک نہیں رکی
بلکہ استعفے دینے جیسے عملی اقدامات پر بھی آگئی تو حکومت نے بھی حالات کو
بھانپتے ہوئے ان کو دوسرا اشارا کیا اور لیجیے جناب قربانی کا بکرا بھی
حاضر ہو ہی گیا۔
زوالفقار مرزا جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ صدر زرداری صاحب کے زاتی دوستوں میں
سے ہیں جن کا تعلق پٹارو کیڈٹ کالج یعنی ١٩٦٨ سے ہے تو زرداری صاحب کو بھی
تو ناہید خان اور صفدر عباسی جیسے چند دوست رکھنے کا حق ہے وہ دوسری بات ہے
کہ زوالفقار مرزا صاحب کی زوجہ محترمہ فہمیدہ مرزا کو بھی قومی اسمبلی کا
اسپیکر بنا دیا گیا اس سے بڑی دوستی کی مثال اور کیا ہوگی۔
نامعلوم اپنی گزشتہ تقریر کے حقائق کو ثابت کرنے کے لیے جو مرزا صاحب کراچی
چیمبر آف کامرس میں کر رہے تھے اور جس میں انہوں نے ایم کیو ایم کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ساٹھ میں سے چھبیس ٹارگٹ کلرز ایم کیو ایم سے
تعلق رکھتے ہیں جو کہ مرزا صاحب نے گرفتار بھی کر لیے ہیں تو کیا بات اور
وجہ مانع رہی جو اب تک عدالتوں، میڈیا اور عوام کے سامنے ان گرفتار افراد
کا چٹھہ نہیں کھولا گیا اور زوالفقار مرزا اپنی قربانی دینے کو تیار ہیں کہ
شائد اس طرح ایم کیو ایم ان سے ناراضگی ختم کر لے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے زوالفقار مرزا کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی
کبھی فرمائش کی ہی نہیں بلکہ پی پی پی پی کو ہمشیہ یہ باور کرایا ہے کہ زمہ
دارای کا مظاہرہ کرنے کی اپنے اراکین کو تلقین کی جائے اور یہ یقین دلایا
جائے کہ زوالفقار مرزا کے بیانات کیا پیپلز پارٹی کے پالیسی بیانات تصور
کیے جائیں جس کے جواب میں پیپلز پارٹی کی قیادت اور لیڈران کسی نا کسی حد
تک زوالفقار مرزا کے بیانات کو ہم آہنگ کرتے رہے کہ دیکھتے ہیں کہ ایم کیو
ایم کس حد تک جاسکتی ہے کیونکہ ظاہر ہے این آر او اور آر جی ایس ٹی جیسے
معاملات کی مکمل مخالفت اور فوجی جرنیلوں کو دعوت خاتمہ کرپشن ظاہر ہے پی
پی پی اور ن لیگ کے دلوں پر کانٹوں کی طرح لگا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنی ایک اتحادی جماعت اعظم سواتی کو تو ڈسپلن کی خلاف
ورزی پر پیپلز پارٹی کے وزیراعظم نے وزارت سے برخاست کر دیا تھا یہاں بھی
وہی اخلاقی اصول یاد رکھتے ہوئے جناب وزیراعظم صاحب اپنی اسپیکر اسمبلی کے
شوہر نامدار کو بھی ڈسپلن یعنی فضولیات سے پرہیز کے زبان بندی کے صدارتی
حکم کے باوجود فضول گوئی کرنے پر معطل تو دور سرزنش کرنے کی بھی طاقت رکھتے
ہیں یا صدارتی اختیارات منتقل ہونے کے باوجود وزیراعظم صاحب کو اس کام کے
لیے بھی آئین میں کوئی ترمیم کروانی پڑے گی کہ اپنی پارٹی میں موجود وزرا
کی فضول گوئی پر کوئی ایکشن لے سکیں۔
نامعلوم کیوں اپنی پارٹی میں موجود وزارتوں کےعیش کرتے ناعاقبت اندیشوں کی
اشتعال انگیزی کے باوجود پیپلز پارٹی کی قیادت کوئی ایسا اقدام اٹھانے سے
قاصر ہے کہ جس پر اسے مملکت کے عوام کا اعتماد حاصل ہوسکے اور وہ سکون و
اطمینان کے ساتھ اپنے بقیہ دو سال پورے کر کے عوام کے سامنے جاسکے کہہ
دیجیے جناب ہم نے یہ کارنامے انجام دیے تھے اپنے دور حکومت میں۔ ہاں اگر
اپنے وزرا یا اپنے لگائے ہوئے مختلف اداروں کے سربراہوں کو کرپشن پر برطرف
کرنے کے اقدامات کا تعلق ہے تو یہ بھی یاد رہے کہ مزکورہ کرپٹ لوگوں کو اہم
سیٹیں دی ہی کیوں گئیں تھیں جو ان کو ہٹانا پڑگیا۔
پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ اپنی گورننس کو بہتر بنائے مملکت پاکستان اور عوام
پاکستان کی فلاح و بہبود کی خاطر اقدامات کرے بلاشبہ پاکستان برے حالات کا
شکار ہے مگر اگر سب ملکر کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان موجودہ
مصائب و آلائم سے بخوبی نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس بات کو
پاکستان کے دشمن پاکستان کے دوستوں سے زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اپنی
تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ |