میثاق جمہوریت کا جو حشرسیاستدانوں نے کیا ہے۔اسے دیکھ کر
جمہوریت کا مضبوط ہونا تو درکنار اس کے وجود کے ہی ختم ہوجانے کا خدشہ بن
رہاہے۔بظاہر تو یہ کل جماعتیں میثا ق تھامگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ
اصل میں یہ صر ف دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان ایک غیر اعلانیہ انڈرسٹینڈنگ
تھی۔اس با ت پر کہ جمہوریت کے خلا ف کم ازکم یہ دونوں جماعتیں استعما ل نہ
ہونگی۔آپسی وہ لڑائی تر ک کردی جائے گی۔جو جمہوریت دشمنوں کو خوش کرتی
ہے۔بدقسمتی سے پی پی نے اس میثاق کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔کہنے والے کہتے
ہیں۔دراصل یہ میثاق بے نظیر کی ایک چال تھی۔وہ درون خانہ فوجی حکمران سے
کسی سود ے باز ی میں مشغول تھیں۔انہیں اس بارگین کو آسان کرنے کے لیے کوئی
آسرا چاہیے تھا۔میثاق جمہوریت کا چند روزہ شور انہیں یہ آسرادے گیا۔ممکن ہے
کہ دعوی سچ نہ ہو۔مگر نوازشریف کو اب بھی گلہ ہے کہ میثاق جمہوریت کے فوری
بعد ہی مشرف اور بے نظیر کی ملاقات ہوئی۔میاں صاحب تو جمہوریت کے سہانے
مستقبل کے خواب دیکھ رہے تھے۔اور محترمہ اپنے آپ کو تیسری بار وزیراعظم
بنوانے کے جتن میں تھیں۔ایک بارپھر پی پی قیادت نے بے جا خود اعتمادی کی
سزاپائی۔بے نظیر معالات کے جلدی قابو میں کرلینے کی تمنا لیے این آراو پر
آمادہ ہوئی تھی۔انہیں اپنے والد کی طرح ناکامی ہوئی۔بھٹو صاحب بھی سقوط
ڈھاکہ کے بعد بچے کھچے پاکستان کو اپنے خیالات کے مطابق بنانے میں کامیاب
نہ ہوسکے۔دونوں باپ بیٹی غیر جمہوری قوتوں کو کمزور سمجھنے کی غلط فہمی کے
شکار ہوئے۔ دونوں نے اوور کانفیڈنس کی سزاپائی۔
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشر ف کو سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن لڑنے کی
مشروط اجاز ت دیے جانے پر ملک بھر میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ان پر متعدد
کیسز چل رہے ہیں۔وہ علاج کے بہانے باہر گئے تھے۔مگر واپس نہیں آئے۔ان کی
سرگرمیاں ا ن کے صحت مند ہونے کی دلیل ہیں۔وہ وطن واپس آنے سے کتر ارہے
ہیں۔انہیں خوف ہے کہ نوازشریف حکومت ان کے خلاف انتقامی رویہ اپناسکتی
ہے۔انہوں نے پہلے اعلا ن کیاتھاکہ وہ الیکشن کے قریب وطن واپس لوٹ آئیں
گے۔وزارت داخلہ کو ایک خط بھجواتے ہوئے ان کی پارٹی نے سابق صدر کی سیکورٹی
کے خصوصی انتظامات کیے جانے کی فرمائش کی تھی۔حکومت جوا ب کے بعد مشرف نے
مایوس ہوکر وطن واپسی کو موٗخر کردیا۔اب جبکہ نوازشریف حکومت ختم
ہوچکی۔سابق صدر پرویز مشرف واپسی سے کترارہے ہیں۔ان کی آسانی کے لیے سپریم
کورٹ نے الیکشن لڑنے کی مشروط اجازت دی۔انہیں گرفتارنہ کیے جانے کی یقین
دہانی کروائی گئی ہے۔اس اجازت پر ملک کے سنجیدہ حلقو ں میں تشویش کی لہر
دوڑ گئی۔سب سے پہلے نوازشریف نے آوازاٹھائی بولے کہ آئین توڑنے والے کو
گرفتارنہ کرنے کا حکم کیسا ہے۔سنگین غڈاری کا مقدمہ جس پر چل رہا ہوں۔اس کی
گارنٹی دینے کا کیا مقصدہے۔کس آئین کے تحت اجازت دی گئی۔سابق چیئرمین سینٹ
رضاربانی نے بھی اس اجازت پر تنقید کی۔کہا کہ مشرف کو الیکشن لڑنے کی اجازت
ملی تو قانون کی حکمرانی تباہ ہوجائے گی۔سابق وفاقی وزیر قانون اور ماہر
قانون ایس ایم ظفر نے بھی مشرف کی ناہلی کی معطلی کے فیصلے کو ماروائے آئین
قراردیاہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا یہ فیصلہ واقعی عجب ہے۔اگر چہ سابق صدر پرویز
مشر ف ابھی تک مطمئن نہیں۔و ہ اب بھی بضد ہیں کہ جب تک وہ کسی تحریر یقین
دہانی نہیں پاتے وطن واپس نہیں آئیں گے۔اس کے باوجود سپریم کورٹ کے چیف
جسٹس کی طرف سے اس طرح کی اجازت دیے جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ آنے والے
الیکشن میں مشرف کو ان کرانے کے لیے ان کے پاکستان میں موجو دخیر خواہ
متحرک ہیں۔ا ن خیر خواہوں نے ہے۔سیاست نہیں ریاست بچاؤ ڈرامہ کروایا
تھا۔مقصدتھا کہ نوازشریف کی ممکنہ حکومت کی راہ روکی جائے۔الیکشن موٗخر
کرائے جائیں۔اس دوران کوئی ایسا سیٹ اپ تیار کیا جائے جو دو بار آئین توڑنے
والے کا دفاع کرسکے۔اسی خیر خواہ ٹولے نے تحریک انصاف کا بت بنایا۔پھرریاست
بچاؤ بابا اور آزادی مارچ والے کی جوڑی اس ٹولے کے اشاروں پر ناچتی رہی۔اسی
جوڑی نے بار بار تھرڈ ایمپائر اور ہمارے مطلب کے جج آنے والے ہیں کا راگ
آلاپا تھا۔چیف جسٹس کی یہ ناہلی معطل کیے جانے کی بات اسی ہمارے ججز والی
بات سے ملتی جلتی ہے۔مختلف کیسز میں مطلوب ایک مفرور شخص کو الیکشن لڑنے کی
اجازت دی جارہی ہے۔ایسے میں سنجیدہ حلقے معترض نہ ہوں تو کیا ہو۔نوازشریف
نے ووٹ کو عزت دو کی تحریک شروع کررکھی ہے تو یہ ان کا بالکل درست فیصلہ
ہے۔ملک کو اس وقت کچھ لوگ اندھیر نگری چوپٹ راج بنانا چاہ رہے ہیں۔نوازشریف
کو اکیلے ان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ایک وقت تھا۔جب پی پی ایک بڑی پارٹی ہو
اکرتی تھی۔یہ پارٹی قیادت کی کوتاہیوں سے مٹ گئی۔اگر محترمہ دو چارسال اور
اقتدارسے باہرر رہنے پر تیارہوجاتی تو شاید میثاق جمہوریت ان غیر جمہوری
طاقتوں کے لیے ایک پھندا بن جاتا۔ایسا نہ ہوسکا۔محترمہ کے بعدبھی پارٹی کی
سمت نہیں بدلی۔اس جماعت پر قبضہ مافیا سوار ہے۔جو جعل سازی سے آئے اور جعل
سازی سے وقت گذار رہے ہیں۔نوازشریف اندھیر نگری کے خلاف اکیلے ہیں میدان
میں نظرآئیں گے۔ان کا ووٹ کی عزت بحال کرنے کا تصور بڑا اچھا ہے۔انہوں نے
ایک مشکل مگر بروقت فیصلہ کیا۔ |