گزرا ہوا وقت انسان کو بہت کچھ سکھا دیتا ہے اور اسی گزرے
وقت میں کی گئی غلطیوں سے انسان اپنا حال اور مستقبل سنوارتا ہے. کہنے کو
تو یہ جمہوریت کا حسن ہے جسکے ن لیگی حکومت اپنے پانچ سالہ دور پورا کر کے
جا چکی ہے لیکن کیا اب تک کسی نے اس بات پر غور کیا ہے کہ ایا اس نام نیاد
جمہوریت کا پاکستانی قوم پر کوئی مثبت اثر پڑا ہے یا نہیں؟ یہ عوام تو اب
بھی ماضی کی طرح بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے. ایک طرف غریب عوام
میعاری علاج, خوراک اور تعلیم کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبر ہے
اور دوسری طرف حاکم اور سرمایہ دار لوگ علاج کے لئے برطانیہ, تعلیم کے لئے
امریکہ اور خوراک کے لئے کےاف سی کے مزے لے رہے ہے. ان حکمرانوں اور سرمایہ
داروں کی عیاشیوں کا یہ نتیجہ ہے کہ یہ ملک اب اجتماعی طور پر 27000 ارب
روپے کا مقروض ہو گیا ہے. کیا یہ ہے جمہوریت کا حسن جہاں پچھلے پانچ سالوں
کی نسبت قرضے میں 14000 ارب روپے اضافہ ہوا.
خیر پچھلی حکومت کے کارناموں کی بحث سے اگر ہم باہر نکلیں اور اس قوم کے
کردار پر غور کریں تو ایسا لگتا ہے کہ اس بدحالی میں حکمرانوں سے بڑھ کر اس
عوام کا ہاتھ ہے. جمہوریت تو اس عوام کو ہر پانچ سال کے بعد اپنے مستقبل کو
ٹھیک کرنے کا موقع دیتی ہے, ان کو وٹ کا حق دیتی ہے پر یہ عوام بدستور اپنے
اس حق کا ٹھیک استعمال نہیں کرتی. ہمیشہ کی طرح عوام دودھ کی نہروں جیسے
بیکار وعدوں پر دھوکا گھا کر لٹیروں کو وٹ دے دیتی ہے. لیکن اس کا مطلب یہ
نہیں کہ عوام مایوس ہو کر اپنی وٹ کا استعمال نا کرے بلکے سوچ سمجھ کر
نظریاتی سیاستدان کو آگے لے کر آئے جو خود سے پہلے اس ملک کا سوچیں.
اب وقت آگیا ہے کہ یہ قوام خود اپنا مقدار بدلے. عوام اس دفعہ شخصیت کی
بنیاد پر وٹ دینے کی بجائے پارٹی کے سیاسی منشور کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی
وٹ کا درست استعمال کرے. گلی کوچوں اور اس طرح کے دوسرے وقتی منصوبوں کی
لالچ کی وجہ سے عوام چور اور قاتل لوگوں کو پہلے بھی پارلیمان بھیجتی رہی
ہے. مگر اس دفعہ عوام کو سوچ سمجھ کر گذشتہ کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوے
اپنی وٹ کا ٹھیک استعمال کرے. تاکہ یہ موقع جو جمہوریت نے ان کو دیا ہے یہ
ضائع نہ جائے اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ قوم اپنا اور پاکستان کا
مستقبل بہتر کر سکیں. |