چند دن پہلے فیس بک پرڈاکٹر امجد پرویز کا کلکس ملا ۔جس
کا عنوان تھا"کالا باغ ڈیم اگرنہیں بناتو ہماری نعشوں کو غسل بھی نہیں
دیاجاسکے گا"۔ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ میں اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ
لوگوں تک شیئر کروں تاکہ کالاباغ بنانے کے لیے راہ ہموار کی جاسکے ۔ انہو ں
نے یہ بھی فرمایا کہ پانی زندگی کی علامت ہے ‘ پانی کے بغیر زندگی کا تصور
نہیں کیاجاسکتا لیکن پانی ہی پاکستانی سرزمین سے اس قدر تیزی سے کمیاب ہوتا
جارہا ہے کہ اگر ہوش کے ناخن نہ لیے تو مرنے کے بعد ہمیں غسل دینے کے لیے
بھی پانی میسر نہیں ہوگا ۔ میں نے جواب دیا ڈاکٹر صاحب یہ معاملہ صرف فیس
بک تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیئے بلکہ ایک مضبوط پلیٹ فارم تیار کرکے قومی
سطح پرنہ صرف آواز بلند کی جائے بلکہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کے دعوے دار
سیاسی رہنما ؤں کو ایسے سمینار میں مدعو کرکے ان سے زیادہ سے زیادہ ڈیم
بنانے کا وعدہ لیاجائے۔ تکنیکی رائے رکھنے والے ماہرین آب کو بھی اظہار
خیال کیاموقع فراہم کرکے میڈیا کے ذریعے مثبت رائے عامہ ہموار کی جائے ۔
بھارت کی بڑھتی ہوئی آبی جارحیت اور پانی کی شدید قلت کے بارے میں ہمارے
سیاسی رہنماء کس قدر عدم دلچسپی کااظہار کررہے ہیں ان کی ہر جگہ شدیدمذمت
کی جانی چاہیئے ۔ بھارت نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر 2009ء میں شروع کی تھی اس
وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی کالاباغ ڈیم کی جدی پشتی مخالف جماعت نے
پاکستان کی سرزمین پر بہنے والے دریائے نیلم پر بننے والے کشن گنگا ڈیم کی
تعمیر رکوانے کے لیے کوئی اہم اقدام نہیں اٹھایا عالمی عدالت نے جب پانی کے
بہاؤ کے حوالے سے دستاویزات مانگیں تو چپ سادھ لی گئی ۔ خاموشی کا فائدہ
اٹھاتے ہوئے بھارت ڈیم تعمیر کرتا رہا اور آصف علی زرداری اقتدار کے مزے
لوٹتے رہے اور پیپلز پارٹی کے وزیر کرپشن کے عالمی ریکارڈ قائم کرتے
رہے۔حتی کہ دسمبر 2013ء میں عالمی عدالت نے بھارت کے حق میں فیصلہ سناتے
ہوئے کہا پانی کا جو ڈیٹا مانگا گیا تھا وہ پاکستان فراہم نہیں کرسکا ۔ اس
وقت نواز شریف برسراقتدار آچکے تھے ‘ انہوں نے بھی حالات کی سنگینی کااحساس
کرتے ہوئے راست اقدام نہیں اٹھایا بلکہ اپنی طویل خاموشی سے بھارت کو
دریائے سندھ ‘ دریائے جہلم اور چناب کا پانی بھی چرانے کا موقع فراہم کردیا۔
میں اس بات پر حیران ہوتا ہوں کہ وہ شخص( نواز شریف) جس نے چھ ایٹمی دھماکے
کرکے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا تھا وہی شخص بھارت کی آبی
جارحیت کی سنگینی کا سدباب کیوں نہ کرسکا ۔ میری نظر میں پیپلز پارٹی اور
مسلم لیگ ن دونوں ہی قومی مجرم ہیں ان کے خلاف کسی حیل و حجت کے بغیر ملک
دشمنی کا مقدمہ شروع کرنا چاہیئے ۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا اقتدار حاصل
کرنا ہی ان کا مقصد تھا ۔قومی مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ان کے پاس وقت
کیوں نہیں تھا۔ عمران خان جو اپنے دھرنوں کی وجہ سے عالمی شہرت حاصل کرچکے
ہیں کیا وہ ایک دھرنا بھارت کی آبی جارحیت روکنے کے لیے نہیں کرسکتے تھے
انہوں نے بھی پاکستانی دریاؤں کے پانی پر بھارتی قبضے پر دانستہ خاموشی
کیوں اختیار کیے رکھی اور اب یہ وقت آپہنچا ہے کہ نہ ہمارے شہروں میں پینے
کا صاف پانی میسر ہے اورنہ ہی ہمارے دریااور نہروں میں پانی بہتا ہے ۔ ہر
جانب ریت اٹھتی اور ویرانی چھائی ہوئی ہے ۔ سب بہروپیئے بن کر عوام کو
دھوکہ دینے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ کسی کو اتنا خیال نہیں کہ
اگر پانی ہی نہ رہاتو انسان کیسے زندہ رہیں گے جن پر وہ حکمرانی کرنا چاہتے
ہیں۔کیا پانی کے بغیر زمین کی زرخیزی کو برقرار رکھاجاسکتا ہے ۔ یہ بات
ملحوظ خاطر رہے کہ کشن گنگاڈیم سے وادی نیلم کا 41 ہزار ایکڑ رقبہ صحرا کی
شکل اختیار کرلے گا ۔اڑھائی سو گاؤں کے غریب لوگ جن کا روزگار دریائے نیلم
سے وابستہ تھا وہ سب کے سب زندہ دفن ہوجائیں گے ۔ دریائے راوی ‘ ستلج ‘
دریائے بیاس تو پہلے ہی صحراکی شکل اختیار کرچکے ہیں اب سندھ ‘ چناب اور
جہلم میں بھی پانی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ دریائے سندھ کا کچھ نہ کچھ پانی
جو پاکستان کی سرزمین تک پہنچ رہا ہے اس کے پانی کی تقسیم پر چاروں صوبے
باہم دست گریبان ہیں ۔بھارت نے دو سو ڈیم بنا لیے لیکن ہم کالا باغ ڈیم
نہیں بنا سکے۔جن کی زبان سے بھارت کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں نکلتا وہ
فرماتے ہیں کہ ہماری نعشوں پر کالاباغ ڈیم بنے گا ۔کیا یہ لوگ پاکستان میں
سیاست اور حکومت کرنے کے اہل ہیں ۔جو اپنے ہی عوام کو پیاسا مارنا اور
زراعت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ڈیم تو زندگی کی علامت ہوتے ہیں ان کے پانی
سے بجلی بنائی اور زراعت کو فعال رکھاجاتاہے ۔ اگر ڈیم ہی نہ بنیں تو پانی
کہا ں محفوظ کیا جاسکتا ہے ۔ پاکستان سے زیادہ شاید ہی دنیا میں کوئی
بدقسمت ملک ہو جو اربوں ڈالر کا قیمتی پانی ہر سال سمندر میں پھینک کر ضائع
کر دیتا ہے اورکسی کے ماتھے پر شکن نہیں پڑتی ۔ میں سمجھتا ہوں معاہدہ ِ
سندھ طاس کی رو سے جو دریا بھارت کے حصے میں آئے ہیں ۔سیلابی موسم میں جب
ان میں بھارت پانی چھوڑتا ہے تو اس سیلابی پانی کو بھی دریا سے ملحقہ چھوٹے
چھوٹے ڈیم بنا کر محفوظ کیاجاسکتا ہے ۔ہماری غفلت کی وجہ سے پانی بھی تباہی
مچاتا ہوا سمندر میں جاگرتا ہے ۔ مختصر بات تو یہ ہے کہ پانی ہو گا تو اسے
تقسیم بھی کیا جاسکتا ہے جب پانی ہی نہ ہوا تو پھر پانی کی عدم دستیابی کا
شکوہ کیسا؟۔جب تمام سیاسی رہنمامصلحتوں کا شکار ہوچکے ہیں تو قدرت نے چیف
جسٹس سپریم کورٹ کے دل میں پانی کی قلت کو دور کرنے کا احساس پیدا کیا ۔
جنہوں نے از خود نوٹس لیتے ہوئے کالاباغ ڈیم سمیت تمام کیسز کو یکجا کرکے
سماعت شروع کر دی ہے۔چیف جسٹس فرماتے ہیں دل کرتا ہے ڈیم بنانے اور قرض
اتارنے کے لیے چولہ پہن کر چندہ مانگوں ۔ ہم چیف جسٹس کو یقین دلاتے ہیں آپ
فیصلہ کریں پاکستانی قوم آپ پر نچھاور ہونے کو تیار ہے ۔ ہم آپ کو نوٹ بھی
دیں گے اور ووٹ بھی ۔ چیف جسٹس کے اس اقدام پر جب پوری قوم خوش ہے تو پھر
بھارت نواز قوم پرستوں کے گھر میں صف ماتم بچھ چکی ہے ۔ بھارت کے وظیفہ
خوار اسفند یار ولی کہتے ہیں کالاباغ ڈیم خیبر پی کے کو ڈبونے ‘ سندھ کو
بنجر بنانے اورپنجاب کو سیراب کرنے کا منصوبہ ہے کیا ایسی باتیں کہنے والے
مکروہ لوگوں کی زبان گدی سے کھینچ نہیں لی جاتی ۔ جو کھاتے پاکستان کا لیکن
وفاداری بھارت سے نبھاتے ہیں۔اب فیصلے کا وقت آپہنچا ہے پاکستان میں وہی
سیاست اور حکومت کرے جو ڈیموں کا مخالف اور بھارت کی آبی جارحیت کا حامی نہ
ہو۔چاہے وہ کتنا ہی مقبول سیاسی رہنما کیوں نہ ہو۔ عوام کو بھی شخصیاتی
حصار سے نکل کر قومی مفادات کے تحفظ کے لیے آگے بڑھنا ہوگا اور کالا باغ
ڈیم سمیت ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے ایک تحریک چلانی ہوگی جس کا عنوان
ہونا چاہیئے ۔ " ڈیم بناؤ....پاکستان بچاؤ " |