انتخابی مناظرہ ضروری ہے

قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے مہم زوروں پر ہے۔ شکوک و شبہات بھی ہیں۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کیا واقعی الیکشن ہو گا۔ اس سوال،شک اور خدشے کی ایک معقول وجہنہیں۔2013کے انتخابات میں دھماکے ہو رہے تھے، تشددتھا۔ ایم کیو ایم، اے این پی اور پی پی پی ان دھماکوں کا نشانہ بنے تھے۔ دھماکوں میں معصوم لوگ نشانہ بن رہے تھے۔ بم اور گولی کسی اپنے اور پرائے ، نقلی اور اصلی میں تمیز نہیں کر تی۔ یہ گولی یا بم چلانے والیپر منحصر ہے کہ اس کی آنکھ کو کیا درست یا غلط دکھائی دیتاہے۔بلا شبہ تشدد نے اس معاشرے کو انتقام در انتقام کی آگ میں جھونک دیا ۔ مرنے اور مارنے والے کو بھی معلوم نہیں کہ وہ کیوں مر یا مار رہا تھا۔مرو یا مارو کا کا نعرہ کبھی زمانہ جاہلیت میں لگا یا جاتا تھا۔ جب جہالت ختم ہوئی تو راستہ نظر آنے لگا ۔ لوگ بھٹکنے سے بچ گئے۔ یہ اسلام کی تعلیم تھی۔ جس کا مطلب ہی امن و سلامتی ہے۔ جو تعلیم اب دی جارہی ہے۔ صرف ڈگریاں۔ رٹہ ۔ نقل۔ زیادہ سے زیادہ نمبر۔ پوزیشن لینے کی دوڑ۔ اب طلباء کو اچھا اور ذمہ دار شہری بنانے یا بننے کی کوئی فکر نہیں۔ پیسہ کمانے کی مشین بنانے پر توجہ ہے۔ یہی وجہ ہے بحث یا دلیل کے بجائے جذبات کو مشتعل کرنے کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ بولی کے بجائے گولی، بیلٹ کے بجائے بلٹ، بات کے بجائے لات کی ریت چل پڑی ہے۔ ہمارے سیاستدان بھی اسی جذبے سے مغلوب نظر آتے ہیں۔مگر اب یہ دہشتگردی اور تشدد اﷲ کے فضل سے ختم ہو چکا ہے۔ اس کا کریڈٹ مسلم لیگ ن اور پاک فوج کو جاتا ہے۔دیگر سیاست کرتے ہیں۔

مغرب میں انتخابی امیدواروں کے درمیان مناظرہ ہوتا ہے۔ ووٹر کو ایشوز اور دلائل کی بنیاد پر متاثر کیا جاتا ہے۔ مشرق میں بھی مناظرہ کرانے کی تجویز خوب تھی۔یہ مناظرہ پارٹی سربراہاں یا سرپرستوں میں ہوتا۔ میاں محمد نواز شریف، عمران خان، آصف علی زرداری، بلاول زرداری، مریم نواز شریف، مولانا فضل الرحمان جیسے رہنماؤں کو ایک سٹیج پر بٹھا کر ایشوز پر ان سے سوالات کئے جاتے۔ یہ عوام کی عدالت ہوتی۔ جسے سرکاری و نجی ٹی وی چینلوں پر براہ راست دکھایاجاتا۔قوم اس سے اربوں روپے کی انتخابی مہم ، فضول خرچی سے بچ جاتی۔ پارٹیوں کا منشور اور پروگرام بھی پوری قوم دیکھ لیتی۔ کون کتنے پانی میں ہے ،یہ بھی پتہ لگ جاتا۔ یہ مناظرہ الیکشن سیچند دن پہلے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ابھی تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔دلیل کے بجائے جذبات بھڑکائے جا رہے ہیں۔پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں جمہوریت پختہ ہے۔ گرچہ کہ ان کی جمہوریت اور امن پسندی میں اب مسلمانوں کے لئے تعصب اور نفرت کا عنصر غالب رہتا ہے۔ امریکی جمہوریت میں بارک اوبامااور ان کے مد مقابل امیدوار میں مناظرہ ہوا۔ یہ مناظرہ تین مرحلوں میں مکمل ہوا۔ ڈونالڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن میں بھی مناظرہ ہوا۔ پوری دنیا دونوں امیدواروں کی قابلیت، پارٹی پروگرام، ماضی کی کارکردگی، مستقبل کے منصوبوں سے واقف ہوئی۔اس بار تعصب اور نفرت کی سیاست بھی ہوئی۔ مناظرے بھی الیکشن پر اثر انداز ہوئے۔ کیا ایسا صرف صدارتی نظام حکومت میں ہی ممکن ہے؟۔ یا دو پارٹی سسٹم میں اس کی گنجائش ہے؟۔

2013میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مناظرے کی دعوت دے کر بلا شبہ پہل کی۔ لیکن اس کا مثبت ردعمل سامنے نہ آ سکا۔ وہ 2018کے الیکشن میں کسی مناظرہ کی بات نہیں کرتے۔جب کہ یہ مناظرہ ہونا چاہیئے۔ قوم کو پتہ چلے ایک ایشو پر پاکستانی قیادت کا کیا وژن اور پروگرام ہے۔ اس میں کتنی صلاحیت ہے۔ کون کھرا ہے اور کون کھوٹا۔ لیکن سر عام مناظرہ کا چلینج ابھی تک کوئی قبول نہیں کر سکا ہے۔ کسی نے جرائت کا مظاہرہ نہ کیا۔ اب بھی توقع کی جانی چاہیئے کہ میاں صاحبان، عمران خان اور جناب زرداری اس پرغور فرمائیں گے۔

انتخابات میں زاتیات کا بھی اہم معاملہ ہے۔ 2013میں عمران خان کی جانب سے میاں نواز شریف کو سرکس کا شیر یا گیدڑ کہنا مہذب انداز نہیں تھا۔اب خان صاحب کافی الرٹ ہو چکے ہیں۔ اس طرح کے غیر مہذب جملہ بازی کم از کم ایک قومی سطح کے سیاستدان کو زیب نہیں دیتی۔ کردار کشی ، زاتیات ، زاتی عناد، انا پرستی کے بجائے انتخابی مہم میں مہذب انداز گفتگو ہی عوام کے لئے بھی قابل قبول ہو سکتا ہے۔ جس سیاست میں صبر وتحمل نہ ہو وہ سیاست نہیں بلکہ سرکس ہے۔ ڈرامہ ہے۔ اگر چہ سیاست سے باہر کیا گیا ہے مگر میاں نواز شریف اس وقت ملک کے جہاندیدہ اور پسندیدہ سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری کی مقبولیت سے بھی انکار نہیں۔ لیکن ایشوز کی سیاست ہی مناسب اور کارگر ہتھیار ہے ۔ اسی ہتھیار کے استعمال سے مخالفین کا مقابلہ ہونا چاہیئے۔ تحمل اور برداشت نعمت ہے۔ غصہ اگر عقل کو کھا جاتا ہے تو انسان پاگل بن جاتا ہے۔ پاگل آئین کے تحت الیکشن لڑنے کا اہل نہیں۔ووٹر اب پہلے سے با شعور اور با صلاحیت قیادت کا انتخاب کر ے گا۔ کارکردگی سامنے رکھے گا۔عمران خان کو کے پی کے میں حکومت کا موقع ملا۔ مسلم لیگ ن پنجاب اور پی پی پی سندھ میں حکومت کرتی رہی۔ مسلم لیگ ن وفاق میں حکمران رہی۔

کارکردگی کی بات ہو تو پنجاب ، سندھ، کے پی کے کی ترقی کا جائزہ لیا جائے گا۔یہی اہم ہے۔ الزامات کی سیاست دم توڑ رہی ہے۔ کسی کی کردار کشی، عیب جوئی، غیبت اخلاقاً، شرعاً، قانوناً ناجائز اور جرم ہے۔ اس سے نفرت اور انتقام کو فروغ ملتا ہے۔ یہ بھی ایک انتہا پسندی ہے۔ آپ جہاں سے اعتدال سے ہٹ گئے، وہاں سے ہی انتہا پسندی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ جو لوگ انتخابی مہم میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں ، ان سے کل پارلیمنٹ میں بیٹھ کر عوام کے مفاد میں ایک متفقہ پالیسی اور قانون بنانے کی توقعکیسے کی جا سکتی ہے۔ اگر کسی سے کوئی غلطی سر زد ہوئی ہے تو اس کی اصلاح کی نیت سے بات کرنا کوئی غلط نہیں لیکن بلا وجہ لعن طعن فہم و فراست کی کمی کا ثبوت ہے۔ میاں نواز شریف کا پرویز مشرف سے سمجھوتہ اور ملک سے باہر چلے جانا اکثریت کے لئے پسندیدہ عمل نہیں تھا۔شریفوں نے سعودی عرب میں فیکٹریاں لگائیں۔ اس پر بھی اعتراض کیا گیا۔ لیکن میاں صاحب کا موقف کافی وزن دار ہے کہ ان کے بچے کاروبار نہ کرتے تو کیابھیک مانگتے؟۔ مسلم لیگ ن نے 2013کا الیکشن جیتا۔اب نواز شریف کی نااہلی کا معاملہ ہے۔ انتشار، نا امیدی ، مایوسی کی ضرورت نہیں،اس سے صلاحیتیں دب جاتی ہیں، بلکہ دلیل اور بولی کا بول بالاہوناہے۔ اس کے لئے مناظرہ ضروری ہے۔ جس نے کارکردگی کامظاہرہ کیا یا جس کے پاس پروگرام ہے۔ وہ مناظرہ کی حمایت کرے گا۔ عوام کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اب کی بار جن سے ملک و قوم کا مستقبل وابستہ ہونے جا رہا ہے۔، وہ کون ہیں، ان کا مشن کیا ہے، وہ کھوکھلے نعرے لگا رہے ہیں یا کچھ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔مناظرے کی اہمیت ہے، مگر معلوم نہیں اس کا اس دنیا میں کبھی عملی مظاہرہ ہو گا یا نہیں۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 484811 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More