بچے ملک اور قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں بچے اور بچیوں
کی قدرصرف اور صرف اپنے ماں اورباپ کے ساتھ ہوتی ہے بچے کی قدر اُس گھر میں
ہوتی ہے جس گھر میں بچے ہواور رونے کی تکلیف بھی وہی گھر محسوس کرتاہے جس
گھر میں بچے رورہے ہوتے ہیں قارئین کرم ایک د ن ہم دوستوں کے ساتھ ایک محلے
پر گزاررہے تھے چونکہ اکثر اوقات اس محلے میں زیادہ بچے موجود ہوتے اور
کھیلتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں چند دن گزرنے کے بعد دوستوں نے ارادہ کیا کہ
کچھ دیر کیلئے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں گے اور دیکھیں گے کہ بچے اپنے
درمیان کس طرح محبت سے کھیلتے ہیں بہر حال ایک دن ہم بھی ٹائم پاس کرنے
کیلئے کھڑے ہوگئے اس دوران ایک بچے کی نظر مجھ پر پڑی اور یہی بچہ دوڑتے
دوڑتے میرے نزدیک آیا اور رونا شروع کیا ہم نے پوچھا بیٹاکیا مسئلہ ہے اور
رونے کا سبب پوچھا بچہ مسلسل روتارہا ہم نے دلاسہ دیتے رہے لیکن بچہ پھر
بھی روتا رہا ہم نے پھر بچے سے پوچھا بیٹاکیا ہوا ہے بتاؤں لیکن بچے نے
جواب نہیں دیا ایک دوست نے مجھے سے سرگوشی میں کہا میرے دوست ایسا لگ رہاہے
کہ بچے کے ماں یاباپ وفات پاگئے ہیں اس لئے رورہا ہے مجھے یقین ہواجو بچہ
روتا ہے لگ رہا ہے کہ بچے کے ماں یا باپ فوت ہوچکے ہیں ہم نے تیسری بار بچے
سے عرض کیابیٹا کوئی فوتگی ہوئی ہے بچے نے تیسری سوال پر جواب دیا نہیں
آنکل میں کھیل رہا تھا کہ ایک شخص آگیااور مجھ سے فٹ بال چھین کرساتھ لے
گیا ہم نے بچے کو دل کے ساتھ لگا کر عرض کیا بیٹا چھوڑوں یہ کوئی بڑی بات
نہیں میں آپ کیلئے ایک نیا بال خرید دوں گابچہ راضی ہو ااور رونا بند کیا
اگرایک بچہ بال کیلئے اتنا روتا ہے تو جب ایک شخص کے گھر سے روزی کا ہنر یا
روزگارکانوالہ چھین لے تو ان کا کیا حال ہوگا ان کے گھر میں موجود بچے کا
کیا حال ہوں گے اور کب تک روتے رہیں گے ہم نے یہی حال جی ٹی ایس ملازمین کا
بھی دیکھاہے اور آج آپ کے سامنے ہے میں تھوڑی سی تعارف کرنا چاہوں گاکہ
محکمہ جی ٹی ایس کب ختم ہوئی اور کس نے ختم کیا، محکمہ جی ٹی ایس انگریزوں
کی دور سے قائم تھا محکمے میں سات ہزار کے قریب ملازمین کام کررہے تھے جی
ٹی ایس کے ملازمین بہت منسار تھے اتنے اوصاف سے حامل تھے کہ افسران بالا
اُن ملازمین سے خوش تھے کبھی کسی کو شکایات کا موقع نہیں ملا تھا جی ٹی ایس
کا سفر بہت آرام دہ ہوتا ہے اس کے ٹرانسپورٹ کے برعکس کوئی خاصی تسلی بخش
نظام موجود نہیں تھا لوگوں کا پسندیدہ ٹرانسپورٹ جی ٹی ایس تھا کیونکہ مزے
کی بات تو یہ تھی کہ ان کا کرایہ بہت کم تھامگر تقریباً 23 سال مکمل ہونے
کو ہے کہ پی پی پی کے دورحکومت میں بنوں سے تعلق رکھنے والے مرحوم عطاء اﷲ
جان جو اُس وقت صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ تھے اورصوبے کا وزیر اعلیٰ آفتاب خان
شیر پاؤ تھے جنہوں نے جی ٹی ایس کا محکمہ ختم کردیا اُس دور میں جی ٹی ایس
میں سات ہزارکے قریب ملازمین روزگار پر تھے لیکن اُسے روزگارکا آخری نوالہ
چھین لیا گیا کالم کے شروع میں عرض کرچکے ہیں کہ بچے سے صرف بال چھین لیا
گیا تھا پھروہ کسی طرح چیخ وپکار کرکے رو رہا تھا جی ٹی ایس کے ملازمین سے
تومکمل روزگار کا نوالہ چھین لیا گیا ہے پھر ان کے بچے کس طرح چیخ وپکار
کرتے رہیں گے خیرانگی کی بات تویہ ہے یہ ملازمین 23 سالوں سے عدالتوں کے
دروازے ،احتجاجی مظاہرے ،سیاسی لیڈروں سے ملاقاتیں ،اخباری بیانات اور دیگر
جدوجہد کے ذریعے حکومت سے بحالی کی اپیل کرتے رہتے ہیں جس سے ایک سیاسی
لیڈربھی نہیں رہ چکا ہے کہ جسکا ملاقات نہ ہواہو ہر کسی کو اپنا فریاد
پہنچایا ہے لیکن ان کی طرف سے تاحال یقین دہانیوں کے باؤجود کچھ نہ مل
سکاکچھ ملازمین نے غربت کی وجہ سے خودکشیاں کرلی گئیں ہیں ایسے ملازمین آج
بھی ان میں موجود ہے جوغربت کی باعث فاقوں پر مجبورہے ان ملازمین کے صوبائی
صدر جنان ماما کا موقف ہے کہ حالیہ صوبائی حکومت چونکہ انصافیوں کی حکومت
تھی ا ن کو بھی ہم نے اپنے مطالبات سامنے رکھے تھے لیکن کسی قسم کی دلی
تسلی نہیں ملی ہم مزید تھگ چکے ہیں ہمارے آخری امید چیف جسٹس سے وابستہ ہے
چونکہ زمینی خداؤں سے ہمارے امیدیں دم توڑچکی ہے ہم نے 23 سالوں سے دن رات
تگ ودد کی ہے مگر کسی نے بھی ہمارے درد کو اپنا درد نہیں سمجھااگر چیف جسٹس
صاحب آپ ان غریب اور لاچار ملازمین کے فریاد کا نوٹس نہ لے تو ان کے 23
سالہ فاقے پر مجبور زندگی کا آزالہ پھر کون کرے گا چیف جسٹس صاحب شائد آپ
کو اندازہوگاان میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو صبح گھر سے وصول روزگار کی تلاش
میں نکل کرخالی ہاتھ لوٹ کراپنے گھر منہ دیکھنے کے قابل نہیں رہتے یہ
واقعات ان کے ساتھ روز ہوتے ہوں گے چیف جسٹس صاحب پھریہی لوگ مسترد شدہ لوگ
بھیگ مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں چیف جسٹس صاحب اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں
صاف فرمایا ہے کہ کسی کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو کبھی معاف نہیں کروں گا
چیف جسٹس صاحب ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیاہے چیف جسٹس صاحب آپ کے ہاتھوں
میں اﷲ تعالیٰ نے بہت طاقت رکھی ہے اور ان مظالموں کی داد رسی کرنا
آپکافریضہ بنتاہے اور اسی فریضہ کی ادائیگی کیلئے ایک مجبور اور بے بس عوام
بھیڑ آپ حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ خدارا ہمارے گھر کے چولہے کئی سالوں سے
ٹھنڈا ہوگئے ہیں غریب اورافلاس کی وجہ سے نڈھال ہوچکے ہیں صبر کرتے کرتے دل
برداشتہ ہوچکے ہیں ہماری ان مجبوریوں کو سامنے رکھ کر فوری طور پر ایکشن
لیں ۔ |