یہ ایک حقیقت ہے کہ زمانہ ہمیشہ آگے کی جانب محوِ سفر
رہتا ہے ۔ارتقاء کے اسی جذبہ میں انسانی ترقی کا راز پنہاں ہے ۔ارتقاء نہ
ہوتا تو انسان آج بھی غاروں میں زندگی بسر کر رہا ہوتا اور موجودہ ترقی ایک
خواب اور وہمے کے سوا کچھ بھی نہ ہوتی ۔یاد رہے کہ ارتقاء ہمیشہ اختلاف سے
جنم لیتا ہے ۔ایک ایسا اختلاف جسے دلیل اور منطق سے سنا اور سمجھایا جا
سکتا ہے بے ہنگم الزامات اور شورو غوغہ انسانی ارتقاء میں کبھی بھی ممدو
معاون نہیں رہا بلکہ اس نے انسانی ارتقاء کی منزل کو مزید دور کیا ہے ۔سائنسدان،دانشور
،اہلِ علم اور صاحبِ بصیرت افراد ہمیشہ دلیل کی قوت سے سارے معرکے سر کرتے
ہیں۔انھیں دلیل کی حقانیت کو ثابت کرنے کیلئے جرات و بسالت کا مظاہرہ بھی
کرنا پڑتا ہے لہذا وہ اپنے نظریات کی حقانیت کی خاطر سمجھوتوں سے دور رہتے
ہیں۔وہ جلا وطنی ،زندانوں اور سزاؤں کا سامنا کرتے ہیں لیکن اپنے نظریات سے
تائب نہیں ہوتے اور نہ ہی باطل کو حق کہنے کی روش اپناتے ہیں۔کارل
مارکس،گلیلیو،کوپر نیکس اور آئن سٹائن اس کی واضح مثالیں ہیں۔علامہ اقبال
نے اہل صفا کی اس خوبی کو انتہائی دلکشی سے بیان کیا ہے۔،۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق ۔ نہ ابلہِ مسجد ہوں ،نہ تہذیب کا
فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش ۔،۔ میں زہرہلاہل کو کبھی کہہ
نہ سکا کند
پاکستانی سیاست کی بو قلمونیاں دیکھئے کہ جاگیرداری کے وہ تمام مقدس بت
جھنیں ۱۹۷۰ کے انتخابات میں ذولفقار علی بھٹو نے اپنے قدموں تلے روندھ ڈ
الا تھا پی ٹی آئی انہی بتوں کو ایک دفعہ پھر تقدس کا جامہ پہنا کر ہمارے
سامنے دیوتا بنا کر پیش کر رہی ہے تا کہ ہم ایک بار پھر ان کے سامنے سجدہ
ریز ہو جائیں۔ انگریز کے پالے ہوئے یہ لوگ کسی زمانے میں یونیسٹ پارٹی میں
تھے لیکن قائدِ اعظم محمد علی جناح کی مقبولیت کو دیکھ کر ان کے ساتھ شامل
ہو گئے اور پھر اقتدار کے ایوانوں پر ایسے قابض ہو ئے کہ آج تک ان سے جان
نہیں چھوٹ سکی۔ان کا یہ سلسلہ نسل در نسل چل رہا ہے اور ہم نسل در نسل ان
کی غلامی کا طوق گلے میں سجائے پھر رہے ہیں۔یہ بہت شاطر لوگ ہیں جوکسی غیبی
اشارے پر ایک جماعت سے دوسری جماعت میں پھدکتے رہتے ہیں لیکن اصولوں کا علم
کبھی سرنگو ں نہیں ہونے دیتے۔چند دن میرے ایک کرم فرما کہہ رہے تھے کہ لوگ
پی ٹی آئی کے نظریات سے متاثر ہو کر عمران خان کے گرد جمع ہو رہے
ہیں۔نظریاتی قوت سے کسی جماعت میں جانا تو بڑی ہمت کی بات ہے اور ہمیں اسے
سراہنا چائیے لیکن ذرا رک جائے اور جماعتیں بدلنے والوں کے ماضی کو سامنے
لے آئیے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور ہمیں علم ہو جائے
کہ یہ ہجرت نظریات کی وجہ سے ہے یا اقتدار کی ہوس انھیں ایسا کرنے پر اکسا
رہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ سارے کردار جو اس وقت مسلم لیگ (ن)،پی پی
پی ،مسلم لیگ (ق) سے ہجرت کر کے عمران خان کے قافلے میں شامل ہو رہے ہیں،
یہ کل کہاں تھے؟جنرل پرویز مشرف کے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ کے شب خون کے وقت یہ
سارے افراد جنرل پرویز مشرف کے نظریات سے متاثر ہو ئے تھے اور نو سالہ
اقتدار میں اس کے ہمرکاب رہے تھے۔مسلم لیگ (ق) میں بھی انھیں چوہدری
برادران کے نظریات کھینچ کر لے گئے تھے ۔۱۸ اکتوبر ۲۰۰۷ ب کو بے نظیر بھٹو
کی وطن واپسی پر پی پی پی کے اقتدار کے امکانات روشن ہو ئے تو یہ سارے
کردار مسلم لیگ (ق) کو چھوڑ کر محترمہ بے نظیر بھٹو کے آنچل سے لپٹ گے۔ پی
پی پی کا فلسفہ اور نظریہ ان کے دلوں میں ہلچل مچانے لگا لہذا پی پی پی میں
شامل ہوئے بغیر ان کی روح کو کہیں چین نصیب نہیں ہو رہا تھا لہذا وہ پی پی
پی کی کشتی میں سوار ہو گئے۔ابھی یہ کشتی پانچ سال ہی چلی تھی کہ ان کہ
دلوں میں میاں محمد نواز شریف کی محبت موجیں مارنے لگی لہذا پی پی پی کو
خدا حافظ کہہ کر وہ مسلم لیگ(ن) کی جانب بھاگ کھڑے ہوئے۔ایک دوسرے کو پاؤں
تلے روندتے ہوئے وہ میاں محمد نواز شریف کے قدموں میں گر پڑے۔میاں محمد
نواز شریف نے بڑی کوشش کی کہ ان بے گھونسلہ پرندوں سے دور ہی رہا جائے لیکن
انجانے دباؤ کے تحت ان کے پاس ان پرندوں کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ
نہیں تھا لہذا وہ سارے مسلم لیگ (ن) کا حصہ بنے۔بڑی قسمیں کھائی گئیں، بڑے
وعدے وعید ہوئے،وفا کی شمع روشن رکھنے کا اعادہ ہوا ،ساتھ جینے اور ساتھ
مرنے کے پیمان ہوئے لیکن کسی مہربان کے ایک اشارے نے سارے بندھن توڑ ڈالے
اور موسمی پنچھی ایک دفعہ پھراڑان بھر کر اس جماعت میں شامل ہونے لگے جس کا
حکم صاحب بہادر نے دے رکھا تھا۔یہ کیسے نظریات ہیں جو ہر الیکشن کے ساتھ
بدل جاتے ہیں۔ جو ہر نئے حکمران کی خاطر بدل جاتے ہیں اور جو اقتدار کی
خاطر بدل جاتے ہیں۔ اقتدار پہلی ترجیح بن جائے تو ایسے ہی ہوا کرتا ہے،نہ
کوئی وعدہ یاد رہتا ہے اور نہ ہی کوئی پیمان پاؤں کی زنجیر بنتا ہے ۔انسان
اپنے مفاد کی خاطر ہر وعدہ توڑتا چلا جاتا ہے لیکن نفسا نفسی کے اس عالم
میں بھی جن کو ڈٹ جانا ہوتا ہے وہ ڈٹ جاتے ہیں جبکہ جھنیں بھاگنا ہو تا ہے
وہ نظریات کا سہارا لے کر بھاگ جاتے ہیں ۔یہ بھاگ دوڑ اور ڈٹ جانے کا عمل
ہر انسان کے اندر ہوتا ہے ۔مفاد کی جانب لپکنے والے بھاگنے میں عافیت
گردانتے ہیں جبکہ اہلِ وفا ڈٹ جانے میں اپنی بقا دیکھتے ہیں اور بے پناہ
عزت و وقا ر سمیٹتے ہیں ۔،۔
میڈیا کی اس چکا چوند میں جہاں شخصی آزادیاں اور جمہوری رویے پوری دنیا کو
اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں ہم اب بھی الیکٹیبل کی بلیک میلنگ کا شکار بنے ہو
ئے ہیں۔وہ سارے جاگیر دار،صنعتکار،سرمایہ دار،اور سردار جھنیں کسی زمانے
میں حقیقی جمہوری روح کے دعوے داروں نے بے اثر کر دیا تھا اب بھی ہمارے
دلوں پر برا جمان ہیں۔قوم نے طویل جدو جہد کے بعد دامن چھڑیا تھا انھیں ایک
دفعہ پھر ہم پر مسلط کرنے کو کشش کی جا رہی ہے ۔تاریخ کا پہیہ آگے کی بجائے
پیچھے کی جانب رواں دواں ہے۔عوام تو اس امید پر تھے کہ ۲۰۱۸ کے انتخابات
نوجوان قیادت اور فرسودہ نظریات کی حامل قیادت کے درمیان لڑے جائیں گے۔
الیکٹیبل ہماے سامنے رسوا ہوں گے ،وہ ہمارے سامنے ہاریں گے،ان کا اقتدار
ہماری نظروں کے سامنے ہوا میں تحلیل ہو گا،انھیں شکست ِ فاش سے ہمکنار ہونا
پڑیگا ،انھیں چھٹی کا دودھ یاد آ جائیگا ، وہ بے اثر ہو جائیں گے،وہ اپنے
اپنے حلقوں میں نو آزمودہ کارکنوں کے ہاتھوں حزیمت اٹھائیں گے۔ان کا مان
مٹی میں مل جائیگا،ان کا خاندانی زعم کل کے لونڈوں لپاڑوں سے ٹوٹ جائیگا،ان
کا فخر کسی کام نہیں آئیگا ،ان کی برتری کو خاک نشین چیلنج کریں گے،ان کا
غرور خاک میں مل جائیگا،وہ اس بادل کی طرح ہوں گے جو گرجتا تو بہت ہے لیکن
جس میں برسنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے ایک
طویل جدو جہد کے بعد پی ٹی آئی کو پاکستان کی مقبول جماعت بنایا ہے اور
نوجوان نسل کے اندر تبدیلی کا شعور بیدار کیا ہے لہذا حق تو یہ تھا کہ
نوجوان نسل پر اعتماد کیا جاتا اور انھیں امورِ مملکت میں اہم ذمہ داریوں
سے نوازا جاتااور گھسے پٹے الیکٹیبل کو کھڈے لائن لگا یا جاتا لیکن انھوں
نے ایسا کرنے کی بجائے الیکٹیبل کے ہاتھ میں پی ٹی آئی کی کمان دے دی ہے ۔
سارے الیکٹیبل گھوم گھما کر پی ٹی آئی پر قابض ہو گئے ہیں لہذا ایک جدید
اور ترقی پسند معاشرے کا وہ خواب جسے عمران خان کی شکل میں نئی نسل دیکھ
رہی تھی چکنا چور ہو گیا ہے۔میری ذاتی رائے ہے کہ اس ملک کو جب تک حر ص و
ہوس سے پاک نوجوان نسل کے ہاتھوں میں نہیں دیا جاتا کچھ بھی نہیں بدلے
گا۔ہر شخص پاکستان کا ایک نیا تشخص چاہتاہے اور اسے کرپشن اور بد اعمالیوں
سے پاک دیکھنا چاہتا ہے لیکن کیاپاکستان کے الیکٹیبل جو ہر حکومت کا حصہ
رہے ہیں اسے وہ تشخص دے سکیں گے؟ پی ٹی آئی ایک بڑے مقصد کے ساتھ جلوہ گر
ہوئی تھی لیکن اس نے اپنا سارا کچھ موسمی پرندوں کے ہا تھوں میں گروی رکھ
کر عوامی خوابوں کا قتل کر دیا ہے۔،۔ |