چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے فرمایا ’’ عام انتخابات
مقررہ وقت پر ہوں گے۔ اِس میں ایک دِن کی بھی تاخیر نہیں ہوگی۔2 یا 3 ماہ
کے لیے تاخیر کی بات ذہنوں سے نکال دی جائے۔ الیکشن کے معاملات جنگی
بنیادوں پر چلنے ہیں۔ الیکشن کمیشن بے بَس ہوجائے تو اور بات ہے‘‘۔ چیف
جسٹس کے اِس بیان کے بعد بَروقت انتخابات کی اُمیدپیدا ہو چلی ہے اور میڈیا
کے ایک خاص گروہ کی طرف سے پھیلائی گئی افواہوں پر بھی اوس پڑتی دکھائی
دیتی ہے ۔ یہ لوگ 2014 ء کے دھرنوں سے لے کر اب تک ہر روز حکومت کے خاتمے
کی نوید سناتے لیکن جب اگلے دِن حکومت اپنی جگہ قائم ودائم نظر آتی تو
مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرتے ۔ لیکن یہ مایوسی صرف چند گھنٹوں
تک محدود ہوتی۔ آفرین ہے میڈیا کے اِس مخصوص طبقے پر جو شام کو ایک دفعہ
پھر اُسی جوش وجذبے کے ساتھ حکومت گرانے میں مصروف ہو جاتے۔
پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں میں سے نوازلیگ اور پیپلزپارٹی تو عام
انتخابات کے لیے تیار نظر آتی ہیں لیکن تحریکِ انصاف کے حلقوں میں بے چینی
پائی جاتی ہے۔ وہ کپتان جو 2014ء سے مِڈٹرم انتخابات کی دہائی دیتے چلے
آرہے ہیں، اب کہہ رہے ہیں کہ اگر عام انتخابات میں دو، تین ماہ کی تاخیر ہو
جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ چند دِن پہلے شیخ رشید بھی عام انتخابات کے
جُزوقتی التوا کا مطالبہ کرتے نظر آئے۔ خیبرپختونخوا کے سابق وزیرِاعلیٰ
پرویز خٹک نے بھی فاٹا (جو اب خیبرپختونخوا کا حصّہ ہے) کا بہانہ بنا کر
عام انتخابات کے التوا کا مطالبہ کیا۔ بلوچستان کے سرفراز بگتی نے صوبائی
اسمبلی سے عام انتخابات میں ایک ماہ کی تاخیر کی قررداد منظور کروائی (بلوچستان
کی نئی حکومت کے تحریکِ انصاف سے تعلقات اب کوئی ڈھکی چھُپی بات نہیں)۔
تحریکِ انصاف کی عام انتخابات کے التوا کی یہ خواہش شاید اِس وجہ سے ہو کہ
تمام قومی اور بین الاقوامی سرویز آج بھی نوازلیگ کو پاکستان کی مقبول ترین
جماعت قرار دے رہے ہیں جبکہ کپتان نے سوائے دھرنو ں اور احتجاج کے اور کچھ
نہیں کیا۔خیبرپختونخوا کی حکومت ملنے پرکپتان نے دعوے تو بہت کیے لیکن
زمینی حقائق یہ ہیں کہ سارا پشاور کھُدا ہوا ہے۔ کپتان نے تو کہا تھا کہ وہ
پشاور میں گیارہ ارب روپے میں میٹرو بنا کر دکھائیں گے مگر اب اُسی میٹرو
کا تخمینہ ساٹھ سے ستّر ارب روپے لگایا جا رہا ہے اور صورتِ حال یہ کہ’’
صاحب نے کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ ۔ دراصل پرویز خٹک کو
احتجاج سے فرصت ہی نہیں تھی۔ اگر وہ تحریکِ انصاف کے 2014ء کے طویل دھرنے
میں ’’تھرکنے‘‘ کی بجائے کے پی کے کی طرف توجہ کرتے تو شاید صورتِ حال
مختلف ہوتی۔ ویسے بھی خیبرپختونخوا کی تاریخ بتاتی ہے کہ پختون بھائی دوسری
بار کسی کو موقع نہیں دیتے۔ اُنہیں تو نئے نئے لوگوں کو آزمانے کا شوق ہی
بہت ہے۔
بلوچستان میں تحریکِ انصاف کا کوئی وَرک ہے نہ تنظیم ۔ دیہی سندھ میں آج
بھی پیپلزپارٹی مقبول ترین جماعت ہے اور شہروں میں تمامتر خرابیوں کے
باوجود ایم کیو ایم کا ووٹر قائم ودائم۔ اِس افراتفری کے عالم میں ایم کیو
ایم کی چند سیٹیں ضرور کم ہوں گی لیکن ہمارے خیال میں وہ سیٹیں پیپلزپارٹی
لے اُڑے گی ،تحریکِ انصاف نہیں۔ باقی بچا پنجاب، تو وہاں میاں شہبازشریف کی
کوششیں اور کاوشیں اندھوں کو بھی نظر آتی ہیں۔ اُنہوں نے میڈیا بریفنگ میں
بتایا کہ عمران نیازی کے انتشار، الزامات، دھرنوں، منفی سیاست اور رکاوٹوں
کے باوجود پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت نے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر
گامزن کیا۔ اُن کے دَور میں پنجاب میں 200 نئے کالج اور 19 یونیورسٹیاں
بنائی گئیں۔ 17 ارب کے تعلیمی وظائف اور 4 لاکھ نئے لیپ ٹاپ مفت تقسیم کیے
گئے۔ نوجوانوں کو 40 ارب روپے کے بِلاسود قرضے دیئے گئے اور 20 لاکھ غریب
بچے بچیوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرتے ہوئے اُنہیں سکولوں میں داخل
کروایا۔ 16 دانش سکول، ہسپتالوں کی اَپ گریڈیشن، اعلیٰ معیار کی پتھیالوجی
لَیب، ہسپتالوں میں سی ٹی سکین مشینوں کی تنصیب ، مفت ادویات اور بجلی کے
منصوبے اِس کے علاوہ ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ اِس سارے عمل میں اُن کی حکومت
نے 680 ارب روپے کی بچت کی۔ عرض ہے کہ بین الاقوامی معیار کی فرانزک لیپ،
لیوراینڈ کِڈنی ہسپتال، یونیورسٹیاں، کالجز، سکول، صحت سِٹی پروجیکٹ،
اَنڈرپاسز، اووَوہیڈز، جابجا سڑکوں کا جال اور اِس کے علاوہ درجنوں میگا
پروجیکٹس ایک ایسا جُرم ہے جس کی اُنہیں بہرحال سزا مِلنی ہی چاہیے۔ ہم خوش
ہیں کہ اب خادمِ اعلیٰ اِن ’’عظیم جرائم‘‘ کی پاداش میں عدالتوں کے چکر کاٹ
رہے ہیں۔ واقعی اُنہیں کسی کُتّے نے ہی کاٹا ہوگا جو وہ’’ لنگوٹ کَس کر ‘‘
ایسے منصوبوں کی تکمیل کے لیے اکھاڑے میں اُترے جن کی قوم کو سِرے سے ضرورت
ہی نہیں تھی۔
لاریب پیپلزپارٹی پنجاب میں تقریباََ ختم ہو چکی اور قاف لیگ کا بھی کوئی
حصّہ نہیں۔ یہاں مقابلہ نوازلیگ اور تحریکِ انصاف ہی کا ہوگا۔ اب ڈاکٹر حسن
عسکری کو الیکشن کمیشن نے پنجاب کا نگران وزیرِاعلیٰ مقرر کر دیا ہے۔ یہ
وہی صاحب ہیں جو عام انتخابات میں کم از کم ایک سال کے التوا کے زبردست
حامی ہیں۔ ہم ایک معروف نیوزچینل پر ڈاکٹر حسن عسکری کے ’’فرمودات‘‘ سے
مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ اُن کے مُنہ سے نوازلیگ کے لیے کبھی کلمۂ خیر نہیں
سُنا۔ ڈاکٹر صاحب تو پھر بھی گوارالیکن اگر اُس محترم تجزیہ نگار کو نگران
وزیرِاعلیٰ بنا دیا جاتا جو قُرآن وحدیث کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے تو زیادہ
مزہ آتا۔ اگر تحریکِ انصاف اُس ’’ارسطوئے دہر‘‘ کا نام تجویز کر دیتی جو
گالی گلوچ کے ماسٹر بلکہ ’’ہیڈماسٹر‘‘ ہیں اور جن کے بارے میں بلاخوفِ
تردید کہا جا سکتا ہے کہ ’’اُلجھاؤ ہے زمیں سے ،جھگڑا ہے آسماں سے‘‘ تو کیا
ہی بات تھی۔ ایک اور نام بھی ہمارے ذہن میں آرہا ہے، یہ صاحب اپنے کالموں
میں لطیفے سناتے سناتے یکلخت ترقی پا کر آجکل عظیم ترین تجزیہ نگار کے روپ
میں ایک معروف نیوزچینل پر نوازلیگ کے خلاف آگ اُگلتے رہتے ہیں۔ پتہ نہیں
تحریکِ انصاف کی نظر سے وہ کیسے بچ گئے۔ اگر اُنہیں پنجاب کا نگران
وزیرِاعلیٰ بنا دیا جاتا تو ’’ایک پَنتھ دو کاج‘‘ کے مصداق قوم اُن کے
لطیفوں سے بھی محظوظ ہوتی اورنوازلیگ کو ’’رَگڑا‘‘ بھی خوب لگتالیکن حسن
عسکری بھی کسی سے کم نہیں۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے احسن اقبال نے کہا
تھا کہ تحریکِ انصاف مرکز میں نگران وزیرِاعظم اور چاروں صوبوں میں نگران
وزرائے اعلیٰ اپنی مرضی کے لے آئے لیکن یہ لکھ کر دے دے کہ وہ انتخابات کے
بعد دھاندلی کا شور نہیں مچائے گی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو
دہرانے جا رہی ہے۔ پنجاب میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی جو لہر اُٹھی ہے، اُس کو
مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے نتائج تو چند سیٹوں کے فرق کے ساتھ وہی ہوں گے جو
2013ء میں تھے اِس لیے اُمیدِ واثق ہے کہ انتخابات کے بعد کپتان یہ کہیں گے
’’ڈاکٹر صاحب! کتنے میں بِکے؟‘‘۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ آجکل انتخابی بخار اپنے عروج پر ہے اِس لیے
نئے نئے سکینڈل سامنے آرہے ہیں۔ ویسے بھی پاکستان سکینڈلوں کی سرزمین ہے،
کبھی میموگیٹ، کبھی ڈان لیکس ، کبھی پاناما لیکس اور تازہ ترین ’’ریحام
لیکس‘‘۔ ملکی سیاست کو گھر کی چاردیواری کے اندر لانا انتہائی معیوب لیکن
’’آپے پھاتھڑیے تینوں کون چھڈاوے‘‘۔ 2014ء کے دھرنوں کے دَوران کپتان نے
کنٹینر پر کھڑے ہو کر خود ہی فرمایا ’’میں چاہتا ہوں کہ جلدی جلدی نیا
پاکستان بن جائے تاکہ میں شادی کر لوں‘‘ ( کپتان اِس اعلان سے پہلے ہی
ریحام خاں سے شادی کر چکے تھے)۔ ریحام خاں سے شادی کے بعد کپتان نے اَزراہِ
تفنن ہی سہی لیکن کہا تو ’’کون کہتا ہے کہ تبدیلی نہیں آئی، میرے گھر میں
تو تبدیلی آچکی ہے‘‘۔ پھر ریحام خاں کو اچانک طلاق اور کچھ عرصے بعد بشریٰ
بی بی سے شادی، سب تاریخ کا حصّہ ہیں۔ اِس لیے کہا جا سکتا ہے کہ خاں صاحب
اپنی ذاتی زندگی کو خود ہی سوشل میڈیا پر لے کر آئے۔ اب اُن کی سابقہ بیوی
ریحام خاں کی خودنوشت منظرِعام پر آرہی ہے اور تحریکی حلقوں میں زلزلے کی
سی کیفیت اور الزامات کا ایک طوفان۔ ریحام خاں کو شاید علیحدگی کا پہلے ہی
سے علم ہوگیا تھا اِس لیے اُس نے انتہائی معیوب حرکت کرتے ہوئے کپتان کا
بلیک بَیری چوری کر لیا۔ یہ ساری کہانی بلیک بِیری کے مندرجات کے گرد ہی
گھومتی نظر آتی ہے، اِسی لیے اکابرینِ تحریکِ انصاف پریشان بھی ہیں۔
تازہ ترین یہ کہ قوم کو مبارک ہو، کپتان نے 100 سے زائد لوٹوں کو تحریکِ
انصاف کے ٹکٹ سے نواز دیا ہے اور پرانے سونامیئے ’’کھجل خار‘‘ ہو رہے ہیں۔
ہمیں دُکھ ہے تو صرف یہ کہ ہماری محبوب ’’لوٹی‘‘ فردوس عاشق اعوان ٹکٹ سے
محروم رہ گئی۔ کیا کپتان اِس پر نظرِثانی فرمائیں گے؟۔
|