رمضان المبارک کے اسی باسعادت مہینے میں پاکستان صحیح
معنوں میں معرض وجود میں آگیا تھا ۔اس حقیقت کو ہم کبھی نہیں بھلاسکتے کہ
ہمیں منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے آگ اورخون سے گذرنا پڑا ۔مہاجرین کو اپنی
منزل مراد تک پہنچنے کے لیے اپنے گھر بار نذرآتش کرانے پڑے اپنے بچے ذبح
کرائے ہماری مستورات کی عزتیں لوٹیں ہمارے بزرگوں کی لاشیں راہ پاکستان میں
بکھر گئیں اورجب اتنی ہولناک قربانیاں دے کے اہل اسلام اپنے قلعے میں پہنچے
تو ہندو بنیے نے کہا تھا ’’پاکستان چند دنوں کا کھیل ہے اسے ہم دیر یا بدیر
ہندوستان میں مدغم کرلیں گے‘‘ ہندو تو ہندو برصغیر کے عظیم سرخیل عالم
باعمل مولانا ابوالکلام آزاد کا پاکستان سے متعلق نظریہ جسے دہرانے کی
ضرورت نہیں ہے ہم سبھی جانتے ہیں ۔
جب بھی لاہور جاتاہوں جسے ہی مینار پاکستان پر نظر پڑتی ہے میری آنکھوں میں
آزادی کامنظر دوڑنے لگتا ہے ۔مہاجروں کے قبیل سے ہوں ۔اپنے بڑوں سے آزادی
کی روداد بڑے ذوق سے سنتا آیا ہوں ۔جب بھی میں نے یہ منظر سنا تو آنکھیں
بھر آئیں اوروطن کی مٹی کو چوم کر اپنے درد کو کم کرنے کوشش کی ۔درد پھر
درد ہے کہاں کم ہوتا ہے ماضی اورحال کا تقابل مجھے روزانہ تحریک آزادی کے
سرفروشوں کی صف میں لاکھڑا کرتا ہے ۔من چاہتا ہے سب سے باری باری معذرت
کروں کہ جس عظیم مقصد کے لیے وطن عزیز کو تعمیر کیا گیا تھا وہ خواب شرمندہ
تعبیر نہ ہوسکا ،اسلام کا قلعہ تعمیر کرنے کی بجائے ہمارے حکمرانوں
اوراشرافیا نے اس عظیم بابرکت ریاست کو سیکولر سٹیٹ بنانے کے لیے ساری کوشش
صرف کررکھی ہیں ۔جہاں مسلمانوں نے باہمی احترام ومحبت سے رہنا تھا وہاں
نفرت ،کدورت دشمنیاں پھوٹ رہی ہیں مذہبی انتشار کے ساتھ ساتھ سیاسی نفرتوں
نے ریاست کے اداروں کو بھی گھیرے میں لے لیا ہے۔
مکار دشمن بھی یہی چاہتا ہے کہ وطن عزیز میں نفرت کی فصل بوئی جائے یہ مکار
دشمن نہ کبھی ہمارا دوست تھا نہ ہے اورنہ کبھی ہوگا ۔کبھی پاکستان کو مٹانے
کی سوچتا ہے توکبھی تنہاکرنے کی سازش بنتا ہے اور اب جب تمام تدبیریں ناکام
ہوچکی ہیں تو پانی کی بندش کے ذریعے ارض پاک کی سرزمین کو بنجر بنانا چاہتا
ہے مگر ہمارے خود غرض حکمران اس کی چالوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں جبکہ
ہندوستانی حکمران پنڈت چانکیا کے پیروکار ہیں اورسیاست کے گر پنڈت چانکیا
کی کتاب ارتھ شاستر سے سیکھتے ہیں اس کتاب میں میکاولی کی طرح سیاسی اصول
بیان کیے گئے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں :
’’میرے گرو کا کہنا ہے کہ صلح اوردوستی کا جومعاہدہ حلف اور دیانتداری سے
کیا جائے اسے توڑا جاسکتا ہے ‘‘اگر ہم 70برس پیچھے جھانکیں تو تاریخ بتائے
گی کہ کس مکاری، دغا اور فریب کے ذریعے بھارت نے کشمیر پر قبضہ جمایا تھا
اور پھر اپنی گھناؤنی کارروائی اور غاصبانہ قبضے پر پردہ ڈالنے کے لیے پنڈت
جواہر لال نہرو نے بین الاقوامی سطح پر یہشور الاپنا شروع کیا تھا کہ بھارت
کے ساتھ کشمیر کا الحاق عارضی ہے اور الحاق کا حتمی فیصلہ جموں و کشمیر کے
عوام کی آزادانہ رائے شماری کے ذریعے کروایاجائے گا کہ وہ بھارت کے ساتھ
رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ اس بارے میں 27اکتوبر 1947ء کو جواہر
لال نہرو نے برطانیہ کے وزیر اعظم کو اس مضمون کا تار بھیجا: میں صاف صاف
بتادینا چاہتا ہوں کہ ان ہنگامی حالات میں کشمیر کو فوجی مدد پہنچانے کا
ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ریاست کو بھارت کے ساتھ الحاق پر مجبور کیا جائے۔ ہم
نے اپنے نقطۂ نظر کی بار بار وضاحت کردی ہے کہ کسی متنازعہ علاقے یا ریاست
کے حتمی الحاق کا فیصلہ وہاں کے عوام کی خواہشات کے عین مطابق کیا جائے گا۔
غورکیجئے ! گزشتہ 69سالوں سے بھارت جموں کشمیر کو اٹوٹ انگ کہے جارہا ہے
اوراقوام متحدہ کی قراردادوں کے پروا کیے بغیر جموں کشمیر پر قبضہ جمائے
ہوئے ۔انسانی حقوق کی پامالی روز مرہ کا تماشا بن چکی ہے ۔انسانیت کی تذلیت
کرتے ہوئے جمہوریت کے نام نہاد چمپئن کو ذرہ بھر شرم نہیں آتی ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا
پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کے لیے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔اس معاہدے
کے ضامن میں عالمی بینک بھی شامل ہے۔معاہدے کے تحت بھارت کو پنجاب میں بہنے
والے تین مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کا زیادہ پانی ملے گا یعنی اُس
کا ان دریاؤں پر کنٹرول زیادہ ہو گا۔جب کہ جموں و کشمیر سے نکلنے والے
مغربی دریاؤں چناب اور جہلم اور سندھ کا زیادہ پانی پاکستان کو استعمال
کرنے کی اجازت ہو گی۔پہلے پہل نریندر مودی نے اس بین الاقوامی معاہدہ کو
ختم کرنے سے متعلق اشارہ دیا بعدازاں کشن گنگا ڈیم کا افتتاح کرکے سندھ طاس
معاہدہ کی دھجیاں اڑا دیں پاکستان ورلڈ بینک کے پاس دوڑ تاکہ سفارتی ذرائع
استعمال کرتے ہوئے بھارتی حکومت کو پاکستانی پانی پر قبضہ کرنے سے روک سکے
ورلڈ بینک نے سفید جھنڈی دکھا دی اورپاکستانی کو دونوں محاذوں پر ندامت
اٹھانا پڑی ۔
کنٹرول لائن پر بھارت سیز فائر معاہدہ کی اکثر خلاف ورزی کرتا رہتا ہے ۔جس
کی وجہ سے معصوم نہتے پاکستان شہری اپنی جانیں قربان کرتے رہتے ہیں یہ
معمول کا عمل بن چکا ہے مندرجہ بالا تینوں امثال سے واضح ہوگیا ہے کہ بھارت
اپنے کسی بھی موقف پر ڈٹ نہیں سکتا کیونکہ عیاری اورمکاری بھارتی ذہنیت کی
عکاس ہے ۔جناب پنڈت چانکیا مزید رقمطراز ہیں ’’اگر تم نے طاقت حاصل کرلی ہے
تواپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ کئے ہوئے صلح ،امن اوردوستی کے معاہدے توڑ دو
‘‘ مزید قمطراز ہیں ’’کمزور پڑوسی کو کمزور رکھو ،خود طاقتور بنو پھر تم
کمزور پڑوسی کے سرپرست بن سکو گے ۔دوسروں کو اپنا غلام بنانے کی اور
حکمرانی کی ہوس کو دل میں ہمیشہ زندہ رکھو اور پڑوسی ملکوں کو ہمیشہ دشمن
سمجھو۔جو ملک تم سے دور اورطاقتورہیں ان کے ساتھ دوستی قائم کرو ۔مزید
عیاری سکھاتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جن ملکوں کے ساتھ دوستی رکھو ،ان کی دوستی
میں اپنی غرض کو دل میں رکھو،سیاست میں عیاری اورمکاری سے کام لو ،خواہ
تمہیں ساری دنیا مجبور کرے پڑوسی ملکوں کے ساتھ امن کی کبھی نہ سوچو
اورکمزور پڑوسی پر عقاب کی طرح جھپٹو ،اس پر غلبہ پالوتو اسے بھڑیوں کی طرح
چیرپھاڑ دو اور اگر وہ طاقتور نکلے تو خرگوش کی طرح بھاگو ‘‘
بھارتی حکمران سیاست میں اسی فلسفے کے قائل رہے ہیں مہاتما گاندھی جی ہوں
یا جواہر لال نہرو ،واجپائی ہوں یا نریندر مودی سبھی پنڈت چانکیا کے
پیروکار رہے ہیں ،بھارتی فلسفہ عدم تشدد کے پیچھے حقیقی فلسفہ تشدد
کارفرماہے یہ نظریہ انہیں وراثت میں ملا ہے یہی نظریہ یہودیوں کا ہے ۔دونوں
کا نظریہ تشدد مشترک ہے ۔یہودیوں کی صفات پر غور کیجئے ،سود خود ،مکروفریب
دینے والے ،مفاد پرستی کے پنجرے میں بند،فتنہ پروری کرنے والے ،چاپلوسی
اورچرب زبانی کے بل بوتے پر لوگوں میں بدعقیدگی پھیلانے والے دغا باز عیار
اورمکار ،یہی صفات اکھنڈ بھارت کا راغ الاپنے والوں کی بھی ہیں ۔ان دونوں
قوموں کو جہاں اقتدار میسر آیا انہوں وہاں وہاں خونریز ی اورعصمت دری کے
مرتکب ہوئے ۔انسانوں کو مختلف قسم کے طبقات میں تقسیم کرنے کی روش ڈالی
،ویش ،شودر،برہمن ،کھشتری ،بھیل ،درادڑ اورمنگول اس کی امثال ہیں ۔۔۔۔جاری
ہے |