پیپلز پارٹی ۔ ن لیگ ، ق لیگ پھر ن لیگ، اور اب پی ٹی آئی
یہ ہے وہ سیاسی چکر جس میں الیکٹ ابلز قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے
ہیں۔نواز شریف جب سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے لگتا یہی
تھا کہ وہ اب کبھی پاکستان نہیں آسکیں گے اُس وقت جو سیاسی خلاء تھا اُسے
مشرف کی آشیر باد سے بننے والی مسلم لیگ ق پُر کیے ہوئے تھی۔نواز شریف کی
جلاوطنی بے نظیر کا قتل سیاسی منظر بدل گیااور آصف زرداری مرکز میں اور
شہباز شریف پنجاب میں براجمان ہوگئے۔ شہباز شریف کو پنجاب میں مسلسل دس سال
بلا شرکت غیرے حکومت کرنے کو ملی۔شہباز شریف انتہائی مستعد چاک و بند اور
انتہائی فعال رہے لیکن پنجاب کی عوام کی زندگیوں میں سوائے اورنج ٹرین
میٹرو ٹرین اور چند پُلوں کے سوا کچھ نہیں۔ پیپلز پارٹی بائیں بازو کی
جماعت اور ن لیگ نے ہمیشہ دائیں بازو کی جماعت ہونے کا تاثر دیا۔ ن لیگ کا
قیام ہی ضیا ء کی پیداوار تھا۔ ق لیگ مشرف کی پیداوار تھی ۔ اِس وقت جو اہم
سٹیک ہولدڑز اِس الیکشن 2018 میں نظر آرہے ہیں اِن میں ن لیگ، پی ٹی آئی ہے
مذہبی جماعتیں جن میں متحدہ مجلس عمل، لبیک یار سول اﷲ، پی ایس پی وغیرہ
وغیرہ ہیں۔
اب آتے ہیں اِس الیکشن کے حوالے سے کہ قوم اِس کو کس طرح دیکھ رہی ہے۔ نواز
شریف کا اقامہ کیس میں نا اہل ہونا اور لندن فلیٹس پانامہ کے معاملات میں
جس طرح عدالتیں نواز شریف کو ٹف ٹائم دئے رہی ہیں اور نواز شریف نے کبھی
شیخ مجیب کی مثال دے کر اور کبھی خلائی مخلوق کا بیانیہ دئے کر کا فی ہاتھ
پاؤں مارئے ہیں۔ اُن کے خلاف عدالتوں میں کیس چل رہے ہیں۔نواز شریف اِس وقت
زندگی کی سب سے بڑی جنگ لڑ رہا ہے اُس نے خود کو عوامی مہم کے لیے وقف کیا
ہوا ہے اور اپنی بیٹی مریم نواز کو اپنا سیاسی جانشین بنایا ہوا ہے۔ نواز
شریف گلی گلی قریہ قریہ مجھے کیوں نکالا کا رونا رو رہاہے۔
اِس وقت جو منظر نامہ بنا ہوا ہے اُسکے مطابق چونکہ پی ٹی آئی کو اِس وقت
ہر طرف سے آشیر باد حاصل ہے اِس لیے اُس کا طوطی بول رہا ہے۔ عمران خان کی
جانب سے مخلص اور پرانے ساتھیوں کی بجائے ن لیگ اور پی پی پی چھوڑ کر آنے
والوں کو پارٹی ٹکٹ دینے کا صاف مطلب ہے کہ عمران کی ڈور کہاں سے ہلائی
جارہی ہے۔ جب ظفر اﷲ جمالی جیسے شریف لوگ بھی پی ٹی آئی کے حمایتی بن جائیں
جب بقول ن لیگ والوں کے ہیں پارٹی چھوڑنے کے لیے دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں
تو بات ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی کے سر پر کامیابی کا ہُما بٹھایا جائے گا۔
سب سے اہم بات جس کا ذکر محترم مظہر برلاس صاحب جو کہ ہمارئے ورلڈ کالمسٹ
کلب کے مرکزی صدر بھی ہیں اُن کی بات پر وطن سے محبت کرنے والوں کا کان
دھرنا ضروری ہے۔اُنھوں نے فرمایا ہے کہ" اگلا منظر زیادہ خوفناک ہے۔ اس میں
کئی خطرناک کھیل شروع کردیئے جائیں گے۔ یہ کھیل عید کے بعد شروع ہونے والا
ہے۔ عید کے بعد منظور پشتین جیسے کئی گھٹیا کردار سامنے آئیں گے۔ یہ چھوٹی
چھوٹی تحریکوں کے نام پر سامنے آئیں گے۔ ان تحریکوں کو ’’اچکزئی نظریے‘‘ کے
پاسبان سپورٹ کریں گے۔ اس سلسلے میں گلگت میں بھی کام شروع ہوچکا ہے۔ کوئٹہ
کے اندر لوگوں کو بہلانے پھسلانے والے بھی سرگرم ہیں۔ لندن میں بیٹھا ہوا
ایک کالا کردارکراچی اور حیدر آباد کے کئی کرداروں سے رابطے میں ہے۔ عید کے
بعد جب شریف خاندان کے لوگوں کوسزا ہوگی تو ’’اچکزئی نظریہ‘‘ پنجاب میں نظر
آئے گا۔ سڑکوں پرہنگامے ہوں گے۔ اس دوران لوڈشیڈنگ بھی ہوگی، لوگوں کوکئی
اور مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک سیاسی جماعت پیسے کے زور پر پاک فوج
کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلائے گی۔ ان کے سارے سوشل میڈیا کنونشن سرگرم
ہوجائیں گے۔ اس دوران بیرونی میڈیا سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ چند بیرونی
طاقتیں پاکستان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے چکر میں ہیں۔ اسی لئے تو پاکستان
کو پانی سے محروم کیاجارہا ہے۔ افراتفری، ہنگاموں اور احتجاجوں کاعروج
جولائی میں ہونے والے الیکشن کو کھا جائے گا۔ جن لوگوں کو ابھی بھی یقین
نہیں آرہا وہ کچھ دن انتظار کرلیں کیونکہ شہبازشریف اور نواز شریف ایک
نظریے پرمتفق ہوچکے ہیں۔ شریف فیملی کے جس آخری فرد کا جہاں کہیں بھی خاص
رابطہ تھا، اب وہ بھی ٹوٹ چکا ہے۔ بس ٹوٹ پھوٹ کا یہ عمل منظرنامے کی اگلی
بدصورتی بیان کر رہا ہے اور اگلی بدصورتی یہی ہوگی کہ 25جولائی کو الیکشن
نہیں ہوں گے۔ الیکشن جب بھی ہوئے اس سے پہلے صفائی ستھرائی ضرور ہوگی۔
حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان سے پیار کرنے والے ایک ہو جائیں کیونکہ
پاکستان کے دشمن ہمارے وطن کے خلاف ایک ہوچکے ہیں اور انہیں ملک کے اندر سے
’’اچکزئی نظریے‘‘ کے حامل کئی افراد میسر ہیں۔" قارئین کرام: مظہر برلاس
صاحب کا پیغام ہمیں بہت کچھ سوچنے کی دعو ت دے رہا ہے۔ اﷲ پاک پاکستان کی
حفاظت فرمائے (آمین) |