ڈیرہ اسماعیل خان کو ہمیشہ سے ہر ہونے والے قومی الیکشنز
میں ایک نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے جس کی وجہ یہاں سے پہلے مولانا مفتی
محمود اور اب جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا آبائی حلقہ
ہونا ہے ۔اس شہر کی آبادی گو کہ اب پندرہ لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے لیکن یہاں
پرقومی اسمبلی کی سیٹوں کی تعداد صرف دو این اے 38 اور این اے 39 ہی ہے
حالانکہ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے یہاں قومی اسمبلی کی چار نشستیں ہونی
چاہیں ایسانہ ہونے کے باعث ایک تو عوام کی حق تلفی ہوئی ہے ۔ان کی داد رسی
نہیں ہوپاتی دوسرے اتنی بڑی آبادی میں الیکشن لڑنا اسے کور کرنا ہر کسی کا
کام نہیں ہے ۔ویسے بھی پاکستان میں اب الیکشن کا کھیل کسی سفیدپوش ،متوسط
درجے کے آدمی کا کام رہا ہی نہیں ہے۔اس کے لئے کم ازکم کروڑ پتی ہونا ضروری
ہے ۔یعنی بنیادی خرابی ہمارے سسٹم میں عام آدمی کو اسمبلی میں جانے نہیں
دیتی جس کے باعث مسائل جن میں روٹی ،کپڑا ،مکان ،بجلی ،گیس ،روزگار ،پینے
کا صاف پانی ،صحت ،تعلیم ،انصاف ،آمدورفت کے ذرائع جوں کے توں رہتے ہیں ۔اسی
لیے ہر اسمبلی کی کارکردگی سوالیہ نشان رہتی ہے ۔ذکر ہورہاتھا ڈیرہ اسماعیل
خان کا کیونکہ یہ حلقہ مولانا فضل الرحمٰن کا آبائی حلقہ ہے ۔اس لئے اسے
ملکی اور غیر ملکی میڈیا خاصی کوریج دیتا ہے اور اس کے نتائج ملکی سیاست پر
کافی اثر انداز بھی ہوتے ہیں ۔ماضی میں مولانا کا حلقہ این اے 24 جو اب این
اے 38 اور 39 میں تبدیل ہوچکا ہے سے سالن میں تڑکا لگانے کے لئے تحریک
مساوات جماعت کی سربراہ سابقہ پشتو ،اردو اور پنجابی فلموں کی ہیروئین مسرت
شاہین بھی الیکشن لڑتی رہی ہیں ۔ان کا تعلق بھی ڈیرہ اسماعیل خان سے ہی ہے
لیکن وہ اب لاہور میں سکونت پزیر ہیں ۔ انہیں ایک سازش کے تحت یاوہ خود
اپنی مشہوری کے لئے یہاں سے قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیتی ہیں جسے
خاص کر مغربی ،ملکی میڈیا خوب اچھالتاہے۔ڈیرہ اسماعیل خان میں 2013 کے
الیکشن میں این اے 24 کی صرف ایک سیٹ تھی اب یہاں کی آبادی کے تناسب کے
مطابق تونہیں لیکن ایک مذید سیٹ این اے 39 حلقہ کا اضافہ کیاگیا ہے ۔این اے
24 جو اب این اے 38 ہے پہلے مولانا فضل الرحمٰن نے 2013 کے انتخابات میں
سابق سینٹر وقار احمد کے مقابلے میں بڑی مشکل سے فتح حاصل کی تھی اب بھی
یہاں 2018 کے الیکشن میں دونوں حلقوں پر ان کا مقابلہ سینٹر وقار ،پی ٹی
آئی کے علی امین گنڈہ پور ،پی پی پی کے فیصل کریم کنڈی اور پی ٹی آئی کے
شیخ یعقوب سے ہونا متوقع ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن
کی شخصیت بڑی بھاری بھر کم ہے لیکن یہاں کی تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بھی
امیدوار یہاں سے مسلسل کامیابی حاصل نہیں کرسکا ہے کیونکہ فتح کے بعد ان کی
کارکردگی سے عوام اتنی نالاں ہوجاتی ہے کہ وہ انہیں دوبارہ منتخب نہیں
کرواتی موجودہ صورتحال میں بھی ایسا ہی کچھ نظر آرہا ہے اگر ہم مولانا کی
کارکرگی کاعوام کی نظر سے گزشتہ پانچ سالوں کا جائزہ لیں تو یہ کسی بھی
طورپر حوصلہ افزاء نہیں ہے ۔مولانا برادران اور ان کی جماعت کے بارے میں جو
عام شکایت ان کے حلقہ کے ووٹروں کو ہوتی ہے وہ ان کا عوام سے رابطہ کافقدان
،الیکشن کے دنوں میں موصوف عوام کو نظر آتے ہیں ۔بعدازاں ان سے ملاقات
توچھوڑیں فون پر بات کرنا ان کی اپنی جماعت کے لوگوں کے لئے ہی مشکل ہوجاتا
ہے ۔عوام اپنا دھکڑا اپنے عوامی نمائندے کو سنانا چاہتے ہیں لیکن جے یو آئی
ف میں یہ ناممکن ہے صرف چند درباری قسم کے کارکنان اور عہدیداران سے ملاقات
کرنے کو ہی سب کچھ سمجھ لیا جاتا ہے ۔درباری سب اوکے کی رپورٹ دیتے ہیں کسی
قسم کی مخالفت برداشت بھی نہیں کی جاتی ۔مولانا کے دور میں واپڈا ،گیس کے
محکموں نے عوام کا بھرکس نکال دیا لیکن دادرسی کرنے والا کوئی نہیں سی پیک
کا مغربی روٹ جسے سب سے پہلے مکمل ہونا تھا صرف ایک دو رویہ روڈ میں بدل
گیا ہے ۔چالو ایئر پورٹ بند ہوگیا۔لفٹ بینک کنال کا منصوبہ جوں کا توں رہا
۔عوامی رابطے میں کمی اور اجتماعی مسائل سے چشم پوشی یہ بتاتی ہے کہ الیکشن
میں انہیں پی ٹی آئی کے علی امین ،شیخ یعقوب اورسینٹر وقار کے مقابلے میں
کافی زور لگاناپڑے گا لیکن تمام تر خامیوں کے باوجود ان کا اپنا ووٹ بینک
موجود ہے اور اہم فائدہ ان کو یہ ہوتا ہے کہ ووٹ بہت زیادہ تقسیم ہوجانے کے
باعث انہیں کامیابی مل جاتی ہے ۔دوسرے کتاب ،اسلام کا نام بھی مذہبی حلقوں
میں کام دکھاجاتا ہے۔بہر حال این اے 38 میں کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے ۔حلقہ
این اے 38 اور 39 سے شنید ہے کہ یہاں سے مولانافضل الرحمٰن کے علاوہ پی ٹی
آئی کے شیخ یعقوب مضبوط امیدوار ہیں جبکہ میانخیل برادران کے قیضار خان
میانخیل نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں یہاں پر تمام امیدواروں میں
زبردست مقابلے کی توقع کی جارہی ہے ۔جے یو آئی (ف) کا ووٹ بینک تحصیل پروا
اور دیگر دیہاتی حلقوں میں موجود ہے ۔شیخ محمد یعقوب جوکہ دو دفعہ سینٹ کا
الیکشن جے یوآئی (ف) کی حمایت سے لڑ کر ہار چکے ہیں ۔دلبرداشتہ ہوکر پی ٹی
آئی میں شامل ہوگئے ۔انہوں نے ڈیرہ میں ایک شوگر ملز بھی لگائی ہے جوکہ
آخری مراحل میں ہے وہ اپنی شخصیت کے بل بوتے پر مضبوط امیدوار گردانے جارہے
ہیں جبکہ قیضار خان میانخیل کو بھی ان کی سماجی خدمات ،وکلاء برادری میں
حلقہ اثر رکھنے اور میانخیل براردی کا پروا تحصیل میں ووٹ بینک موجود ہونے
کے باعث کسی بھی طور پر کمزور امیدوار نہیں کہا جاسکتا ۔اس حلقے کے ووٹرز
بھی مولانا برادران کے عوام سے روابط نہ رکھنے کے باعث جے یو آئی(ف)سے
نالاں ہیں ۔بہر حال اس مرتبہ بھی ماضی کی طرح ڈیرہ کا حلقہ جولائی 2018 کے
الیکشن میں ملکی اور عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہے گا۔
٭٭٭
|