مسلمانوں کے زوال کے اسباب

 کون رکھے گا ہمیں یاد اس دور خود غرضی میں حالات ایسے ہیں کہ لوگوں کو خدا یاد نہیں
ہم کون ہیں کیا ہیں با خدا یاد نہیں اپنے اسلا ف کی کوئی بھی ادا یاد نہیں
ہے اگر یاد تو کافر کے ترانے ہی بس ہے اگر نہیں یاد تو مسجد کی صدا یاد نہیں
بنت حوا کو نچاتے ہیں سرعام محفل میں کتنے سنگ دل ہیں کے رسم حیا ء یاد نہیں
آج اپنی ذلت کا سبب یہی ہے شاید سب کچھ ہے یاد مگر خدا یاد نہیں

قوموں کو ترقی کی منازل طے کرانے اور پستی سے بچانے کے لیے تاریخ ہی ایک زبردست اور نہایت قیمتی ذریعہ ہے۔قومیں جب کبھی قعر و مذلت سے بام ترقی کی طرف متحرک ہوئی ہیں تو انہوں نے تاریخ کو ہی سب سے بڑا محرک پایا ہے ۔چنانچہ قرآن پاک نے بھی یہ بتایا ہے کہ سعادت انسانی اور دین و دنیا کی کامرانی حاصل کرنے کے لیے تاریخ کا مطالعہ نہایت ضروری ہے ۔چنانچہ اﷲ تعالی نے قوموں کو عبرت پذیر اور نصیحت یاب ہونے کے لیے کلام پاک میں جابجا سابقہ امتوں کے حالات یاد دلائے ہیں کہ فلاں قوم نے اپنی بد اعمالیوں سے کیسے نتائج دیکھے اور فلاں قوم اپنے اعمال حسنہ کی وجہ سے کیسے کامیاب و کامران ہوئی یہ سچے اور یقینی حالات اس لیے ہمارے سامنے پیش کیے گے تاکہ ہمارے اندر نیک کام کرنے کی ہمت اور بد اعمالیوں سے دور رہنے کی جرات پیدا ہو اور ہم اپنے حال کو بہترین مستقبل کا ذریعہ بنا سکیں ۔انبیاء کرام جو بنی نوع انسان کے لیے سب سے بڑے محسن اور سب سے زیادہ خیر خواہ بن کر آئے انہوں نے جب کسی قوم کو ہلاکت سے سے بچانے کی سعی و کوشش کی تو انہوں نے اس قوم کو عہد ماضی کی تاریخ یاد دلائی سابقہ قوموں کی ذلالت و پستی اور کامیابی و کامرانی کے قصے سنائے ۔

اقوام عالم میں صرف مسلمان ہی وہ واحد قوم ہے جو سب سے زیادہ شاندار ماضی اور تاریخ رکھتی ہے لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے مسلمان جو کہ شاندار ماضی اور تاریخ رکھتے ہیں وہی قوم سب سے زیادہ اپنے ماضی اور اپنی تاریخ سے ناواقف اور غافل نظر آتے ہیں ۔وہ قومیں جو شاندار ماضی اور تاریخ نہیں رکھتیں وہ فرضی افسانوں اور جھوٹے قصوں کی تصنیف و تالیف میں مصروف ہیں اور ان فرضی قصوں کو تاریخی جامہ پہنا کر افراد و قوم اور نو جوانانِ ملک کے سامنے اس طرح پیش کر رہی ہیں کہ دنیا کو ان کی صداقت کا یقین ہو جائے اور بہت زیادہ حد تک ان فرضی کہانیوں اور افسانوں کو حقیقت کا روپ دے کر مسلمانوں کی حقیقی تاریخی کامیابیوں کے مقابلے میں لا کھڑا کر دیا ہے تاکہ مسلمان اپنی تقریروں اپنے لیکچروں اپنے مضمونوں رسالوں اخباروں اور کتابوں میں جہاں کہیں بھی کسی فرد کی نظیر و تمثیل کا احتیاج ہو تو فورا یورپ کے کسی مشہور یا فرضی کہانی کے ہیرو کا نام زبان اور قلم پر بلا تکلف جاری ہو جائے ۔اس حقیقت سے کوئی بھی انکا ر نہیں کر سکتا کہ مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقے اور علوم جدیدہ سے واقف مسلمان اپنی تقریروں اور تحریروں میں جس قدر یورپ کے مشاہیر کا نام آتا ہے مجال ہے ایسی کثرت سے کسی مسلمان ہیرو جیسے خالد بن ولید ؓ یا صلاح الدین ایوبیؒکا یا کسی اور مسلم ہیرو کا نام تلاش کیا جاتا ہو ۔اس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمان اپنی تاریخ سے ناواقف اور غافل ہیں ۔مسلمانوں کی ناواقفیت اور غفلت کا سبب یہ ہے کہ اول تو علم کا شوق دوسری قوموں کے مقابلے میں کم اور دوسری بات یہ کہ علم حاصل کرنے کے مواقع اور فرصتیں میسر نہیں اور تیسری بات یہ کہ علوم جدیدہ کی تقلید میں مست یونیورسٹیوں کی بھر مار، جدیدعلوم کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی اور حکومت کے عدم تحفظ کے شکار اسلامی اداروں کا تقریبا ناپید ہو جانا سبب ہے ۔ ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ مسلمانوں کواسی اسلامی تاریخ پر اعتماد کرنا پڑتا ہے جو مسلمانوں کے رقیبوں یا مخالفوں کی مرتب کی ہوئی مسخ شدہ انگریزی تصانیف میں موجود ہے ۔لہذا اسلامی معلومات کی کمی اور دوسری قوموں کے من گھرٹ افسانے اور کہانیاں مسلمانوں کے ذہنوں کو تباہ کر رہیں ہیں ۔ہمارا زوال یہیں ہے کہ ہم ویسے ہی ہوتے جارہے ہیں جو یورپ والے چاہتے ہیں یہی ہمارا زوال ہے ۔لہذا اس پر سوچنے کی ضرورت ہے ۔

اب دوسری معاشرتی برائیوں کی طرف آتے ہیں جو ہم میں باکثرت پائی جاتی ہیں ۔ ہم مسلمان اتنی تیزی سے پستی کی طرف کیوں جارہے ہیں کیا ہم میں سے کسی نے سوچا ہے کہ اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں ۔وہ کونسی برائی ہے جو ہمارے اندر نہیں ہے کاروبار میں بے ایمانی ہم کرتے ہیں ناپ تول میں کمی ہم کرتے ہیں شراب ہم پیتے ہیں اور بیچتے بھی ہم ہی ہیں۔مسلمان کی بیٹی کو سر عام مسلمان ہی نچواتے ہیں ۔ہر معاشرتی برائی ہمارے اندر موجود ہے لیکن کبھی غور کرنے کی ہمیں نوبت ہی نہیں آئی ۔ہم اپنے زوال کا سبب خود بن رہے ہیں ۔ ہمارا تعلیمی نظام ہمارا معاشرتی نظام ہمارا معاشی نظام با الفاظ ِ دیگر ہماری زندگی کے ہر معاملات اسلامی طریقوں سے متصادم اور مخالف ہیں تو پھر ہم ترقی کی امید کیسے کر سکتے ہیں ؟

ایک اور اہم بات جو ہمارے زوال کا سبب بن رہی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے آپس میں ذاتی اختلافات اور نا اتفاقی ہے اگر آپ مسلمانوں کے ملکوں پر نظر دوڑائیں تو دنیا کے چھپن ممالک وسیع وسائل سے مالا مال اندرونی خلفشار کا شکار نظر آتے ہیں ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ لڑائی یہ خلفشار صرف اور صرف مسلمان ممالک کے اندر ہی کیوں ہے یہ آگ صرف مسلمان ملکوں کے اندر ہی کیوں لگی ہوئی ہے یورپ اتنا پرسکون کیوں ہے وہاں ایسا ہنگامہ کیوں نہیں ۔حقیقت یہی ہے ہمارے اسلامی ممالک میں لگائی کی نفرت کی آگ انہی کی ہے ۔ لہذا مسلمانوں کو ایسے حالات میں سوچبے کی نہیں بلکہ عملی طور پر کچھ کرنے کی ضرورت ہے اپنے باہمی مسائل کو باہمی کوششوں سے حل کرنے کی ضرورت ہے ۔اپنے زندگی کے معاملات چاہے وہ معاشرتی ہوں معاشی ہوں یادیگر ان سب معاملات کو اسلامی دائرے کے اندر حل کرنے کی ضرورت ہے تو کامیابی یقینا ہمارا مقدر بنے گی ۔
 

Faisal Tufail
About the Author: Faisal Tufail Read More Articles by Faisal Tufail: 17 Articles with 24690 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.