مراسلہ: نمرہ فرقان ، کراچی
وہ سارے رمضان خوب اہتمام اور خشوع و خضوع کے ساتھ روزے رکھتی رہی۔ اس بار
وہ بہت خوش تھی کہ اس نے ایک بہترین رمضان گزارا ہے۔ آج بھی وہ افطاری کی
تیاری میں کچن میں مصروف تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی، دیکھا تو اسکول کی
پرانی سہیلی فائزہ جو قریب ہی رہتی تھی، افطار کی ٹرے سجائے دروازے پر کھڑی
تھی۔ فائزہ معمولی شکل و صورت کی مالک تھی مگر اس کا صاف دل اور خوب سیرت
تھیں۔ محلے بھر میں فائزہ کی تعریفیں اسے بہت گراں گزرتی تھیں۔ فائزہ نے
ٹرے اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے گلے لگ کر مسرت کا اظہار کیا اور باتیں
کرنے لگی۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ کیا مصیبت ہے اب اس کی باتیں سننی پڑیں
گی۔ گھر میں داخل ہوتے ہوئے فائزہ کو دیکھ کر اسے اندازہ ہوا کہ شاید وہ
بیمار تھی کیونکہ اسے چلنے میں کچھ دشواری کا سامنا تھا۔ اس نے جھوٹے منہ
حال پوچھنا تک گوارا نہ کیا اور چند رسمی باتوں کے بعد فائزہ پر طنز کے تیر
چلانے لگی۔ کچھ دیر باتیں سننے کے بعد فائزہ نے روہانسی ہو کر کہا کہ میں
روزے سے ہوں اور اجازت چاہتی ہوں۔ اس کی سرخ آنکھیں اس کے دکھتے دل کا پتا
دے رہی تھیں۔ فائزہ رخصت ہوئی تو اس کی کزن کا فون آگیا۔ ہاں ہاں میرے روزے
تو بہترین گزر رہے ہیں۔ اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے توفیق دی میں نے
تو اتنی عبادت کی ہے تمام طاق راتوں میں بھی جاگی ہوں۔ تم سناؤ تمہارے روزے
کیسے گزر رہے ہیں۔ وہ تمام چیزوں سے بے پروا کزن سے باتوں میں مشغول ہو گئی۔
دور کہیں اندر شیطان بیٹھا اس کی باتوں پر مسکرا رہا تھا۔
|