سیاست میں کوئی معیار نہیں

میرے لئے یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ الیکشن کمیشن نے عبوری وزیر اعلیٰ کے لئے ایک استاد ، جامعہ پنجاب کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کے سابق پروفیسر جناب حسن عسکری کا انتخاب کیا اور انہوں نے پنجاب کے عبوری وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھال کر کام شروع کر دیا ہے۔تعلیمی حلقوں میں ان کی تقرری پر خوشی کا اظہار کیا گیا ہے اوراسے ایک بہت اچھے اقدام کے طور پر لیا گیا ہے۔ذاتی طور پر مجھے انتہائی خوشی ہے اس لئے کہ اساتذہ مڈل کلاس کا سب سے پڑھا طبقہ ہیں اور دنیا بھر میں جہاں جہاں مالی قدروں کو مات دے کر اخلاقی قدریں سیاست میں پوری طرح داخل ہو گئی ہیں وہاں سیاست کے میدان میں اس طبقے کے لوگ اپنی خدمات سے اپنے ملک اور قوم کو پوری طرح مستفید کر رہے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کی بہت سی یونیورسٹیوں کے پروفیسرضرورت کے وقت بحیثیت وزیر اور مشیر کام کرتے اور وزارت سے فارغ ہو تے ہی دوبارہ تدریس سے منسلک ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں الیکشن اس قدر مہنگا بنا دیا گیا ہے کہ عام آدمی خصوصاً مڈل کلاس کے لوگ سیاست میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔چند دن پہلے ایک پرانے اور محنتی سیاسی ورکر سے ملاقات ہوئی ۔ پچھلے الیکشن میں وہ صوبائی نشست چند سو ووٹوں سے ہار گئے تھے۔ ان کی پارٹی اس دفعہ مقبول بھی ہے اور وہ خود بھی تین چار دفعہ ناظم رہے اور اور اپنے علاقے میں بہت اثر رسوخ رکھتے ہیں۔ بظاہر ان کی پوزیشن بہت مستحکم ہے ۔ اسی حوالے سے میں نے پوچھا کہ الیکشن لڑ رہے ہیں ، کہنے لگے نہیں۔ وجہ پوچھی تو بتانے لگے کہ پچھلے الیکشن میں اس قدر خرچہ ہو گیا تھا کہ وہ قرض ابھی تک نہیں چکا سکا۔ میرے ایک سوال کے جواب میں سیاسی پارٹیوں کے حوالے سے افسوس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر پارٹی مالی طور پر کمزور سیاسی ورکر کی مدد کرنے کی بجائے اس سے بھی کچھ نہ کچھ پارٹی فنڈ حاصل کرنے کی کوشش میں ہوتی ہے بلکہ اب تو سچی بات یہ کہ مالی طور پر کمزور سیاسی کارکن کی الیکشن کے معاملے پر حوصلہ شکنی کرتی ہے۔

میں حیران ہوں کہ الیکشن لڑنے کے لئے امیدوار کی اہلیت کے بارے کوئی معیار ہی نہیں ۔ ٹکٹ دینے کے لئے پارٹیاں ایسے لوگوں کوکمیٹی کا ممبربناتیں ہیں جن کی کرپشن کے بارے بہت سی داستانیں ہر آدمی کو معلوم ہیں ۔ ان سے کسی معیار کو قائم رکھنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ایک سیاسی پارٹی کی طرف سے ایک مشہور گلوکار کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ وہ ایسا مکروہ شخص ہے کہ میڈیا پر قران اور حدیث کی باتیں کرتا ہے اور عام زندگی میں سادہ لوح نوجوان بچیوں کے ساتھ جو کچھ کرتا ہے وہ باعث شرم ہی نہیں اس سے بھی بہت زیادہ ہے۔ میں اس کے ریٹرنگ آفیسر، چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس آف پاکستان کو تمام ثبوتوں کے ساتھ اس کے خلاف لکھ رہا ہوں۔ گو کچھ نہیں ہو گا مجھے اندازہ ہے کیونکہ ایسے لوگ بہت بااثر ہوتے ہیں اور خود کو بچانے کاآسانی سے بندوبست کر لیتے ہیں۔ بہت سے خدائی خدمت گار ان کی حمایت میں بھی نکل آتے ہیں مگر میں اپنا فرض پورا کروں گا۔

میرا یہ خواب تھاکہ کاش پاکستان میں بھی ایسے حالات پیدا ہوں کہ اخلاقی اقدار کے حامل ،علم اور شعور کے علم بردار،ملک کا سب سے پڑھے لکھے طبقے یعنی اساتذہ کے لئے بھی ایسے مواقع پیدا ہوں کہ وہ بھی اقتدار کا حصہ ہوں اور اس ملک میں علم اور اخلاق کی بالا دستی کے لئے کام کر سکیں۔گو ابھی وہ منزل بہت دور ہے مگر کسی نہ کسی انداز میں اس کی ابتدا تو ہوئی۔جناب حسن عسکری کی تعیناتی اس پرانے سڑے ہوئے سیاسی نظام کی عمارت میں پہلی نقب ہے۔آج جناب حسن عسکری کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سیاستدانوں کا یہ کہنا کہ اتنے پڑھے لکھے شخص کو وزیر اعلیٰ نہیں بننا چاہییے تھا۔ پیش کش ہو بھی گئی تھی تو انہیں خود انکار کر دینا چائیے تھا۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس ملک میں سیاستدانوں نے سیاست کو جہالت کی آماجگاہ بنا یا ہوا ہے اور ان کے خیال میں اس میں کسی پڑھے لکھے آدمی کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ سیاست میں موجود نام نہاد پروفیسر اور ڈاکٹر سب جعلی ہیں۔ حقیقت میں ان کا تعلیم سے کوئی واسطہ نہیں۔ ایسے لیبل دکھاوے کے لئے ہوتے ہیں۔ اس بارے میں الیکشن کمیشن بھی مبارک باد کا مستحق ہے کہ انہوں نے ایک نئی روایت کی ابتدا کی اور پاکستانی سیاست میں علمی اور اخلاقی قدروں کو خوش آمدید کہنے کی جرات کی۔

احباب پوچھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں انسان ووٹ کس کو دے جب نظر آتا ہوکہ سیاست کا کوئی معیار نہیں۔ کوئی قدریں نہیں۔ شعور، علم، دانش، فکر، سوچ اور فہم و فراست تو یہاں کے سیاسی عناصر نے اپنے مفاد میں سیاست سے بے دخل کر دی ہے۔ یہ سب بے حس اور ملک کے مستقبل سے لاتعلق بے ضمیروں کے گروہ ہیں جو اپنے مفاد کے علاوہ کچھ نہیں سوچتے۔ ان کے مقابلے میں مذہبی حلقے ہیں۔ اس حلقے کے لوگ تہذیب سے نہ صرف آشنا ہی نہیں بلکہ اسلام کی روح کو بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔وہ جدیدیت کے مخالف ہیں ۔جدید علوم کے مخالف ہیں۔سائنسی علوم سے نابلد ہیں۔ان کے بھی اپنے مخصوص مفادات ہیں جو عام آدمی کو قابل قبول نہیں۔ان حالات میں کچھ سمجھ نہیں آتا۔ ووٹ نہ دینا بھی اس ملک کے ساتھ زیادتی ہے۔ میں بھی ووٹ کا استعمال کرتا ہوں اور ان سب برائیوں میں سے مجبوری میں سب سے کمتر برائی کا انتخاب کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ جلد حالات بدلیں گیاور سیاست میں اخلاقی قدروں کا دور دورا ہو گا۔آپ بھی ووٹ ضرور دیں ۔ کرپٹ عناصر کو بے نقاب کریں اور جو آپ کے خیال میں سب سے کم برا ہے اسے ووٹ دے کر اپنا قومی فرض پورا کریں۔باقی اﷲبہتر کرنے والا ہے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500657 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More