بالآخر ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ اُن کے مابین سنگا پور کے
قدرتی حسن سے مالا مال تفریحی جزیرے سینٹوسا میں ملاقات ہو گئی۔کیا اس
ملاقات سے دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی لُفّاظی جنگ ، دھمکیوں اور
کشیدگی کو لگام مل جائے گی۔یہ وہ کلیدی سوال ہے جو دونوں ممالک کے عوام کے
ذہنوں میں ہے او ر جس پر عالمی دنیا کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں۔اگر وقتی طور
پر دیکھا جائے تو کشیدگی میں کمی دیکھنے کو ملے گی لیکن یہ 38 منٹ کی ون ٹو
ون ملاقات مکمل کشیدگی کے خاتمے میں معاون ثابت نہیں ہو گی۔البتہ ملاقاتوں
کا یہ سلسلہ اگر چل نکل پڑتا ہے تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے نئے
باب کی اُمید کی جاسکتی ہے ۔اس مختصر سی ملاقات کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ
ٹرمپ نے مختصر بیان میں صحافیوں سے کہا کہ یہ ملاقات نہایت شاندار رہی۔ اس
کے بعد دونوں رہنماؤں کی سربراہی میں وفود کی سطح پر ایک اہم اجلاس منعقد
ہوا۔ اجلاس کے اختتام پر باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ
امریکہ اور شمالی کوریا نئے باہمی تعلقات کے لئے پُر عزم ہیں جو دونوں
ممالک کے عوام کی امن اور خوش حالی کی خواہشات پر استوار ہوں گے۔ اس کے
علاوہ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے
پاک کیا جائے گا ۔ تاہم شمالی کوریا پر پابندیاں اس وقت تک عائد رہیں گی جب
تک جوہری ہتھیاروں کو تلف کرنے سے متعلق یقین نہیں ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ
امریکہ نے جنوبی کوریا کیساتھ پہلے سے طے شدہ جنگی مشقوں کو مستقبل میں
مذکرات تک روک لیا ہے۔اس تاریخی ملاقات سے ہٹ کر اگر دونوں رہنماؤں کی
عادات کو دیکھا جائے تو حد سے زیادہ ضدی اور ہٹ دھرم پائے گئے ہیں اور ان
کے درمیان گزشتہ سترہ ماہ سے ہونے والی الفاظی جنگ سے یہ اندازہ لگانا کوئی
مشکل کام نہیں ہے کہ وہ کس حد تک ایک دوسرے پر گالم گلوچ اور لعن طعن میں
سبقت رکھتے ہیں۔سب سے اہم بات دونوں کی انا پرستی ہے کہ پہلی ملاقات نیوٹرل
وینیو پر طے پائی گئی۔ تاحال یہ ملاقات علاقائی اور عالمی امن کے لئے ایک
خیر سگالی کا جذبہ رکھتی ہے لیکن یہ دنیا مفادات کی سیاست سے بھری پڑی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر ملک کو اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔لہٰذا اس
ملاقات کے پیچھے بھی اپنے مفادات ضرور پوشیدہ ہوں گے جو آنے والے وقت میں
ظاہر ہو جائیں گے۔
امریکی پس منظر میں دیکھا جائے تو وہ اس وقت عالمی دنیا میں اسلحے کا سب سے
بڑا بیوپاری ملک ہے ۔وہ کیوں کر یہ چاہے گا کہ جزیرہ نما کوریا میں امن
قائم ہواور اسلحے کی فروخت جو اس وقت اس کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی
حیثیت رکھتی ہے ، وہ اس سے محروم رہے، یعنی یہ اُس کے لئے اپنے پاؤں پر
کلہاڑی مارنے کے مصداق ہوگا۔ماضی میں ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب دیکھا جائے تو
اس کے نتائج قطعاً تسلی بخش نہ تھے۔یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار
سنبھالنے کے بعد پہلا غیر ملکی دورہ تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب کا
کیا تھا ۔ حالاں کہ یہ دورہ ٹرمپ کے ’’اسلام فوبیا ‘‘ بیانات کے بالکل
برعکس ’’کہو کچھ، کرو کچھ ‘‘ کے مصداق تھا۔ دورہ باہمی تعاون کے بجائے
دفاعی اور اقتصادی نوعیت کا تھا۔ جس میں ساڑھے تین کھرب ڈالر کے دفاعی اور
تجارتی معاہدے طے پائے۔ جن میں ایک سو دس ارب ڈالر کی خطیر رقم سے امریکی
اسلحہ اور مہلک جنگی سازوسامان خریدا جائے گا۔ دورۂ سعودی عرب کے دوران
امریکہ عرب اسلامی کانفرنس کا سربراہی اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں
اکثراسلامی ممالک کے سربراہان نے شرکت کی تھی ۔ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں
ایران کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ خطے میں بڑھتی ہوئی
کشیدگی کا ذمہ دارہے لہٰذا تمام اسلامی ممالک کو چاہیئے کہ وہ ایران کو
عالمی سطح پر تنہا کر دیں۔ ٹرمپ کا دورۂ سعودی عرب کا بنیادی مقصد امریکہ
کی ڈوبتی ہوئی معیشت کے لئے کھربوں ڈالر کے معاہدے تھے اور مسلم دنیا کے
ایک اہم ملک قطر پر پابندیوں میں اہم کردار ادا کیا جس کے لئے یہ الزام
تراشہ گیا کہ قطر اخوان المسلمون ، حماس اور داعش جیسی تنظیموں کی مدد کرتا
ہے اور اُن کے قائدین کو پناہ بھی دیتا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ ایران کا غم
گسار ملک بھی ہے۔
شمالی کوریا کے پس منظر میں اگر ہم اس ملاقات کو دیکھیں تو اُس کو جوہری
پروگرام اور انسانی حقوق کی بد ترین صورت حال کے باعث عالمی سطح پر تنہائی
کے شکار کا خوف لگا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کم جونگ اُن عالمی رہنماؤں سے
ملاقاتیں کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ شمالی کوریا کی اندرونی
کہانی بھی کوئی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ اس حکومت کے ہاتھوں بہت سے عوام اپنی
جانوں سے گئے ہیں۔ پس ٹرمپ اور کم جونگ کی یہ ملاقات محض دکھاوے کے سوا کچھ
نہیں ہے اور عالمی دنیا بالخصوص جزیرہ نما کوریا کے عوام کی آنکھوں میں
دُھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ |