ماریہ نے عید کا چاند دیکھ کر دعا مانگی۔ عبید نے ہنس کر
اس سے پوچھا:
میری بیگم نے کیا کیا مانگا ؟
ماریہ نے ہنس کر کہا :
دعائیں مانگی جاتی ہیں بتائی نہیں جاتیں ۔
نیچے اترے تو ماریہ کے ساس سسر نے اس کو بلا کر پیار کیا اور عیدی کے طور
پر پچیس ہزار دئے ۔
ماریہ ابھی دو مہینے پہلے ہی بیاہ کر اس گھر میں آئی تھی ۔ماریہ کی میٹھی
طبیعت نے نہ صرف عبید بلکہ اس کے ساس سسر کا دل بھی موہ لیا تھا ۔عبید نے
اماں ابا سے ماریہ کو چاند رات شاپنگ پر لے جانے کی اجازت لی اور دونوں
میاں بیوی شاپنگ پر نکل گے ۔ماریہ نے چوڑیاں پہنیں،پھر مہندی لگوائی ۔ عبید
نے ماریہ کو شاپنگ کی آفر کی جو ماریہ نے بلاجھجھک قبول کرلی ۔ماریہ نے بچے
،بچیوں، مرد اور خواتین کے ملے جلے پچیس جوڑے خریدے ۔عبید نے سوچا کہ شاید
وہ اپنے میکے والوں کے لئے شاپنگ کررہی ہے ۔واپسی پر اس نے ڈھیر ساری اشیاء
خوردونوش بھی خریدیں ۔عبید دل ہی دل میں پچھتا رہا تھا کہ اس نے ماریہ کو
شاپنگ کی آفر کیوں کی۔اس کو اپنے آنے والی زندگی قلاش ہوتی نظر آرہی تھی ۔لیکن
جب وہ ماریہ کے خوشی سے دمکتے چہرے کو دیکھتا تو اپنے دل کو تسلی دیتا ۔
ابھی اس کی پہلی عید ہے رفتہ رفتہ ذمہ داریاں پڑینگی تو سدھر جائے گی ۔انھی
سوچوں میں وہ گھر پہنچ گئے ۔
صبح عید کی نماز پڑھ کر جب وہ واپس آیا تو ماریہ سجی دھجی تیار کھڑی تھی ۔اس
کو حیرت ہوئی کہ کل خریدے ہوئے نئے جوڑوں میں سے کوئی جوڑا پہننے کے بجائے
اس نے جہیز کا جوڑا پہنا ہوا تھا ۔عبید کو دل ہی دل میں ملال ہوا کہ اس کے
ساتھ خریدے ہوئے کسی جوڑے نے ماریہ کا دل نہیں لبھایا تھا کہ اس نے جہیز کا
جوڑا پہننا بہتر سمجھا ۔بجھے ہوئے دل سے اس نے ناشتہ کیا ۔ناشتے کے بعد
ماریہ نے بڑی شوخی سے اس کے آگے ہتھیلی پھیلائی اور کہنے لگی:
میری عیدی کہاں ہے؟
عبید کا منہ کسیلا ہوگیا اس نے سوچا:
"میری بیوی تو بہت ہی لالچی اور فضول خرچ عورت ہے ۔میں ساری عمر کماؤں گا
اور یہ گل چھرے اڑائے گی۔"
ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ ماریہ نے کہا :
" میں اپنی عیدی کے طور پر آپ کے ساتھ نالے والی کچی بستی جانا چاہتی ہوں۔"
عبید کو اس کی دماغی صحت کے مشکوک ہونے کا یقین ہوتا جارہا تھا ۔مگر اس نے
خاموشی سے سر ہلا دیا۔جب وہ گاڑی ریورس کررہا تھا تو ماریہ کے ساتھ اس کو
اپنے اماں ابا بھی آتے دکھائی دیئے ۔اس نے ان سب کے گاڑی میں بیٹھتے ہی
گاڑی کا رخ کچی آبادی کی طرف موڑ لیا ۔وہاں پہنچ کر اس نے سوچا :
یا اللہ! میری بیوی اب کیا تماشہ کرنے والی ہے؟ مگر اس کو بہت حیرت ہوئی جب
اس نے دیکھا کہ چاند رات کو کی گئی ساری کی ساری خریداری گاڑی کی ڈکی میں
موجود تھی۔ماریہ نے ایک بچے کو روک کر بستی کے لوگوں کو بلا کر لانے کا
کہا۔ان لوگوں کے جمع ہونے پر اس نے دیکھا کہ ماریہ نے اس کے اماں ابا کے
ہاتھوں سے چاند رات کو کی گئی ساری شاپنگ اور اشیائے خوردونوش غریب لوگوں
میں بنٹوا دیں ۔
ماریہ نے مڑ کر عبید کو کہا:
"مجھے اندازہ ہے آپ میرے روئے سے بدگمانی کا شکار ہورہے تھے۔
یہ ہے میری وہ عیدی جو ہر سال مجھے آپ سے چاہئے ۔"
عبید کی آنکھیں تشکر کے آنسوؤں سے بھیگ گئیں ۔ماریہ نے ہنس کر کہا؛
روزے ہم کو بھوکے اور پیاسے کا درد سکھاتے ہیں۔ہمارا تزکیہ نفس کرتے ہیں تو
کیا عید ہمیں خوشیاں بانٹنے کا سبق نہیں دیتی؟
عید امیر اور غریب سب کے لئے خوشی کا پیامبر ہے تو اگر اللہ نے ہمیں نوازا
ہے تو ہم کیوں نہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنی خوشیاں بانٹ سکتے؟ عبید نے بے
اختیار ہی ماریہ کے ہاتھ اپنی نم آنکھوں سے لگائے اور کہا :"تم اللہ کا
بہترین انعام ہو مجھے یقین ہے کہ تم مجھے کبھی بھٹکنے نہیں دوگئی ۔"
ہمیں اپنی خوشیوں میں سفید پوش ،غریب لوگوں کو شامل کرنا چاہئے ۔وقت ملے تو
ماریہ کی بات پر غور ضرور کیجئے گا اللہ ہمیں آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا
فرمائے ۔آمین ۔ |