حجاب عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کی تاریخ مذہب اسلام سے
ملتی ہے۔ عورت کا غیرمحروں اور اجنبیوں سے سر ڈھپنا خود کو پوشیدہ رکھنا
حجاب کہلاتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں پردہ‘ حجاب نامی کوئی چیز نہیں تھی۔ یہود‘
نصاریٰ‘ یونانی‘ ایرانی اور ہندو معاشرے کے افراد اپنی اپنی تہزیبوں و
تقاضوں پر عمل کرتے تھے۔ ان کے یہاں حجاب‘ پردے کا کوئی تصور یا قانون نہیں
تھا-دین اسلام آنے اور تیزی سے پھیلنے کے بعد حجاب کا تصور اس دنیا میں آیا۔
اسلام نے عورتوں کو غیرمردوں سے ڈھپنے کے لیے حجاب کی تعلیم دی۔
اسلامی کتاب یعنی قران پاک میں حجاب کا لفظ سات مرتبہ آیا ہے۔ جو جو خواتین
اسلام قبول کرتی گئیں وہ حجاب لیتی گئیں۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے پردے
کا رواج قاٰئم کیا۔ دور اسلام میں ہر مذہب کے لوگوں کو آزادی حاصل تھی اگر
کوئی نہیں لینا چاہتا تو وہ نہ لیتا اور اگر کوئی چایتا وہ لیتا سب اپنی
مرضی کے مالک تھے۔ سولہ سوء کے بعد انگریزوں کا دور آیا۔ دنیا میں انگریزوں
کے قانون چلنے لگے۔انگریزی حکومتوں نے دنیا میں رہنے والے مسلمانوں پر
مختلف قسم کی پابندیاں لگا دیں۔ جن میں سے ایک حجاب لینا بھی تھی۔ غیر مسلم
ممالک میں خواتین کا حجاب لینا جرم سمجھا جاتا ہے لیکن مسلم ممالک جیسے
پاکستان‘ ترکی‘ ایران‘ سعودی عرب اور مراکش آزاد ملک ہو کر بھی انگریزی
تہذیب اپنا رہی ہیں۔ کچھ مسلم ممالک آذاد ہو کر بھی آذاد نہیں ہیں۔ فلسطین
اور شام جیسے ممالک پر یہودیوں کا قبضہ ہے وہاں کی خواتین حجاب چہ کر بھی
نہیں لے سکتی۔ لیکن اس دنیا میں اب بھی ایسی خواتین ہیں جنہوں نے دور جدید
میں حجاب لینے کے طریقوں کو بھی جدید کردیا۔ اور اس دور میں غیر مسلموں کو
بھی حجاب سے متاصر کروایا۔ اب غیر مسلم خواتین قیشن کے طور پر حجاب لیتی
ہیں لیکن ان کا فیشن بھی مسلم خواتین پر لگی پابندیاں نہیں ہٹا سکا۔
ہر شحخص اقوام محتدہ سے یہ سوال کرتا ہے کہ مسلمانوں کے دور میں کسی مذہب
یا قوم پر کوئی پابندی تھی تو اب اس دور میں مسلمانوں پر یہ پابیدیاں کیوں۔
مسلمان اس دور میں آذاد نہیں۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ حجاب ایک عورت کی دلی
خوبصورتی ہوتا ہے جو خاص طور پر مسلم خواتین سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ |