گزشتہ دنوں اپوزیشن لیڈر چوہدری
نثار علی نے پارلیمنٹ کے باہر جس طرح کی زبان استعمال کی اور ایک سیاسی
جماعت کے قائد کی ذاتی زندگی کو نشانہ ہدف بنایا ظاہر ہے اس کے جواب میں
پھول تو برسنے سے رہے یہ فیصلہ کرنا کہ کس کی غلطی ہے اور کس کی نہیں اسکی
مثال کچھ اس طرح ہے “کہ بالفرض کوئی کسی دوسرے کے دامن پر کیچڑ اچھالے اور
جواباً دوسرا جب وہی عمل کرے تو پہلے کیچڑ اچھالنے والا معصومانہ انداز سے
انصاف چاہتے ہوئے یہ دلیل دے کہ دیکھیے جناب میں نے کیچڑ اچھالی تو ان کے
اتنے کپڑے خراب ہوئے جبکہ انہوں نے جواب میں جو کیچڑ اچھالی تو میرے کپڑے
زیادہ خراب ہوئے ہیں چنانچہ جواباً کیچڑ اچھالنے والے کو سزا دی جائے اور
مجھے تو معصوم اور شریف سمجھا جائے “ تو بھائی یہ معصومانہ سوچ رکھنے والا
اس طرح کے کام کرتا ہی کیوں ہے کہ منصف کسی کو شریف اور کسی کو غیر شریف
قرار دینے پر مجبور ہو۔
ن لیگ اور ایم کیو ایم کے لیڈران کی اسمبلی سے باہر گفتگو اسمبلی میں بھی
ہوسکتی تھی مگر ن لیگ والوں کو تماشہ کرنے اور بننے میں کچھ زیادہ ہی لطف
آتا ہے جیسا کہ ان کی صوبائی حکومت اس بات کی گواہی دینے کے لیے کافی ہے کہ
جتنے اسکینڈل اور تماشے بازی قوم نے ن لیگ کے منتخب اراکین صوبائی اسمبلی
کی دیکھی ہیں وہ کسی ایک جماعت تو کیا مجموعی طور پر پاکستان بھر کی تمام
سیاسی پارٹیوں نے مل کر بھی اپنے لیے نہ کروائی ہوں۔
غالباً ن لیگ نے محسوس کیا کہ ساڑھے تین سو سے زائد کے ایوان میں سو کے
قریب سیٹیں رکھنے والی ن لیگ کہیں ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور دوسرے
اتحادیوں کے درمیان سینڈوچ نا بن جائے چنانچہ بڑی پلاننگ کے ساتھ اسمبلی
میں تو چوہدری نثار صاحب نے خاموشی میں ہی اپنی عافیت سمجھی اور اسمبلی کے
باہر جب ایم کیو ایم اپنے اتحادیوں کے ساتھ موجود نہیں ہوتی وہاں ن لیگ
والے محترم دوست یہ سمجھ بیٹھے کہ چونکہ وہ یعنی ن لیگ والے نیشنل اسمبلی
میں سو کے قریب نشستیں رکھتے ہیں اور ایم کیو ایم والے اسمبلی کی عمارت کے
باہر صرف پچیس سیٹیں رکھتے ہیں چنانچہ اس طرح کی بیان بازی میں ن لیگ والے
ایم کیو ایم والوں کو باآسانی دبا لینگے مگر حسرت ان غنچوں پر ہے جو بن
کھلے مرجھا گئے (غور غنچوں پر ہی ہے بالوں پر نہیں)۔
بہرکیف نواز شریف صاحب اور الطاف حسین صاحب نے اپنے اپنے پارٹی لیڈران کو
روکنے کے احکامات جاری کردیے ہیں مگر کہتے ہیں نہ کہ “ڈیمیج ہیز بین ڈن “
تو صحیح بات ہے کہ کمان سے نکلا تیر اور منہ سے نکلی بات کس کی پکڑ میں آتی
ہے۔ نواز شریف صاحب کو بھی دیکھنا چاہیے کہ بحیثیت ملک کے سب سے بڑے صوبے
پر حکومت کرنے والی پارٹی کے سربراہ ہونے کے کون سی سیاسی جماعت ہے جو نواز
شریف کے ساتھ کندھا سے کندھا ملا کر کھڑی ہے اس کا کیا مطلب ہے کیا یہ کہ
نواز شریف صاحب صحیح ہیں اور باقی سب غلط یا دوسرا مطلب۔
ن لیگ پہلے کی طرح دو تہائی اور چاروں صوبوں سے منتخب ہونے والی سیاسی
جماعت اب سمٹ کر دو صوبوں میں رہ گئی ہے کہیں ایسا نا ہو سیاست کی جگہ
نفرتوں کی فصل اگاتے ن لیگ کے امیدواران کہیں ایک یا آدھے ہی صوبے میں نہ
رہ جائیں کہ ق لیگ اور پیپلز پارٹی والے جس طرح جم کر صوبہ پنجاب میں ن لیگ
کا مقابلہ کریں گے ہزاروال اور دوسرے علاقوں والے ویسے ہی ن لیگ سے بری طرح
نالاں ہی اور ن لیگ کو اپنی ہی سیٹوں سے ضمنی انتخابات میں شکست یہ بات
خواب سے جگانے کے لیے کافی ہے اگر وہ سمجھنا چاہیں۔ چنانچہ نواز شریف صاحب
کو چاہیے کہ پنجابیوں کو جگانے کی سیاست چھوڑ کر خود جاگ جائیں اور پیار
محبت رواداری، بھائی چارے اور خلوص و اعتماد کو فروغ دینے والی سیاست کریں
تاکہ صوبہ پنجاب کے علاوہ بھی دوسرے صوبوں کے عوام اور حکومتیں انہیں اپنا
دوست اور ہمدرد سمجھیں۔ |