میرے ایک دوست نے بہت گھبراہٹ میں فون پر بات کرتے ہوئے
کہا کہ کسی نے مشورہ دیا تھا کہ انڈوں کو ایک دن کے لیے نمک میں دبا کر
رکھیں اور پھر دو انڈے روزانہ کھانے سے ہائی بلڈ پریشر ٹھیک ہو جائے گا
لیکن مجھے تو الٹا نقصان ہوا ہے اور بلڈ پریشر بڑھنے کے ساتھ میرے جسم میں
کولیسٹرول کی مقدارمیں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ
سوشل میڈیا پر یہ مشور پڑھا، لہذا میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس پر عمل کر کے
فائدہ اٹھایا جائے۔ انہیں عرض کیا کہ سوشل میڈیا پر بے شمار ایسی معلومات
گردش کررہی ہوتی ہیں جو مصدقہ نہیں ہوتیں اس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ بغیر
تصدیق اور تحقیق کسی بھی مشورے پر عمل نہ کیا جائے اور نہ ہی اسے آگے
پھیلایا جائے۔
سوشل میڈیا ایک ایسا منہ زور گھوڑا ہے کہ جو کسی کے قابو میں نہیں اور اس
بدکتے گھوڑے کے برے اثرات سے بچنے کی تدابیر کرنی چاہیے۔ صحت، مذہب،
معلومات عامہ، اقبالیات، سائنس، اردو ادب غرض زندگی کا کون سا ایسا شعبہ ہے
جو سوشل میڈیا کی دسترس سے باہر ہو۔ یہ ٹھیک ہے کہ بہت سی درست اور کارآمد
معلومات بھی ملتی ہیں اور سوشل میڈیا سے علم آگہی کی دنیا میں کئی نئی
راہیں کھلی ہیں لیکن غلط معلومات اور بے احتیاطی بھی اپنی جگہ موجود ہے۔
لوگ بغیر تصدیق کرنے کے آگے بات پھیلا رہے ہوتے ہیں۔ وضعی روایات، صحابہ
اکرام اور بزرگان دین سے منسوب اقوال ، دوسروں کے اشعار کو علامہ اقبال
قرار دینا اور مضر صحت مشورے سوشل میڈیا میں ہر روز گردش میں ہوتے ہیں۔
مذہبی انتہا پسندی، نفرت اور اخلاق سے گری ہوئی پوسٹیں بھی عام ہیں۔ لوگوں
کے مذہبی جذبات سے کھیلتے ہوئے انہیں ثواب کا لالچ دے کر پوسٹ آگے شئیر
کرنے کی ترغیب دیناکیا دین کی تعلیمات ہیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت خود رو
صحافیوں کی بہتات ہے اور جو بھی چندالٹے سیدھے چند الفاظ لکھ لیتا ہے وہ
صحافی بن بیٹھا ہے ۔ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی یے لیکن ایسے نام
نہاد صحافیوں میں وہ بھی مفقود ہوتی ہے۔ تحریف شدہ تحریریں اپنے نام سے
شائع کرانے میں معمولی سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ سویڈن میں پہلی
مرتبہ اسٹاک کی ترک مسجد میں اذان دینے کی جب اجازت ملی تو اس کی رپورٹ
راقم کے حوالے سے ایک معروف نجی ٹی وی پر پیش کی گئی۔ حیرت کی انتہا اس وقت
ہوئی جب اسی ویڈیو رپورٹ کو تحریف کرکے اس طرح سوشل میڈیا پر پیش کیا گیا
کہ’’ برطانیہ کی ایک مسجد جہاں خود بخود اذان کی آواز بلند ہوتی ہے جس پر
انگریز میڈیا حیران ہے‘‘۔ یا اﷲ، کیسا جھوٹ ہے لیکن لوگ سبحان اﷲ لکھ کرکے
شئیر کرتے جارہے ہیں۔ اسلام کو سچا ثابت کرنے کے جھوٹی اور کمزور دلیلیں دی
جاتی ہیں جن کا بعد میں الٹا نقصان ہوتا ہے۔ کسی بھی شخص کے بارے جو دل آئے
لکھتے جائیں اور دوسروں کی پگڑی اچھالتے وقت ذرا سا بھی لحاظ یا شرم محسوس
نہیں ہوتی۔نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ خوف خدا۔ہمارے ایک دوست کو اپنے
آبائی علاقہ میں فلاح و بہبود کے کاموں میں سرگرمی سے مصروف ہیں، ان کے
حاسدین نے ان پر بجا الزامات لگائے جس سے ان کی بہت دل آزاری ہوئی۔ قرآن
حکیم نے سختی سے کسی پر بہتان لگانے اور عزت اچھالنے سے منع کیا ہے۔ ایسا
کرنے والوں کو یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ایک دن قانون مکافات عمل کا
وہ خود بھی شکار ہوجائیں گے اور آخرت میں سزا الگ سے ملے گی۔
سمارٹ فون آنے سے سوشل میڈیا ایک وبائی صورت اختیار کرچکا ہے جس کا سب شکار
ہوچکے ہیں۔ سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے دور سے قبل سویڈن میں سفر کرتے وقت
یا انتظار گاہوں میں لوگوں کے ہاتھوں میں کتاب ہوتی تھی لیکن اب فون ہوتا
ہے۔ بڑے تو ایک طرف رہے اب تو شیرِخوار بچے بھی سمارٹ فون کے عادی ہو چکے
ہیں۔ بچے جب تنگ کرتے ہیں ماں باپ اس کے ہاتھوں میں فون گھما دیتے ہیں اور
پھر بچہ چھوڑنے کا نام نہیں لیتا۔ میرا اپنا نواسہ ابراہیم بھی ان میں شامل
ہیں۔سوشل میڈیا پر جو کچھ ایک عام آدمی تک پہنچتا ہے اسے محض دیکھنے کے لیے
پورا دن بھی کم ہے اوربالکل فارغ شخص بھی اس سے عہدہ براہ نہیں ہوسکتا ہے۔
پیغام رسانی کے جو پروگرام بنے ہیں ان کا فائدہ اپنی جگہ لیکن وہ درد سر
بنتے جارہے ہیں۔ واٹس اپ پر اتنے زیادہ پیغامات آتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔
لوگ اتنا بھی تکلف نہیں کرتے کہ کسی گروپ میں شامل کرنے سے قبل اخلاقی طور
پر اجازت ہی لے لیں۔ ایک پیغام مختلف لوگوں اور گروپس سے اتنی بار آتا ہے
کہ آدمی زچ آجاتا ہے۔ اگرکوئی خود لکھ کر اپنے خیالات بھیجے تو اس میں کچھ
انفرادیت بھی ہوگی لیکن یہاں تو copy اور paste سے کام چلایا جاتا ہے یا
پھر share کا بٹن دبایا جاتا ہے۔ لمبی لمبی ویڈیو اور طویل عبارت والے
پیغامات کون پڑھ سکتا ہے۔ کئی لوگ بس اس دھن مگن رہتے ہیں کہ زہادہ سے LIKE
ملیں اور ان کے قدردان بھی کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں کہ پڑھے یا ویڈیو دیکھے
جھٹ سے LIKE کا انگوٹھا لگا دیتے ہیں۔ دور حاضر میں سوشل میڈیا اب ضرورت بن
چکا ہے اور باوجود اس کی کئی خرابیوں کے اس کے فوائد بے شمار ہیں۔ مدتوں سے
جن دوستوں کی خبر نہیں تھی، فیس بک نے نہ صرف تلاش کردیئے بلکہ ان سے مسلسل
رابطہ بہت خوش کن ہے۔ فوری پیغام رسانی ، معلومات اور اہم دستاویزات کی
سرعت کے ساتھ ترسیل کے لیے سوشل میڈیا سے بہتر کوئی بھی نہیں اور وہ بالکل
مفت۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس میں توازن لایا جائے اور اسے غیر ضروری مقاصد
اور وقت کے ضیائع کا باعث نہ ہو۔کوشش ضرور کرنی چاہیے اگرچہ سوشل میڈیا کے
عادی افراد کے لیے یہ کوشش کوئی آسان کام نہیں اور پھراس عادت سے گھر میں
نقص امن کا بھی شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ |